ایک کائناتی سچائی ہے کہ آج کے نمایاں ممالک ظالمانہ کنٹرول میں ہونے والے خون خرابوں اور مزاحمتوں کے بعد ہی معرض وجود میں آئے۔ مثلاً امریکہ میں اپریل 1861ء سے لے کر مئی 1865ء تک یعنی چار سال تین ہفتے چھ دن سِول وار جاری رہی۔ امریکہ کی اس سول وار میں تقریباً دس لاکھ لوگ مرے اور تقریباً پانچ لاکھ لوگ شدید زخمی یا اپاہج ہوئے۔ تب جاکر ابراہم لنکن کی کوششیں رنگ لائیں اور امریکہ کو امن نصیب ہوا۔ فرانس مئی 1337ء سے اکتوبر 1453ء تک یعنی 116 برس برطانیہ کے ساتھ کشت و خون کی ندیاں بہاتا رہا، پھر بھی آج کا فرانس نہ بن سکا۔ فرانس کو موجودہ خوبصورت روپ دھارنے کے لئے مشہور زمانہ انقلاب فرانس کے خونی دریا سے گزرنا پڑا۔ بدامنی اور خون خرابے کا یہ دور مئی1789ء سے نومبر 1799ء تک یعنی دس برس جاری رہا۔ انقلاب فرانس میں ایک اندازے کے مطابق قتل کرنے والی مشین گلوٹین کے ذریعے تقریباً 16ہزار 5سو 94 لوگوں کو ذبح کردیا گیا جبکہ تقریباً 40 ہزار قیدیوں، غلاموں اور دیگر لوگوں کو مقدمے چلائے بغیر اگلے جہان پہنچا دیا گیا۔ تاریخ کو لہولہان کر دینے والی اس جنگ و جدل کے بعد بالآخر نپولین نے فرانس کو امن کا راستہ دکھایا۔ چین کی ماڈرن تاریخ میں دو ادوار میں سِول وار کی صورت میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ پہلی مرتبہ اگست 1927 سے دسمبر 1936ء تک یعنی 9برس 4ماہ چینی لوگ موت کی آغوش میں سانس لیتے رہے۔ دوسری مرتبہ مارچ 1946ء سے مئی 1950ء تک یعنی 4برس 1ماہ چینیوں کا خون بہتا رہا۔ ان دونوں عِہدوں میں تقریباً 8ملین یعنی 80لاکھ چینی سِول وار کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اس قیامت خیز بدامنی کے بعد چین کا امن وجود میں آیا۔ عیسائیوں کے مقدس شہر ویٹی کن سٹی اور یورپ کے درمیان واقع اٹلی میں ماڈرن ہسٹری کی سِول وار ستمبر 1943 سے مئی 1945ء تک یعنی ایک سال آٹھ ماہ جاری رہی جس میں تقریباً 81ہزار اطالوی لوگ جان کی بازی ہار گئے۔ پھر موجودہ امن والے اٹلی کی بنیاد شروع ہوئی۔ سابق سوویت یونین کو بنانے میں نومبر 1917ء سے اکتوبر 1922ء تک روس کی ریاستوں کی گلیوں محلوں میں ریڈ آرمی اور وائٹ آرمی کے درمیان پانچ برس دست بدست لڑائی جاری رہی۔ ریکارڈ کی عدم دستیابی کے باعث ایک اندازے کے مطابق تقریباً 15لاکھ باشندے سوویت یونین بنانے کی خواہش میں لقمہ اجل بنے۔ ٹیکنالوجی کے بادشاہ جاپان نے بھی سِول وار کی صورت میں خون کی دلدل پار کی۔ وہاں جنوری 1868ء سے جون 1869ء تک یعنی ڈیڑھ برس زندہ انسانوں کو موت کی نیند سلایا جاتا رہا۔ اس بربادی میں تقریباً 8ہزار 2سو جاپانی مارے گئے اور تقریباً 5ہزار شدید زخمی یا اپاہج ہوئے۔ جرمنی کی سِول وار کو نومبر ریوولوشن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ پہلی جنگ عظیم کے بعد نومبر 1918ء سے اگست 1919ء تک جاری رہی۔ اس میں سیکڑوں غیرمسلح سویلینز مارے گئے، شدید زخمی یا اپاہج ہوئے۔ جمہوریت کے بادشاہ برطانیہ کی سِول وار کو انگلش سِول وار کہا جاتا ہے جو اگست 1642ء سے ستمبر 1651ء تک جاری رہی۔ اس میں سیاست دانوں، اپرکلاس لینڈ لارڈز اور شاہی سورماؤں کے درمیان تلواریں اور گولیاں چلتی رہیں۔ نوبرس کی اس سِول وار میں تقریباً 1لاکھ 27ہزار برطانوی سویلینز اور مسلح افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ آج کے یورپ کا خوبصورت ناروے 1130ء سے 1240ء تک یعنی 110 برس جاری رہنے والی سِول وار کی بھٹی میں جلتا رہا۔ ناروے کی اس سِول وار میں کئی بادشاہ، شہزادے اور سپہ سالار قتل ہوئے جبکہ لاکھوں نارویجن باشندوں کے ٹکڑے کردیئے گئے۔ جنیوا اقوام متحدہ کے دفاتر کا شہر ہے۔ یعنی اس شہر میں امن و آشتی کا پیغام دینے والے بین الاقوامی دفاتر موجود ہیں۔ جنیوا سوئٹزر لینڈ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ سوئٹزر لینڈ بھی سِول وار کی تپش سے بچ نہ سکا۔ تین نومبر 1847ء سے 29 نومبر 1847ء تک یعنی 26 روز جاری رہنے والی اس سِول وار میں درجنوں سوئس شہری ہلاک، شدید زخمی اور اپاہج ہوئے۔ اس کے علاوہ کینیڈا، ارجنٹائن، یونان، چلی، آسٹریلیا، آئرلینڈ، فن لینڈ، پرتگال، سپین، نیوزی لینڈ، برازیل، میکسیکو، ملائیشیا، پولینڈ، رومانیہ، کوریا، سوڈان، ویتنام، تھائی لینڈ، کمبوڈیا، بنگلہ دیش، لبنان، سری لنکا، جارجیا، یوگوسلاویہ، بوسنیا، تاجکستان، چیچنیا اور نیپال وغیرہ جیسے ممالک کی ہسٹری میں بھی سول وارز کے دلخراش خونی باب درج ہیں جبکہ عراق، شام، افغانستان، بھارتی مقبوضہ کشمیر، فلسطین، صومالیہ، میانمار اور یمن جیسے کئی خطوں میں سول وار کی صورت میں انسانی خون پینے کا سلسلہ اب بھی ختم نہیں ہوا۔ انسانی تاریخ کی سب سے ہولناک سول وار جمہوریت کے چیمپئن بھارت کے آباؤ اجداد کے درمیان لڑی گئی۔ اس کا ذکر ہندوؤں کی مذہبی کتاب مہابھارت میں موجود ہے۔ یہ سول وار اقتدار کے لئے بھارتی کزنوں کے درمیان پری ہسٹری دور یعنی 5561 سے 3102 قبل مسیح کے درمیان کسی زمانے میں ہوئی جوکہ 18 دن تک جاری رہی۔ اِس میں تقریباً 39لاکھ 36ہزار 6سو بھارتی اقتدار کی ہوس کی قربان گاہ پر چڑھا دیئے گئے۔ ہسٹری یہ بھی بتاتی ہے کہ برصغیر میں اشوکا، مغل، خلجی، برٹش، تغلق، لودھی، غوری، غزنوی، سوری، مرٹھا اور سکھ شاہی وغیرہ سمیت سب سلطنتیں خونریز جنگوں اور سول وارز کے بعد ہی قائم ہوئیں۔ مذکورہ بالا تاریخ کے لال صفحات کا سرسری جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہوگا جس کو بنانے میں ریاستی سطح پر انسانی خون نہ بہایا گیا ہو لیکن پاکستان اقوام عالم میں شاید وہ واحد ملک ہے جو پرامن طریقے سے محض ایک قرارداد کے ذریعے معرض وجود میں آیا۔ 23مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور سے لے کر 14 اگست 1947ء کو پاکستان بننے تک پرامن تحریک چلی۔ ریاستی سطح پر منصوبہ بندی کے تحت کسی قسم کا کوئی خونی تشدد نہیں ہوا۔ پاکستان بننے کے بعد مہاجرین کی باہمی آمدورفت کے دوران جو قتل و غارت ہوئی وہ ریاستی سطح پر نہیں تھی بلکہ انفرادی اور مقامی گروہی سطحوں پر تھی۔ تاریخ کا حساب کتاب لگانے والے نجومیوں کے نزدیک یہ بات ایک معجزے سے کم نہیں ہونی چاہئے کہ قتل و غارت اور خون خرابے کے بغیر صرف ایک قرارداد کی بنیاد پر ایک نیا ملک بن گیا۔ اس کے بعد 1956ء میں 23 مارچ کے دن ہی پاکستان کا پہلا آئین اپنایا گیا۔ آئین بھی امن کی کتاب کو ہی کہا جاتا ہے۔ لہٰذا ملک بنانے کی قرارداد اور ملک کو چلانے کے لئے آئین اپنانے کے باعث پاکستان کا خمیر امن سے ہی ابھرا۔ دفاع امن کا دوسرا نام ہے۔ جس ملک کا دفاع مضبوط ہوگا وہاں امن بھی پائیدار ہوگا۔ اسی لئے اِس برس یعنی 2023ء میں 23 مارچ والے تاریخی پرامن دن کا تھیم بھی خاص طور پر امن سے جوڑا گیا ہے یعنی یکجان پاکستان۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.