پولیو ایک ایسی بیماری ہے جو کافی عرصے سے توہمات کا شکار ہے۔ بہت سارے لوگ ملک کے مختلف حصوں میں اس کے بارے میں کئی توجیحات پیش کرتے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ پولیو کے قطرے فیملی پلاننگ کے لئے استعمال کیے جاتے ہیں، کچھ کا یہ خیال ہے کہ اسامہ بن لادن کو ٹریس کرنے کے لئے اس مہم کو استعمال کیا گیا۔ کچھ کا یہ بھی خیال ہے کہ اس کے اور بہت سارے نقصانات بھی ہو سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں وہ بیماری جس کو ویکسی نیشن کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے، وہ پولیو ہے۔ اس وقت دنیا کے تقریباً تمام ممالک سے پولیو کا خاتمہ کیا جا چکا ہے، سوائے چار ممالک کے جن میں پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش اور نائیجیریا شامل ہیں۔ اس وقت پوری دنیا چاہتی ہے کہ ان چار ممالک سے پولیو کو ختم کیا جائے کیونکہ اگر ان ممالک سے پولیو کو ختم کر دیا گیا تو پوری دنیا سے یہ وائرس ختم ہو جائے گا۔ اس سے پہلے انسانوں نے چیچک کو اس کرہ ارض سے ختم کیا۔ اب پوری دنیا میں کہیں بھی چیچک کا کوئی مریض نظر نہیں آتا۔ دوسری بیماری جو کہ بالکل ختم ہونے کے دہانے پر کھڑی ہے، وہ پولیو ہے۔ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اگر کسی بھی وجہ سے پاکستان، افغانستان، انڈیا یا نائیجیریا میں پولیو کو کنٹرول نہ کیا گیا تو یہاں سے یہ وائرس نکل کر دنیا کے مختلف ممالک میں بھی پھیل سکتا ہے۔ اس وقت یہ دیکھا گیا ہے کہ پاکستان کے بارڈر کے علاقہ جات جو کہ افغانستان سے مل رہے ہیں جہاں دونوں اطراف کسی نہ کسی طریقے سے انسانوں کی نقل وحرکت جاری ہے، اس دوران اس حوالے سے کوئی خاص احتیاط بھی نہیں کی جاتی اس لئے پاکستان اور افغانستان کے بارڈر کے قریب علاقوں میں یہ وائرس کافی بچوں میں پایا جاتا ہے۔ اسی طرح سے قلعہ عبداللہ بلوچستان کا ایک ایسا علاقہ ہے جہاں بہت مرتبہ اس وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔ اسی طرح سے بعض اوقات شہری علاقوں میں بھی پولیو کا وائرس دیکھا جاتا ہے۔ پولیو کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کے ماخذ کا پتہ لگایا جائے کہ یہ وائرس کہاں سے آیا۔ اس وقت جنیٹک انجینئرنگ کے ذریعے ہم پتہ چلا سکتے ہیں کہ یہ وائرس کہاں سے شروع ہوا اور اس کا تعلق کس علاقے سے ہے اس لئے جب وائرس کسی بھی جگہ پر تشخیص ہوتا ہے، گٹر کے پانی یا اس میں موجود فضلے میں سے یہ وائرس مل جائے تو ہمیں فوری طور پر اس کے جنیٹک انجینئرنگ کے بارے میں دیکھنا ہوتا ہے کہ یہ وائرس کہاں سے نکلا ہے اور اس کے بعد پھر دوبارہ سے ہمیں اس علاقے میں جا کے احتیاطی تدابیر اور اس کو ختم کرنے کے اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ اس وقت پولیو وائرس سے بچاؤ کا واحد طریقہ ویکسی نیشن ہے اور پیدائش سے لے کر 5 سال تک کے بچوں کو سال میں کئی مرتبہ یہ ویکسین کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔ ایک قطرے وہ ہیں جو نوزائیدہ بچوں کو پہلے چند ماہ میں ایک خاص ترتیب سے پلائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پوری دنیا میں اس حوالے سے ایولوشن ڈے
