گھناؤنے چہرے بے نقاب، آخری کھیل شروع

34

ملک تباہ کرنے والے گھناؤنے چہرے بے نقاب ہو رہے ہیں، ہو گئے ہیں۔ آخری کھیل شروع ہو گیا۔ عوام کے ایک بڑے طبقہ کی عقل پر پردے پڑے ہیں گویا ”کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا“ نہیں جانتے کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ بساط لپیٹی جا رہی ہے۔ اہل درد مسلسل چیخ رہے ہیں کہ ”ذرا محفوظ رستوں سے گزرنا، گھناؤنے کھیل کی سرگوشیاں ہیں۔“ کپتان صرف مہرہ، اصل چہرے، کردار ان کے پیچھے سرگرم عمل، سیاست کے نام پر شاہراہوں چوکوں اور انصاف کے ایوانوں میں جو کچھ ہو رہا ہے 77 سال میں کبھی نہیں ہوا۔ دس منٹ میں 9 ضمانتیں، انصاف اتنا سستا اور فوری، انصاف زندہ باد، گزشتہ ہفتے کی دلدوز روداد، لاہور کا زمان پارک نو گو ایریا بن گیا۔ خیبر پختون خوا اور گلگت بلتستان سے بقول ملیحہ ہاشمی ”ٹرینڈ مجاہدین“ زمان پارک پہنچ گئے۔ جن کے پاس ہیلی کاپٹر گرانے کے تمام انتظامات مکمل ہیں۔ ”ہیلی کاپٹر غلیلوں سے تو گرائے نہیں جا سکتے اس کے لیے میزائل استعمال ہوتے ہیں۔ کیا سمجھے؟ ان ٹرینڈ مجاہدین کے پاس میزائل کہاں سے آئے“ مجاہدین زمان پارک میں کیوں اور کیسے آئے۔ گلگت بلتستان کے سزا یافتہ اقبال خان، بسم اللہ اور عبداللہ نامی عسکریت پسندوں کی نشاندہی کی گئی۔ کون لوگ ہیں جو کپتان کے تحفظ کے لیے بلائے گئے ہیں۔ سوچ کر دل کانپ کانپ جاتا ہے۔ سب کو پتا ہے کون لوگ ہیں۔ کئی سال سے تخریب کاری، دہشت گرد کارروائیوں میں مصروف، بے گناہوں کی جانوں سے کھیلنے والے کپتان کی جان بچانے کی آڑ میں کون سا گھناؤنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ گھناؤنے کھیل کے پیچھے کون ہے؟ جو کپتان کے بجائے پولیس کو نہر والے پل تک پیچھے ہٹنے اور کپتان کے سامنے سرنڈر کرنے کی تلقین کر رہا ہے۔ ناقابل ضمانت وارنٹ ڈھیلے ڈھالے وزیر داخلہ نے جاری نہیں کیے سیشن عدالت سے جاری ہوئے فرد جرم عائد کرنا تھا۔ 21 فروری، 28 فروری، 7 مارچ، 13 مارچ تک پیشی کا انتظار کیا۔ 18 مارچ یعنی پانچویں تاریخ کو عالی جاہ سیشن کورٹ میں کارکنوں کے جھرمٹ میں تشریف لائے تاریخ میں پہلی بار سیشن کورٹ ایک دن کے لیے ضلع کچہری سے جوڈیشل کمپلیکس میں منتقل کرنا پڑا۔ عدالتوں پر دباؤ ہے کیا؟ دباؤ بڑھ جائے تو معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں۔ سیشن جج با ہمت اور حوصلہ مند شخصیت کسی دباؤ میں نہیں آئے۔ 18 مارچ سے قبل مال روڈ پر راجہ پورس کی دو دن تک لڑائی ہوتی رہی۔ نہتی پولیس کے 63 اہلکار ہاتھ پاؤں تڑا کر ہسپتالوں میں لیٹے ہیں بظاہر غلیلوں والے ”مجاہدین“ نے پیٹرول بموں سے واٹر کینن ہی نہیں مال روڈ اور ٹھنڈی سڑک کے حسن کو آگ لگا دی۔ لاہور دو دن تک بند رہا۔ حکومت اپنے اہلکاروں کا تحفظ کرنے میں ناکام، کردار صفر، پارلیمنٹ لا تعلق جانے کس کے کہنے پر مذاکرات کی پیشکش کر دی لیکن ”چوروں ڈاکوؤں“ سے کیسے بات کریں گے۔ مذاکرات سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ کپتان بذات خود مذاکرات نہیں کریں گے۔ ٹیمیں مذاکرات میں شریک ہوں گی ڈیڈ لاک ہو گا۔ کنویں میں نجس جانور گر گیا۔ ڈھائی سو بالٹیاں نکالنے سے کنواں پاک نہیں ہو گا۔ 77 سال میں کسی چھوٹے بڑے لیڈر نے گرفتاری سے بچنے کے لیے اپنے حامیوں کو اس طرح ڈھال نہیں بنایا خیبر پختون خوا اور گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ، اٹوٹ انگ وہاں کی پولیس ایک سابق وزیر اعظم کی حفاظت کے لیے کس کی اجازت سے لاہور آئی۔ یہ بھی زیر بحث ہے کہ کیا کپتان کے سارے محافظوں کا تعلق کے پی کے پولیس سے تھا یا علی امین گنڈا پور کے بھیجے گئے ”ٹرینڈ مجاہدین“ ہیومن شیلڈ کے طور پر زمان پارک کے ارد گرد خمہ زن تھے منشیات کے عادی نوجوانوں کی موجودگی کی نشاندہی بھی کی گئی۔ خواتین رات گیاہ بجے کے بعد کیا کرنے آتی تھیں۔ اس کی شکایت مبینہ طور پر ڈاکٹر یاسمین راشد سے کی گئی۔ لیکن انہوں نے اپنی ہی سابق رکن اسمبلی کو ٹال دیا۔ پیٹرول کا ذخیرہ کیا گیا۔ اسی سے بم بنا کر عدالتی وارنٹ پر عملدرآمد کرانے والے پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔ فاضل جسٹس نے بجا طور پر کہا کہ وارنٹ گرفتاری کروڑوں میں پڑے ان پر عملدرآمد کے دوران کروڑوں کا نقصان ہوا۔ کیا کسی اور ملک میں بھی
اس قسم کی جنگ پلاسی ہوتی ہے۔ عدالتوں کا احترام لازم، پیشی کے لیے کہیں تو پیش ہونا قانونی پابندی، جان کے خطرے یا کسی پُر اسرار بیماری کے بہانے وارنٹ کی وصولی سے انکار یا ان پر عملدرآمد میں مزاحمت جرم۔ کیا کپتان کے ارد گرد جمع نامی گرامی وکلا کو ان پابندیوں کا ادراک نہیں یا کپتان کی حمایت کے بعد لا تشعرون کے زمرے میں شمار ہونے لگے ہیں۔ یا پھر سٹار ٹریک کی کوئی فلم چل رہی ہے جس میں کپتان کوئی غیر انسانی مخلوق ہیں جو خود کو بچانے کے لیے اپنے حامیوں کو لڑائی کی آگ میں جھونک رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کی متفقہ رائے کہ کپتان کو دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے صرف مال روڈ نہیں پورے ملک کو آگ لگانا ہو گی۔ کپتان نے لاہور سے نکالی گئی ریلی کی قیادت کر لی لیکن عدالتوں میں پیشی سے مسلسل انکاری ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے مشروط طور پر وارنٹ معطل کر دیے۔ لاہور ہائیکورٹ نے 9 مقدمات میں گرفتاری سے روک دیا تب جا کر پیشی کے لیے انڈر ٹیکنگ دینے پر آمادہ ہوئے جو کچھ ہوا بُرا ہوا پولیس کو چاہیے کہ کسی کے بھی وارنٹ گرفتاری کے لیے عدالت یا وزیر داخلہ سے پوچھ لیا کرے کہ فلاں لیڈر کو گرفتار بھی کرنا ہے یا صرف جوتے کھانے ہیں۔ زمان پارک کے معرکہ میں جہاں پولیس نشانہ بنی وہیں حکومت کی رٹ ختم ہو گئی۔ اس دو روزہ ڈرامے نے پولیس کے وجود اور رعب داب کو کرچی کرچی کر دیا۔ ریاست کہیں بھی اس کے پیچھے کھڑی نہیں ہوئی۔ لگتا ہے کہ پولیس اب شاید ہی کسی کے وارنٹوں کی تعمیل پر آمادہ ہو سکے گی۔ کپتان ملکی تاریخ کے واحد خوش قسمت سیاست دان ہیں جن کے وارنٹ گرفتاری چوتھی بار معطل ہوئے ان پر ماشاءاللہ 94 مقدمات لیکن جس شان و شوکت اور
طمطراق سے ان کی سواری موٹر وے سے اسلام آباد پہنچی اس سے لگتا ہے کہ کپتان بے گناہ جبکہ پوری حکومت اور پارلیمنٹ قابل تعزیر ہے۔ سب کپتان کے سامنے یر غمال ہےں۔ اوپر کی حمایت اور سپورٹ سے برسر اقتدار آنے والا سیاستدان ابھی تک معلوم اور نا معلوم سہولت کاروں کی معاونت پر اترا رہا ہے۔ چند سہولت کاروں کو بُرا بھلا کہہ کر راستے میں جو کانٹے بوئے تھے ان کی چبھن سے قدرے پریشانی ہو رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار، حکومت بزدل، تیسری طرف سے انہیں ریسکیو کیا جا رہا ہے۔ اسی لیے وہ کھل کھیل رہے ہیں۔ وہ گزشتہ جمعہ اور ہفتہ کو ایک فاتح کی طرح اپنے ”دشمن“ کی سپاہ کو روندتے ہوئے عدالتوں میں پہنچے زبردست نعروں کی گونج میں اپنی ڈیڑھ سو فوج کے ساتھ کمرہ عدالت میں داخل ہوئے اگر مگر چونکہ چنانچہ تاہم لیکن سب پیچھے رہ گئے۔ ”آپ آ گئے تو رونق بازار دیکھنا، نوازش کرم شکریہ مہربانی“ آنکھیں دیکھنے کو ترس گئی تھیں۔ دس منٹ بعد گاڑی میں سوار ہوئے گلپاشی کی گئی اور زمان پارک واپس آ گئے۔ کسی جانب سے بال بیکا نہ ہوا۔ سر پر جتنے بال تھے سب سلامت، قوم یوتھ کو سر بلندی مبارک، پوری حکومت سر نگون ہو گئی۔ بھولے بادشاہ باقی مقدمات کے بارے میں بھی کوئی چنتا نہ کریں۔
سب سے اہم مسئلہ جس پر شہر اقتدار سمیت مختلف حلقوں میں سرگوشیاں ہو رہی ہیں۔ گھناؤنے چہرے بے نقاب ہو گئے کون سا آخری کھیل شروع ہو گیا ہے۔ اس کھیل کو روکنے کے لیے قومی اتحاد و یکجہتی کی اشد ضرورت مگر یہی جنس نایاب، پاکستان مغرب کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ 77 سال سے مسئلہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ تھا۔ 2019ءمیں شہ رگ کاٹ دی گئی۔ 5 اگست 2019ءکو امریکا سے واپسی پر اس وقت کے وزیر اعظم نے فخریہ اعلان کیا کہ میں دوسرا ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں۔ اس کے فوراً بعد بھارتی فاشسٹ وزیر اعظم مودی کشمیر کی خون رنگ وادی کو لقمہ تر سمجھ کر ہضم کر گیا۔ ہم صرف باتیں کرتے رہ گئے۔ کشمیر بھارتی ریاست کا حصہ بن گیا یا باہمی مشاورت سے بنا دیا گیا۔ اب سری نگر میں جی 20 ممالک کی کانفرنس ہو رہی ہے۔ یو اے ای اربوں ڈالر کی سرمایہ کر رہا ہے۔ اس کا مطلب مسئلہ کشمیر حل مودی کے آزاد کشمیر پر دندان آز تیز، اللہ اپنا کرم کرے کچھ محب وطن قوتوں کو احساس ہوا کپتان کی حکومت گئی لیکن اس کے ساتھ ہی ملک اس بُری طرح اقتصادی بدحالی کا شکار ہو گیا کہ مہنگائی سے عوام کی چیخیں نکل گئیں سینوں پر میخیں سابق حکومت ہی ٹھونک کر گئی تھی۔ آئی ایم ایف کی گیارہ بارہ شرائط ماننے کے باوجود معاہدہ نہ ہو سکا جس کے باعث ہم دوست ملکوں کی امداد اور قرضوں سے محروم رہے حالیہ پیشرفت کے مطابق آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ سابق حکومت کے معاہدوں پر مکمل عملدرآمد اور کپتان کی انڈر ٹیکنگ کے بغیر معاہدہ نہیں ہو گا۔ اس کا مطلب نہ کرن دیاں گلاں، ملک کیسے چلے گا، جوں تک دس ارب ڈالر کے زر مبادلہ کے ذخائر کہاں سے آئیں گے۔ تکلیف دہ صورتحال میں سرگوشیاں کی جا رہی ہیں۔ ملک دشمن قوتیں برین واشنگ میں مصروف ہیں کہ روٹی نہ ملے تو گھر کے برتن بیچنا پڑتے ہیں کھانے کو روٹی نہیں تو کچھ بھی سمجھوتا کیا جا سکتا ہے۔ میرے منہ میں خاک خدانخواستہ سی پیک کی طرح ایٹمی اثاثوں میں تخفیف یا ایٹمی میزائلوں کے تجربات کو محدود کرنے کی عالمی سازش پر عملدرآمد کے لیے پاکستان دشمن قوتیںسر جوڑ کر بیٹھی ہیں۔ اس کے لیے ملک میں بھی مہرے موجود ہیں۔ فرانسیسی سفیر اور زلمے خلیل زاد کی جانب سے کپتان کی کھلی حمایت اور سی این این، بی بی سی، الجزیرہ اور دیگر غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں مسلسل کپتان کے انٹرویو خالی از علت نہیں، برین واشنگ اسی طرح کی جاتی ہے۔ تحلیل عرصہ سے اچانک ٹی وی چینلوں پر نمودار ہو کر سیاسی تجزیہ کار بننے والے بی بی سی پر پندرہ منٹ تک کپتان کی حمایت میں رطب اللسان دکھائی دیتے ہیں۔ مغرب کی جانب سے اچانک پیار کے جام لنڈھائے جا رہے ہیں۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ قوم کو ان سازشوں سے الرٹ رہنے کی اشد ضرورت ہے۔ بد قسمتی سے ہم ان سازشوں کا قلع قمع کرنے کے بجائے جمہوریت اور الیکشن کے نام پر پیٹرول بم پھینک رہے ہیں۔ منادی کی جا رہی ہے کہ الیکشن ابھی نہیں ہوں گے۔ اپنے وقت پر ہوں گے جنہوں نے اپنے کان اور آنکھیں بند کر رکھی ہیں انہیں کیا کہا جا سکتا ہے۔ اللہ ہمارے ملک پر اپنا کرم کرے، آمین۔

تبصرے بند ہیں.