راستے بند نہ کریں

61

چند دنوں بعد ہم ایک اور یوم پاکستان منانے جا رہے ہیں،لیکن یہ بات سوچنی پڑے گی کہ آج پون صدی گزرنے کے بعد بھی کیا ہم ایک قوم بن سکے ہیں ؟ ہم مسلمان ہیں مگر ہمارے ساتھ پاکستان میں عیسائی،ہندو، اور سکھ بھی بستے ہیں ،کیا ہم نے کبھی سوچا کہ وہ بھی ہماری طرح پاکستانی ہیں ،اسی طرح ہمارے اندر پنجابی، پختون، سندھی بلوچی کے بعد مہاجر،ہزارہ،پوٹھوہاری،براہوی کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم جاری ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہآج تک کسی حکمران،اہل علم ودانش،صاحبان فہم و شعور اور ماہرین عمرانیات نے اس تقسیم اور گروہ بندی کے اسباب جاننے کی کوشش نہیں کی جس کے نتیجے میں زبان اور مذہب کے بعد اب مسلک کے نام پر قوم تقسیم ہو رہی ہے۔ پاکستانیت اس ساری تقسیم کے عمل میں کہیں گم ہو کر رہ گئی ہے، خوشیاں منانا زندہ دلی کی نشانی ہے مگر ان خوشیوں کو مناتے ایک لمحہ کیلئے ہم نے سوچا کہ ہم سب کچھ ہیں مگر صرف پاکستانی نہیں ہیں۔
مجھے اپنے قائد یادآ رہے ہیں، بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے یومآزادی سے پہلے 11اگست1947کو پہلی دستور ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا”آج ہم ایک قوم ہیں،کسی کو کوئی امتیاز حاصل نہیں،اللہ کا شکر کہ آج ہم ایک ایسی ریاست کی ابتداءکر رہے ہیں جہاںہر ذات برادری،نسل ،مذہب کے لوگ برابر ہوں گے اور ان کو مساویانہ شہری حقوق حاصل ہونگے،شہری عبادت کیلئے مسجد،چرچ،مندرجانے کیلئے آزاد ہونگے،اور اپنے عقائد کے مطابق مذہبی فرائض ادا کرسکیں گے،آپ کا تعلق کسی مذہب،ذات ،رنگ،نسل سے ہو ریاست کو اس کوئی غرض نہیں،ریاست کی نظر میں سب برابر کے شہری ہیں“۔
اپنے قائد کے ارشادات کی روشنی میں مجھے اسی لئے ایک مسلمان علی احمد ڈھلوں اچھا لگتا ہے جو ان گئے گزرے حالات میں بھی غیر مسلم پاکستانیوں اور ان کے حقوق کی بات کر رہا ہے،برادر محترم،اچھے انسان اور سینئر صحافی ہیں ،انکی تحریروں میں جدت اور تنوع ہمیشہ سے نمایاں رہا ہے،مگر ”پاکستان کی روشن اقلیتیں“کے نام سے علی احمد ڈھلوں کی نئی تصنیف صاحبان علم ودانش کیلئے لمحہ فکریہ ہے، جس میں انہوں نے حکام اور حکیموں کو بتایا ہے کہ ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا، اگر چہ بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا مگر وقت کی ڈور اب بھی ہمارے ہاتھ میں ہے،اب بھی نفرت،عصبیت اور کدورتوں کے اس کاروبار سے ناطہ توڑ کر ہم ایک قوم صرف اور صرف پاکستانی قوم بن سکتے ہیں۔
اسلامی اور تیسری دنیا کے ماضی و حال پر سرسری سی نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے اس تقسیم درتقسیم کی اصل وجہ اقلیتوں سے امتیازی سلوک اور انہیں ریاست میں برابر کے حقوق نہ دینا ہے،غیر مسلم اقلیتیں اس نفرت اور عصبیت کے باعث اسلامی ممالک اور تیسری دنیا خاص طور پر سارک ممالک میں دوسرے درجے کے شہری بن چکی ہیں،اللہ رب العزت نے اپنی تمام مخلوق کو زندہ رہنے کیلئے برابر کے حقوق دئیے،زندگی کیلئے ضروری ہوا،پانی،حرارت ،روشنی کی تقسیم اپنے دست قدرت میں رکھی،رزق کی تقسیم بھی اسی رب کائنات کے ہاتھ میں ہے،مگر اس کام میں دیگر انسانوں کو بھی اللہ پاک نے شریک کر کے انسان کو شرف بخشا،ریاست کاآئین بھی ہر اقلیت کو برابر کے شہری حقوق دیتا ہے،مگر بعض ممالک میں مذہبی ٹھیکیدار اقلیتوں کو فطری اورآئینی حقوق دینے پر تیار نہیں،جس کی وجہ سے ان ممالک میں ترقی کی رفتار انتہائی کم ہے۔
