لاہور چیمبر آف کامرس کی موروثی سیاست

24

چینیوں کو دنیا افیونچیوں کے نام سے جانتی تھی۔ لیکن بحیثیت قوم جب انھوں نے فیصلہ کیا کہ اب ہمیں انفرادی سوچ سے نکل کراجتماعی نکتہ نظرکے تحت فیصلے کرنا ہیں تو وہ آج دنیا کی عظیم قوم بن کر ابھرے ہیں۔قوموں کی تقدیربدلنے کے لئے ہمیشہ بڑے فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ اس میں سب سے بڑا فیصلہ قومی خود مختاری اور خود انحصاری ہے۔ لیکن ہمارا مسئلہ مختلف ہے۔ ہم ذاتی اور گروہی مفادات سے اوپر اٹھ کر سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ جدید چین کا بانی ماؤزے تنگ قوم کو وصیت کر کے گیا تھا کہ میری برسی کے سوگ میں کارخانے اور کاروباری ادارے بند نہ کرنا۔ بلکہ میری برسی پر دو گھنٹے زیادہ کام کر کے سوگ منانا۔ اس لئے آج بھی چینی لوگ ماؤزے تنگ کی برسی پر دو گھنٹے اضافی کام کرتے ہیں۔ عظیم قوموں کی ایسی ہی روایات ہوتی ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں سوچ اور خیالات کی تنگ نظری نے ہمیں آج اس مقام پر لا کھڑا کیاہے کہ ہم آج بھی گروہی مفادات اور اجارہ داری سے اوپر اٹھ کر نہیں سوچتے۔ میں پچھلے33 برس سے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کی سیاست کو قریب سے دیکھ رہا ہوں۔ چونکہ میں خود بھی اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا حصہ رہا ہوں تو اصل حقائق سے آگاہ ہوں۔ عام طور پردنیا بھر میں چیمبرز کا ایک خاص کردار ہوتا ہے۔ لاہور چیمبر آف کامرس کو پاکستان کو سب سے بڑا اور متحرک ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن میرا سوال ہے کہ اس اجتماع نے اب تک پاکستان کی مجموعی معیشت کی ترقی کے لئے کیا کیا ہے؟ لاہور چیمبر سال میں ایک بار اسلام آباد میں ایمبیسیڈر ڈنر کرتا ہے۔ جس میں سفارتکاروں،چیمبر کے سابق و موجودہ صدور، بورڈ آف ڈائریکٹرز اور ایگزیکٹو کمیٹی کے سینئر ممبران کو مدعو کیا جاتا ہے۔ اس مرتبہ میں بھی ایمبیسیڈر ڈنر پر مدعو تھا۔ میں پولینڈ کے سفیر کے ساتھ بیٹھا بات کررہا تھا کہ ایک سینئر ممبرچیمبر آف کامرس (نام نہیں لوں گا) نے آکرپولش سفیر سے وزٹنگ کارڈ مانگا۔ اس نے دے دیا۔ اس کے بعد ایک اور صاحب نے آکر یہی حرکت دہرائی تو اس نے منہ بنا کر کارڈ دے دیا۔ جب تیسرا بندہ اسی کام سے آیا تو اس نے یہ کہہ کر منع کرد یا کہ کارڈ ختم ہو گئے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر بہت بُرا لگا اور دل ہی دل میں شرمندگی بھی ہوئی کہ ہمارے اتنے بڑے کاروباری لوگ ایک ویزے کے حصول کے لئے کیسی عجیب حرکتیں کرتے ہیں۔ واقعہ سنانے مطلب یہ نہیں کہ سب ایسے ہیں۔ بس ایک دو گندی
مچھلیاں پورا تالاب گندا کر دیتی ہیں۔ چیمبر کو ملکی ترقی کا ادارہ بنانے کے بجائے صرف سیاست کی گئی ہے۔ 1923 میں لاہور چیمبر آف کامرس کے قیام کے بعد سے ہی بلا مقابلہ صدور منتخب کرنے کا رواج تھا۔ فاؤنڈرز گروپ کی طویل عرصہ تک اجارہ داری قائم رہی۔ چند مخصوص افرادکہہ لیں یا دس خاندان، ان بڑے سرمایہ داروں نے لابنگ کے ذریعے طویل عرصے تک من مانے فیصلے کئے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ان دنوں چیمبر کے صدر کو ملنا ملک کے صدر سے ملنے سے زیادہ مشکل کام ہوتا تھا۔ لاہور چیمبر کے صدر کے دفتر کے باہر ایک سرخ بلب آن رہتا تھا۔ جو اس بات کی نشاندہی کرتا تھا کہ صدر صاحب کسی اہم اجلاس میں مصروف ہیں۔ اکثر ایسا دیکھا کہ کوئی ممبر صدر سے ملنے آیا لیکن سرخ بلب آن ہونے کی وجہ سے اندر جانے کی اجازت نہ ملی۔ اسے کئی گھنٹوں انتظار کرنا پڑا۔ جبکہ صدر صاحب اپنے خاص مصاحبین کے ساتھ گپوں میں مصروف رہتے۔ فاؤنڈر گروپ کے بانی بزرگ صرف اس کو ہی اہمیت دیتے تھے جوان کے ارد گرد خوش آمد کے اندازمیں منڈلاتا پھرے۔جوان کی ہر بات پر جی حضوری کرے۔ ان کے فیصلے بے چون و چراں مان لے۔ایسے افراد کو بورڈآف ڈائریکٹرز اور ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبران میں شامل کر لیا جاتا۔ اگر کوئی فاؤنڈر گروپ کے مقابلے پربورڈ آف ڈائریکٹر کا الیکشن لڑنے کا اعلان کرتا تو پھر اس کو فوری طور پرکسی محکمے سے ٹیلیفون کال آ جاتی اور اگلے دن وہ کاغذات نامزدگی واپس لے لیتا تھا۔ فاؤنڈر گروپ کی ان پالیسیوں سے بغاوت کے نتیجے میں 1996 میں پیاف گروپ سامنے آیا۔ جس نے ممبرز کی عزت و تکریم اور بات سننے کا رواج ڈالا۔ جب یہ گروپ بورڈ آف ڈائریکٹرز کی کچھ سیٹیں جیتنے لگا تو فاؤنڈرز گروپ کو احساس ہوا کہ اس طرح تو یہ آگے چل کر پورا الیکشن جیت لیں گے۔ انہوں نے پیاف کے ساتھ مل کر ایک سال بعد باری باری صدر لانے کا فارمولا طے کر لیا۔ ان کی دونوں نے مل کر اجارہ داری قائم کر لی۔ پھر سے پرانے طور طریقوں پر چل کربلامقابلہ صدور کا انتخاب اور من پسند چہیتے خوشامدی لوگوں میں عہدے ریوڑیوں کی طرح بٹنے لگے۔ اب فاؤنڈر گروپ اور پیاف گروپ کے بانی حضرات صرف ان لوگوں کو آگے لانے کی راہ ہموار کرتے ہیں جو آنکھیں بند کر کے ان کا ہر حکم مانیں۔ان کے بھائیوں اور بیٹوں کی خوش آمد میں جٹے رہیں۔ چیمبر بھی ایک موروثی سیاست کی جگہ بن چکی ہے۔ اس لئے میں نے بارش کا پہلا قطرہ بننے کا فیصلہ کیا کہ ان دو روایتی گروپوں کے خلاف الیکشن لڑا جائے۔ دو دہائیوں کے یہ حالات دیکھنے کے بعد میں نے کچھ دوستوں کے ساتھ فیصلہ کیا کہ ہم اس فاؤنڈر گروپ اور پیاف کے درمیان غیر اعلانیہ معاہدے میں رکاوٹ ڈالیں گے۔ ہم ایک آزاد گروپ کی حیثیت سے لاہور چیمبر آف کامرس کو مخصوس سائے سے باہر نکالیں گے۔اس مقصد کے لئے ہم نے گزشتہ برس 2022 کے انتخابات میں چوہدری ذوالفقار صاحب جو کہ سوئس پرل لمیٹڈ کے مالک ہیں اوربہت بڑے ایکسپورٹر ہیں،ان کے دفاتر امریکا اور آسٹریلیا تک پھیلے ہوئے ہیں کو بطورڈائریکٹر امیدوار کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے انتخابات سے صرف ایک دن پہلے کاغذات جمع کرائے۔ اس ضمن میں جو رکاوٹیں کھڑی کی گئی۔ جو ہتھکنڈے استعمال کئے گئے ان کا بھی میں ذکر کروں گا۔ لیکن جیسے تیسے کر کے کاغذات جمع ہوئے تو ہمارے گھروں پر قافلے در قافلے دونوں گروپس سے لوگوں نے آنا شروع کر دیا کہ مہربانی کر کے آپ اپنے کاغذات واپس لے لیں۔ ہمیں بڑی ترغیبیں دی گئیں کہ ہم فلاں فلاں گروپ کو بٹھا چکے ہیں۔ آفرز بھی کی گئیں۔ لیکن ہم نے کاغذات نامزدگی واپس نہیں لئے۔اس کا صرف ایک مقصد تھا کہ بلا مقابلہ صدر کے انتخاب کی روایت کو ختم کیا جائے۔ اب چیمبر آف کامرس میں ایک سوچ ابھری ہے کہ سب لوگ بیٹھنے کے لئے نہیں کھڑے ہوتے کچھ ڈٹ بھی جاتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ چیمبرآف کامرس میں ایک تصویر کی خاطر لڑائیاں ہوتے دیکھی ہیں۔ وزیراعظم سال میں ایک مرتبہ صرف آھے گھنٹے کا ٹائم دیتے ہیں اور چیمبر کی قیادت اس بات پر لڑ رہی ہوتی ہے کہ اگلی لائن میں کون کھڑا ہو گا اور کون پیچھے۔ میں پہلے بھی یہ بات لکھ چکا ہوں کہ چین نے جب ترقی کا فیصلہ کیا تو ان کا صدر ہر مہینے پورا دن بزنس کمیونٹی سے ملتا تھا تاکہ ان کے مسائل موقعہ پر حل کر سکے۔ یہاں بزنس کمیونٹی کی قیادت اصل مسائل حل کرانے کے بجائے صرف ایک تصویر کی خواہشمند رہتی ہے۔ یقین جانیں میں تمام بزنس مینوں کی بے پناہ عزت کرتا ہوں۔ میں انھیں ملک کا نجات دہندہ سمجھتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس کمیونٹی کو موقع دیا جائے، ان سے کام لیا جائے تو یہ ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔ لیکن جب یہ خود اپنی عزت کم کرنے پر تلے ہوں تو پھر دل بہت کڑھتا ہے۔ ہمیں حقیقی ترقی کا راستہ اپنانا ہو گا اور اس کے لئے مل کر جدوجہد کرنا ہو گی۔

تبصرے بند ہیں.