اردو ادب میں تحقیق و تنقید کو ایک موثر مقام حاصل ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ موزوں و مناسب ہو گا کہ تنقید اور تحقیق کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایک ادیب ایک نثر پارہ اور شاعر منظم ادب لکھ کر اپنا ادبی فرض پورا کر لیتا ہے مگر اس کے مختلف پہلوو¿ں کے در وا کرنا اور خیالات کو معنی کا لبادہ پہنانا ایک نقاد کا کام ہے۔ اس نثر اور نظم کے پوشیدہ معنی و مفاہیم تلاش کرنا بھی ایک ناقد کے فرائض میں آ جاتا ہے۔ ایک ادیب اپنی باقیات میں کیا چھوڑتا ہے؟ اسے اکٹھا کرنا ایک مرتب کا کام ہے۔ کسی ادیب کے متن کی تدوین ایک مدون کا کام ہے۔ کسی فکشن نگار کی فکشن نگاری اور شاعر کی شاعری میں چھپی ہوئی پرتوں اور حقیقتوں کو آشکار کرنا ایک محقق کی ذمہ داری میں آتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بے معانی نہیں ہو گا کہ ایک ادیب، نقاد، محقق اور مدون کا دائرہ کار وسعت اختیار کر چکا ہے۔ اب یہ بات تقویت پکڑتی جا رہی ہے کہ ادب اب جدیدیت سے آزادی کے بعد ماجدیت کی طرف گامزن ہو رہا ہے۔ اسی طرح نامور ماہر تعلیم اور اقبال شناس، ڈاکٹر آصف اعوان کا شمار بھی ایسے معمارِ ادب میں ہوتا ہے جنہوں نے علم و ادب کی کشتِ ویراں کو زرخیری بخشنے اور آبیاری میں اہم کردار ادا کیا۔
ڈاکٹر اظہار احمد گلزار کی تحقیق کے مطابق ”ڈاکٹر محمد آصف اعوان کا تعلق اعوان برادری سے ہے جن کی اکثریت جنوبی ایشیا میں پاکستان کے صوبہ پنجاب کے مغربی حصوں میں آباد ہے۔ یہ قوم کوہ نمک کے علاقے وادی سون سکیسر میں ساتویں صدی عیسوی میں عرب حملہ آوروں کے دور میں یہاں آئی تھی۔ اعوانوں کو کم از کم پاکستان میں سب سے بڑا قبیلہ مانا جاتا ہے جو خیبر سے کراچی، بلوچستان اور پنجاب تک میں آباد ہے۔ اس برادری کے افراد سندھی، بلوچی، ہندکو اور پشتو بولتے ہیں۔ آج تک وادی سون سکیسر کو اعوانوں کے گڑھ کی حیثیت حاصل ہے۔ اعوانوں میں بے شمار اولیا ہوئے ہیں، صرف وادی سون سکیسر کے چھوٹے سے علاقے میں چار سلطان العارفین کے مزار ہیں جن میں حضرت سلطان انب رح، حضرت سلطان سخی محمد، حضرت سلطان حاجی احمد اور حضرت سلطان مہدی کے نام نمایاں ہیں۔ ان کے علاوہ حضرت سلطان العارفین سلطان باہو بھی اعوان قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ محمد آصف اعوان 14 جنوری 1963ءکو گرجاکھ ضلع گوجرانوالہ میں چودھری الٰہی بخش اعوان کے گھر پیدا ہوئے۔ الٰہی بخش اعوان قیام پاکستان سے قبل فوج میں ملازم تھے، انڈین آرمی میں اعلیٰ خدمات کے صلے میں انہیں بہادری کے ایک تمغے سے بھی نوازا گیا۔ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے محکمہ آبپاشی میں پٹواری کی ملازمت اختیار کر لی۔ ہجرت کے بعد پاکستان آ کر ولیکا سلک ملز میں بطور اکاو¿نٹنٹ ملازم ہو گئے۔ 1968ءکو ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ جب ان کے والد کا انتقال ہوا تو محمد آصف اعوان کی عمر صرف ساڑھے سات سال تھی۔ والد کی جلد وفات کے بعد ڈاکٹر محمد آصف اعوان کی تعلیم و تربیت کی تمام ذمہ داری ان کی والدہ اور بڑے بھائی کے سر پر آن پڑی۔ ان کی والدہ تعلیم یافتہ خاتون نہیں تھیں تاہم، انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم کا بڑے شوق سے اہتمام کیا۔ محمد آصف اعوان نے گورنمنٹ پرائمری سکول گرجاکھ نمبر ایک میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں گورنمنٹ جناح میموریل ہائی سکول گوجرانوالہ میں داخلہ لیا اور یہاں سے چہارم تا دہم تک تعلیم مکمل کی۔ انہوں نے 1983ءمیں بی اے کا امتحان گورنمنٹ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ سے پاس کیا۔ 1987ءمیں جامعہ پنجاب سے ایم اے اردو کا امتحان اس اعزاز کے ساتھ پاس کیا کہ انہیں طلائی تمغہ عطا کیا گیا۔ 1988ءمیں انہوں نے جامعہ پنجاب سے ہی ایم ایڈ کا امتحان پاس کیا۔ اس ڈگری کے حصول کے لیے انہوں نے علامہ محمد اقبال اور اکبر الہ آبادی کے تعلیمی نظریات کا تقابلی جائزہ کے عنوان سے تحقیق مقالہ تحریر کیا۔ 1994ءمیں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے اقبالیات میں ایم فل کی سند حاصل کی۔ اس مقالے کا موضوع اقبال اور اکبر الہ آبادی کا تنقیدی و تحقیقی جائزہ تھا، 2001ءمیں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ہی اقبالیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع ”علامہ محمد اقبال کا تصور ارتقا“، ایک تحقیقی جائزہ تھا۔ آپ 1988ءمیں ایم اے کی ڈگری حاصل کرتے ہی تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہو گئے۔ ابتدا میں مولانا ظفر علی خان ڈگری کالج وزیرآباد سے بطور لیکچرار اردو اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ پھر گورنمنٹ کالج سیٹلائٹ ٹاؤن گوجرانوالہ اور گورنمنٹ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ میں بھی تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ آپ نے یہاں گیارہ سال تک طالب علموں کی علمی تشنگی مٹائی۔2005ءمیں آپ اسی کالج میں ترقی پا کر اسسٹنٹ پروفیسر کے منصب پر فائز ہو گئے۔ 2006ءکو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد سے اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو میں اپنی خدمات سر انجام دینا شروع کیں اور اس یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر کے منصب تک پہنچے۔ کچھ عرصہ ایجوکیشن یونیورسٹی فیصل آباد میں بطور پروفیسر اور صدرِ شعبہ کی حیثیت سے اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ بعد ازاں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد میں مختلف مناصب پر فائز رہے جن میں دو بار چیئرمین شعبہ اردو، ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ لرننگ اور اقبال چیئر پر فائز رہے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کی طرف سے فیکلٹی آف سوشل سائنس اینڈ اورینٹل میں ان کی تحقیقی سرگرمیوں کے اعتراف میں انہیں ڈپٹی ڈائریکٹر ریسرچ کا عہدہ عطا کیا گیا۔ ڈاکٹر محمد آصف اعوان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں پہلی بین الاقوامی اردو کانفرنس کے منتظم مقرر ہوئے۔ کالج اور یونیورسٹی کے استاد کی حیثیت سے ڈاکٹر محمد آصف اعوان نے پوسٹ گریجویٹ ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی کلاسوں کو اپنے مخصوص مضمون اقبالیات میں علم کی روشنی سے منور کیا اور مختلف النوح کلاسز ایم فل اور پی ایچ ڈی کے انٹرنل اور بیرونی ممتحن بننے کا اعزاز بھی آپ کو حاصل ہے“۔
آپ نے تحقیقی، تنقیدی، تشریحی اور توضیحی ادب میں گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔ آپ اب تک یونیورسٹی آف فیصل آباد کے ایم اے اردو کی سطح تیرہ طالب علموں کے مقالاجات کے نگران رہ چکے ہیں۔ اسی طرح آپ کے زیرِ نگرانی اسی یونیورسٹی کے اڑتیس طالب علم اپنے ایم فل اردو کے مقالہ جات مکمل کر چکے ہیں۔ آپ بطور بیرونی ممتحن ایم فل اردو کے پندرہ طالب علموں کو سپروائز کر چکے ہیں۔ اسی طرح آپ نے گورنمنٹ یونیورسٹی آف فیصل آباد کے سولہ طالب علموں کو پی ایچ ڈی کی سطح پر بطور سپروائزر کے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ بعینہ آپ بیرونی ممتحن کے طور پر آٹھ طالب علموں کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کر چکے ہیں۔ آپ ماہرِ تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ ماہرِ اقبال بھی ہیں۔آپ نے اقبال کے پیغام کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ اقبال کے شعری اور نثرِی ادب میں چھپے بے شمار گوشوں کو وا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ نے ”بک چیپٹر“ روشنی کے سفیر، ”پاکستان کے مثالی اساتذہ“ لکھ کر تعلیم کی اہمیت و افادیت اور اساتذہ کی کوششوں اور علمی وسعت کو خوبصورت انداز میں پیش کیا۔ ایچ ای سی کے منظورہ شدہ غیر ملکی مجلات میں آپ کے کئی تحقیقی و تنقیدی مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ اندرون ملک یعنی پاکستان میں ایچ ای سی کے منظورہ شدہ درجنوں رسائل میں آپ کے اٹھاون سے زیادہ تعلیمی، ادبی، تحقیقی اور تنقیدی مضامین شائع ہو کر تشنگانِ علم ادب کی پیاس بجھانے کا سامان پیدا کر چکے ہیں۔
تنقید، تحقیق، شعریت اور تشریح و توضیحی اعتبار سے آپ سولہ کتب کے مصنف ہیں۔ نصابی کتب حوالے سے بھی آپ کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں اور پُر حقیقت ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر محمد آصف اعوان نے اُردو تنقید اور تحقیق کو عزت، معیار، حقیقت اور وقار کی رفعتوں سے آشنا کیا اور اردو ادب کو رفعتوں اور بلندیوں سے آشکار کیا۔ آپ سراپا محبت ہیں اور حلیمیِ طبیعت کا سر چشمہ ہیں۔
تبصرے بند ہیں.