عاقبت نااندیش سیاست دان۔ بیوروکریٹس

56

اخبار ی خبرو ں سے معلومات ملتی ہیں کہ 2022 ء میں دنیا کے امیر ترین افراد 10کھرب ڈالر سے محروم ہوگئے ہیں، جس کی وجہ توانائی اور معاشی بحران سمیت سیاسی حالات بنے ہیں۔ ٹیکنالوجی کمپنی میٹا نے مالی اہداف کے حصول کے لیے مزید ہزاروں ملازمین کی برطرفی کی منصوبہ بندی کرلی ہے۔جنرل موٹرز کمپنی ایگزیکٹو اور دیگر سٹاف کے سیکڑوں افراد کی برطرفی کا آغاز کر لیا ہے کہ پیداواری لاگت کو کم کیا جاسکے۔سعودی آرامکو نے 2022ء میں 161.1 ارب ڈالر کا ریکارڈ منافع کمایا ہے جو مائیکرو سافٹ، گوگل، امازون سے زیادہ ہے۔ اسلام آباد سمیت ملک بھر میں جان بچانے والی 131 ادویات کی شدید قلت۔وزارتِ صحت کے حکام نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کو خط لکھ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ مارکیٹ میں عدم دستیاب ادویات زیادہ تر ملٹی نیشنل دواساز کمپنیوں کی ہیں۔ اکثر کمپنیوں نے قیمتوں کے تنازع پر پیداوار بند کردی۔نیپرا نے برآمدی شعبے کے لیے 12 روپے 13پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی منظوری دی ہے۔ڈالرکی قدر اور اور بجلی کے نرخوں میں اضافے سے فیصل آباد کی پاور لومز انڈسٹری تباہ کردی ہے۔ پینا ڈول ایکسٹرا کی دس گولیوں کی قیمت 27.50 سے بڑھا کر 33.20 کردی ہے۔ پاکستان کا ہفتہ وار افراطِ زر 45.64%کی خطرناک حد تک پہنچ گیاہے۔نسان نے پاکستان میں کار پلانٹ بند کردیا ہے۔فروری,2023 میں پاک سوزوکی کی آلٹو کار کے ملک بھر میں صرف 544 یونٹ فروخت ہوئے۔پاکستان میں آٹو کاروں کی فروخت 73% کم ہوگئی جو گزشتہ تین سال کے دوران کم ترین شرح ہے۔پاک سوزوکی نے پاکستان میں موٹر سائیکل پروڈکشن بند کردی ہے۔ہنڈا سی ڈی 70 کی قیمت 145,000/- ہوگئی ہے۔
گرامی قدر سلمان عابد ایک معروف کالم نگار، مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ سلمان عابد اپنی رائے دلائل اور زمینی حقائق کی بنیاد پر پیش کرتے ہیں۔ معیشت کے حوالے سے ایک نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے سلمان عابد صاحب کا فرمانا تھا کہ معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے ہمارے سیاسی اور فوجی حکمران اسٹرکچرل ریفارمز کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔جن شعبوں اور جن طبقات پر ریفارمز کرنی چاہیے تھیں وہ ہم نہیں کیں بلکہ ہم نے ایک مخصوص طبقے کو طاقتور بنا کر عام آدمی پر سارا بوجھ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔یہ ہی وجہ ہے عالمی ادارے اور امداد کرنے والے ممالک یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ جو پیسہ ہم سے لیا جاتا ہے وہ عام آدمی کے بجائے طاقتور طبقات پر لگا دیتے ہیں اور عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں ملتا، عام آدمی کو ریلیف نہ ملنے کی وجہ حکومت عوام کو یہ بتاتی ہے کہ یہ تمام ٹیکس اور مہنگائی دراصل شاخسانہ ہیں آئی ایم ایف کی سخت پالیسیوں کا۔ ہماری حکومتیں اندازِ حکمرانی تبدیل کرنے پر تیا ر نہیں ہیں، جہازی سائز کی کابینہ کی تعداد کم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔تعیشات کو ختم کرنے یا کم ہی کرنے پر بالکل تیار نہیں ہیں۔ بجائے اس کے کہ ملک میں صنعتیں لگائی جائیں، ہمارے یہاں پُل، انڈر پاسز، میٹر و بس، اورنج ٹرین اور موٹر ویز بنانے پر توجہ دی جاتی ہے۔ یہاں انہوں نے یہ واضح کیا کہ اس میں دوسری رائے نہیں کہ ان اہمیت بھی اپنی جگہ موجود ہے، لیکن ترجیح صنعت ہی کو ملنی چاہیے۔ بڑی صنعتوں کے ساتھ ساتھ سمال انڈسٹری بھی لگانی چاہئے جیسے کہ ہندوستان اور بنگلہ دیش میں ہوا۔ نئی بڑی چھوٹی صنعت کو تو جانے دیجئے، ہم نے تو یہاں ایسی ایسی پالیسیاں بنائی ہیں کہ پہلے سے قائم صنعتیں بھی نیم مردگی کی حالت پر پہنچ چکی ہیں۔ اس کے ساتھ ہماری معاشی پالیسیوں میں تسلسل نہیں ہے، آنے والی ہر نئی حکومت پچھلی حکومت کی پالیسیوں کے بالکل متضاد پالیسیاں بناتی ہے۔ملک میں معیشت کو چلانے کا بس ایک ہی فارمولا اختیا ر کیا گیا کہ عالمی اداروں پر ہی انحصار کیا جائے، اور ظاہر ہے کہ جب وہ قرض یا امداد دیں گے تو ہدایات بھی دیں گے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں جب اپوزیشن کا حصہ ہوتی ہیں تو آئی ایم ایف سے معاہدے ملک دشمنی قرا ر دیتی ہیں۔ لیکن جب اقتدار میں آتی ہیں تو سب سے پہلے آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر ماتھا ٹیکتی ہیں۔ ایک عام آدمی بھی اس بات کا ادراک رکھتا ہے کہ معیشت وہیں درست سمت میں چلتی ہے جہاں سیاسی استحکام ہو، جہاں ادارے مضبوط ہوں۔ ہمارے یہاں گزشتہ 25 سال میں جس شعبے نے ترقی کی ہے وہ پراپرٹی کا ہے۔
اپنے اس مختصر تجزیے میں سلمان عابد صاحب نے پاکستان کی تباہ حال معیشت کے بنیادی سبب کی نشاندہی کی ہے۔ پراپرٹی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے جو نقصانات ہیں وہ اس کے فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوا ہے کہ زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سکیمیں بنانے سے زرعی پیداوار میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اب بنیادی اور روزہ مرہ کی سبزیاں بھی دورکے شہروں سے آرہی ہیں جن کے کرائے کی لاگت سے ان سبزیوں کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے جو مہنگائی کا بھی سبب ہے۔ دوسرا قومی دولت صنعت میں لگنے کے بجائے زمین میں دفن ہورہی ہے جس کی وجہ سے سفید پوش اور متوسط طبقے کے لیے اپنے گھر کا تصور خواب ہی رہ گیا ہے۔صنعت کی بدحالی سے ملک کی برآمدات میں واضح کمی واقع ہوئی ہے جس سے تجارتی خسارہ بڑھا ہے۔
مندرجہ بالا سطور میں چندخبریں اور ایک غیر جانبدارانہ تجزیہ بیان کیا گیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی کساد بازاری کے بدترین اثرات محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ ہمارے جیسے پس ماندہ ملک میں تو معاشی حالات کہیں زیادہ خراب ہیں۔ لیکن ہمارے اقتدار و اختیار پر قابض طبقات کی ذہنی پسماندگی کا اندازہ لگائیں کہ یہ باہمی اختلافات اور ذاتی الزام تراشی کے دائرے ہی سے باہر نہیں نکل پا رہے ہیں۔ توشہ خانہ کی تفصیلات آ نے کے بعد تو ہر کسی کے چہرے سے نقاب اتر گیا ہے۔

تبصرے بند ہیں.