ہمارے ساتھ آزادی حاصل کرنے والے جن ممالک نے تیزی سے ترقی کے زینے طے کئے ہیں ان پر اچٹتی سی نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں دراصل کوئی اقلیت ہی نہیں،ان میں سر فہرست چین ہے جہاں اپنی الگ اجتماعی مذہبی شناخت ظاہر کرنے پر پابندی ہے مگر انفرادی حیثیت میں اپنے مذہبی عقائد کے مطابق عبادت کرنے میںتمام لوگ آزاد ہیں،اگر چہ چین ایک لا دین ریاست ہے مگر جین مت اور بدھ مت کے علاوہ کنفیوشس کے ماننے والوں کی اک بڑی تعداد وہاں مقیم ہے انہی میں مسلمان، عیسائی، یہودی، سکھ اور ہندو بھی آباد ہیں اور خوش وخرم ہیں۔کینیڈا بنیادی طور پر مسیحی اکثریتی ریاست ہے،مگر وہاں دیگر مذاہب کو اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی حاصل ہے،چین میں ہر شہری چینی ہے تو کینیڈا میں ہر شہری کینیڈین ہے،انسان اور شہری ہونے کے ناطے ہر شہری کو مساویانہ حقوق حاصل ہیں،مذہبی تفریق ہے نہ رنگ ونسل کی،کسی کو کسی کے مذہبی عقائد پر اعتراض بھی نہیں،نتیجے میںآج شخصی آزادیاں دینے والے ممالک تیزی سے ترقی کے زینے طے کر رہے ہیں،بد قسمتی سے ہمارا ملک اس حوالے سے ترقی معکوس کا شکار ہے،پاکستانی عوام کی ہمدردیاں تقسیم ہیں،کوئی سعودی عرب کا قصیدہ کہتا ہے کوئی ایران کا،کسی کو افغانستان سے محبت ہے اور اب کچھ لوگ ترکی کی محبت میں گرفتار دکھائی دیتے ہیں،کوئی امریکہ نواز ہے تو کوئی روس اور چین نواز،ایسے میں ایک قوم بننے کا تصور کیسے ممکن ہے۔
اب ذرا قائد اعظم کے خطاب کی روشنی میں پاکستان کی حالت زار کا اندازہ اعداد و شمار کی روشنی میں لگاتے ہیں،آزادی کے وقت متحدہ پاکستان میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 77فیصد اور غیر مسلم 23فیصد تھے،جن میں مشرقی پاکستان میں بڑی تعداد میں ہندو بھی شامل تھے،جو اب ہمارا حصہ نہیں رہا،حمودالر حمٰن کمیشن کی رپورٹ پر ایک نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا مشرقی پاکستان بھی بنگلہ دیش اسی وجہ سے بنا کہ بنگالیوں سے منصفانہ سلوک نہ کیا گیا،اب ایسی ہی صورتحال کا سامنا موجودہ پاکستان میں غیر مسلموں کو ہے جس کے نتیجے میں غیر مسلم پاکستانی افراد تیزی سے نقل مکانی کر رہے ہیں،1998ءکی مردم شماری کے وقت غیر مسلم کی آبادی کا تناسب 4.5فیصد تھا جو مزید کم ہو کر اب3.5فیصد رہ گیا ہے،22سال کے عرصہ میں 20لاکھ غیر مسلم شہری پاکستان کو خیر باد کہہ گئے،قومی سبز ہلالی پرچم میں ان کی آبادی کے تناسب سے ہی سبز کے ساتھ سفید رنگ شامل کیا گیا تھا مگر ہم اس کی لاج نہ رکھ سکے۔
ہمیں دیکھنا ہو گا کہ پیارے پاکستان میں غیر مسلم پاکستانیوں کی ترقی کے راستے کون بند کر رہا ہے؟ویسے تو اب یہاںمقبول لیڈروں کے گھروں کو جانے والے راستے بھی بند کر دیے جاتے ہیں، مگر جبر،دھونس اور دھاندلی سے راستوں کو زیادہ دیر تک بند کیا جا سکتا ہے نہ ہی عوامی سیلاب کے سامنے بند باندھا جا سکتا ہے، علی احمد ڈھلوں کی کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ آج تک ایک پاکستانی قوم نہ بننے کی سب سے بڑی وجہ غیر مسلم پاکستانیوں کے حقوق کی پامالی، ان کو دوسرے درجے کا شہری قرار دینا ہے،جب ہم نے افراد کو ستارہ نہیں سمجھا تو ملت کی کہکشاں کیسے وجود میںآسکتی ہے۔ابھی وقت ہے خدارا ہر قسم کی نفرت،عصبیت،عدم مساوات،غیر یقینی کو ختم کر کے مملکت خداداد میں بسنے والے ہر شہری کو بلا امتیاز رنگ،نسل،ذات،مذہب زندہ رہنے کے مساویانہ حقوق دینے ہوں گے اور یہی قائد کے پاکستان کی اساس ہے۔

تبصرے بند ہیں.