منائے جاتے ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ ایسے بچے جو روٹین ویکسی نیشن سے رہ چکے ہیں، اس مہم کے دوران ان کی بھی ویکسی نیشن کی جا سکے۔ اس وقت پولیو کے وائرس کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ معدے اور آنتوں پر اثر کرنے والا وائرس ہے۔ جب پولیو کا وائرس کسی بچے یا بڑے پر حملہ کرتا ہے تو اس کے بعد اس سے کچھ کامن علامات آتی ہیں جیسے نزلہ، زکام اور کھانسی یا لوز موشن یا جن کو اسہال کہا جاتا ہے، اس طرح سے یہ اثرانداز ہوتا ہے۔ اگر 100 بچوں پر پولیو کا حملہ ہو تو 99 بچے ایسے ہوں گے جہاں صرف نزلہ، زکام، کھانسی یا اسہال دیکھا جائے گا اور 100 میں سے ایک بچہ ایسا ہو گا جس کے جسم کے کسی ایک حصے پر فالج یا پٹھے کی کمزوری سامنے آئے گی۔ اگر کسی علاقے میں ایک بچہ یا بڑا پولیو کا شکار نظر آتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس علاقے میں کم وبیش 100 ایسے افراد اور شامل ہیں جن کو پولیو کا حملہ ضرور ہوا لیکن ان کو فالج نہ ہوا۔ پولیو سے انگلیوں، ٹانگوں، پاؤں یا جسم کا کوئی بھی حصہ متاثر ہو سکتا ہے لیکن عمومی طور پر اخبارات اور رسائل کے ذریعے عوام کے ذہن میں ایک تصویر آتی ہے کہ پولیو کے ذریعے بچہ اپاہج ہو جاتا ہے، چلنے پھرنے سے قاصر ہو جاتا ہے لیکن یہ صرف ایک قسم نہیں بلکہ بہت سارے ایسے پولیو ہیں جس سے جسم کا اوپر والا حصہ متاثر ہو سکتا ہے، نیچے والا بھی جبکہ بعض اوقات سانس لینے میں تکلیف ہو جاتی ہے، بعض اوقات جسم کے دوسرے اعضا جن کا تعلق خوراک کے ساتھ ہے، بھی متاثر ہو سکتے ہیں اور بعض مرتبہ یہ فالج اتنا شدید ہوتا ہے کہ اگر بروقت طبی امداد فراہم نہ کی جائے تو موت بھی واقع ہو سکتی ہے اس لئے یہ بیماری مختلف طریقوں سے حملہ آور ہوتی ہے لیکن جو چیز سب سے خطرناک ہے، اس سے جسم کے مختلف حصوں کا فالج ہو سکتا ہے۔ اگر فالج نہ ہو تو یہ ازخود ختم ہو جاتی ہے اور اس کے بعد جسم میں مدافعت پیدا ہو جاتی ہے لیکن اگر فالج ہو جائے تو اکثر و بیشتر اس سے جسم میں رونما ہونے والی کمزوری ساری عمر باقی رہتی ہے اور وہ بچہ اپاہج ہو جاتا ہے۔ اس وقت پوری دنیا اور دیگر ایجنسیاں مل کر پولیو کے لئے کام کر رہی ہیں اور انہوں نے اس کے لئے فنڈ بنایا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کے ان چار ممالک میں جہاں یہ وائرس ابھی بھی پایا جاتا ہے اس کو ختم کر دیا جائے اور اس کے بعد اس کو الیمینیٹ کرنے کے مراحل ہوں گے۔ اس حوالے سے بین الاقوامی فنڈنگ اس لئے بھی ضروری ہے کہ جب تک ان ممالک کے اندر پولیو کا وائرس موجود ہے اس وقت تک دنیا کا کوئی بھی حصہ پولیو سے محفوظ نہیں ہے۔ پوری دنیا ہمیں اس حوالے سے فنڈ فراہم کر رہی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر پولیو کا وائرس ان ممالک سے ختم نہ ہوا تو پوری دنیا کو اس پولیو سے خطرہ پیش آ سکتا ہے۔ ایک اور اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ دنیا کے بہت سارے ممالک جہاں سے پولیو ختم ہو گیا، ان میں کچھ ایسے ممالک بھی شامل ہیں جہاں پولیو کے حوالے سے کوئی ویکسین بھی نہیں کی جاتی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب وہاں جو بچے پیدا ہو رہے ہیں یا جو نئی نسل وہاں موجود ہے ان میں پولیو کے خلاف مدافعت موجود نہیں ہے۔ اگر ان کے خلاف مدافعت نہیں ہو گی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں پولیو کا شدید حملہ ہو سکتا ہے اور بہت بڑی آبادی ان ملکوں کی پولیو کی وجہ سے متاثر ہو سکتی ہے۔ یہاں تک یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ اگر ان ممالک میں پولیو کا حملہ ہوا جو پہلے ہی پولیو سے پاک قرار دیئے گئے ہیں اس کے بعد پولیو یہاں وبائی شکل اختیار کر سکتا ہے اور ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں انسانی جانوں کا زیاں ہو سکتا ہے۔ اس لئے بین الاقوامی ادارے سالہاسال سے پولیو سے متاثرہ ممالک میں پولیو کو ختم کرنے کے لئے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ اس لئے کہ عوام کو یہ جاننا چاہئے یہ صرف ہمارے ملک کو بچانے کے لئے نہیں بلکہ پوری دنیا کو بچانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم پولیو کے حوالے سے آگاہی حاصل کریں۔ ان کو یہ بتائیں کہ پولیو کے قطروں میں نہ تو کوئی خاندانی منصوبہ بندی کے قطرے دیئے گئے ہیں نہ ہی کسی بیماری کو پھیلایا جا رہا ہے بلکہ اس سے بچوں کے اندر قوت مدافعت پیدا کی جا رہی ہے جس سے کچھ عرصے بعد وہ نہ صرف خود پولیو سے محفوظ ہو جائیں گے بلکہ ہمارا سارا ملک پولیو سے محفوظ ہو جائے گا۔ جب پاکستان سے کوئی شخص انٹرنیشنل ٹریول کے لئے جاتا ہے، چاہے وہ حج وعمرہ کے لئے جائے یا کسی اور مقصد کے لئے، تو اسے یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ جانے سے پہلے پولیو کی ویکسی نیشن کرائے۔ اس عمل کے دوران پولیو کی دو ڈوزز لگائی جاتی ہیں، اس کے بعد ہی اسے اجازت ہوتی ہے کہ وہ ملک سے باہر جائے۔ اس کے حوالے سے بھی لوگوں میں توہمات پائے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ جاننا ضروری ہے کہ ٹریول کے لئے جو قانون نافذ کیا گیا ہے یہ آپ کی صحت کے لئے بہت ضروری ہے۔ پولیو کی دو ڈوزز کے درمیان تقریباً چار ہفتے کا وقفہ ضروری ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اور اس کے شہروں میں رہنے والے بڑے بوڑھے اپنے پانچ سال کے بچے کو نہ صرف روٹین ویکسی نیشن کرائیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اگر کوئی علاقائی ایولوشن ڈیز منائے جاتے ہیں تو اس میں اپنے بچوں کو ساتھ لے کر چلیں اور ان بچوں کو ہر صورت ویکسی نیشن کرائیں، پولیو کے حوالے سے قطرے پلائیں۔ اگر اگلے چند سال تک ہم نے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے میں کوتاہی نہ برتی تو پاکستان بھی ان ممالک کی صف میں شامل ہو جائے گا جو پولیو سے پاک ہے اور اس کے بعد یہ دنیا بھی ایک اور بیماری سے چھٹکارا حاصل کر لے گی۔ اور شاید یہ دوسری بڑی بیماری ہو گی جو اس پوری دنیا سے غائب ہو جائے گی۔ پاکستان میں اگر پولیو ختم ہو بھی گیا تو اس کے بعد بھی ہمیں کئی سال تک اس کی ویکسی نیشن اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنا پڑیں گی تاکہ دنیا کے کسی اور حصے سے کوئی بھی وائرس پاکستان میں آ کے یہ بیماری نہ پھیلائے۔ کئی سال تک کوئی پولیو کیس نظر نہ آنے کے بعد ہمیں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ایک سرٹیفکیٹ مل جائے گا جس کے مطابق ہمارا ملک بھی ان ممالک کی صف میں شامل ہو جائے گا جو پولیو سے پاک ہے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.