سبزہ و گل سے سجا صاف ستھرا لاہور

45

زندہ دلوں کا شہر لاہور ،جہاں پنجاب کی سوہنی دھرتی کے تمام رنگ نظر آتے ہیں ،کسی زمانے میں بہت زیادہ دلنشیں،حسیں، دلکش اور شاداب تھا،ہر طرف پھول کھلے ہوتے ،سڑکوں کے کنارے پھل دار،سایہ دار بلند اور گھنے درخت دل و نظر کو تراوٹ دیتے،کہا جاتا ہے کہ مغل دور میں ”لاہور ایک بہت بڑا باغ تھا جس میں کہیں کہیں آبادی کے جزیرے نظر آتے “مغل خود بھی باغبانی کے شوقین اور پھولوں،درختوں،ہریالی کو پسند کرتے تھے،لہٰذا سبزہ و گل اس شہر کی پہچان بن گئے۔کسی دور میں صرف اندرون شہر میں 70سے زیادہ باغ ہوتے تھے جن کی تفصیل تاریخ لاہور میں دیکھی جا سکتی ہے،شہر کی حفاظتی دیوارکے ساتھ چاروں جانب ایک وسیع و عریض باغ ہوتا تھا جس کی کچھ باقیات اب بھی موجود ہیں،مگر دیہی علاقوں سے آبادی کا بہاؤ،بڑھتی آبادی نے اس شہر کے حسن کو گہنا دیا،گرین لینڈ پر تیزی سے ہاؤسنگ سکیمیں تعمیر ہونے لگیں،کچھ باغ اجڑ گئے کچھ سکڑ گئے اور کچھ وقت کے حکمرانوں کی بے حسی کی نذر ہو گئے،اور باغوں کا شہر کنکریٹ،اینٹوں کے ملبے کا ڈھیر بن گیا۔
اب پنجاب کی نگران حکومت نے شہر کی عظمت رفتہ بحال کرنے کا عہد کیا ہے،جشن بہاراں کے ساتھ سپر لیگ کے میچز کیلئے خیر مقدمی چراغاں نے شہر کو قمقمہ بنا دیا ہے،جشن بہاراں کے سلسلے میں پھولوں کی نمائش،سڑکوں،چوراہوں کی زیبائش نے شہر کے ماضی کے تشخص کو بڑی حد تک اجاگر کیا ہے،پنجاب ہارٹیکلچر ل اتھارٹی نے جشن کے سلسلے میں شہر کو ایک بار پھر باغوں اور پھولوں کا شہر بنا دیا،سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اتھارٹی نے بھی شہر کی خوبصورتی کو نمایاں کرنے کیلئے اپنا حصہ ڈالا اور صفائی مہم کے تحت شہر کی سڑکوں کو ماڈل بنانے،صفائی، ستھرائی ،کشادگی و توسیع کا بیڑہ اٹھایا ، شاید تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومتی سطح پر سڑکوں کی دھلائی شروع کی گئی ہے جسے دیکھ کر ایک خوشگوار حیرت ہوئی ، میرے استفسار پر بتایا گیا کہ دھلائی کے لئے پینے والے پانی کی بجائے داتا صاحب کے مزار سے وضو کا استعمال شدہ پانی حاصل کیا جاتا ہے ،شہر سے کچرا اٹھانے کی منظم مہم بھی شروع کی گئی ہے ، نتیجے میں ہزاروں ٹن کچرا شہر کی سڑکوں،گلیوں،محلوں سے اٹھایا جا رہا ہے، جا بجا کچرا بن لگائے گئے ہیں ، محسوس ہو رہا ہے کہ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اور ہارٹی کلچر کے محکموں میں کوئی کام کرنے والے محنتی اور درد دل والے افسر لگائے گئے ہیں ، پنجاب کی نگران حکومت نے اور کوئی اچھا کام کیا یا نہیں مگر شہر کے ماحول کو بدلنے کیلئے اس کی کوشش قابل تعریف ہے۔
جنرل ضیاءالحق کے دور تک شہر لاہور کی رونقیں کسی نہ کسی صورت برقرار تھیں مگر بعد میں آنے والی سیاسی حکومتوں کیلئے لاہور کی رونقیں شاید ترجیح نہ تھی، 1985ءسے پورے ایک سو برس پہلے 1885ءمیں ہندوستان کے گورنر جنرل کی بیوی لیڈی ڈفرن لاہور پہنچی تو اس نے اپنے ایک خط میں اپنی والدہ کو لکھاتھا”اماّں: لاہور میں چلو تو یوں لگتا ہے جیسے باغوں میں چلے جا رہے ہوں، اندرو ن شہر باغوں کو چھوڑئیے، اس شہر کے گرد پانچ میل لمبا ایک باغ ہے جو شہر کی فصیل کے ساتھ ساتھ چلا گیا ہے اور پورے لاہور کے گرد حلقہ کئے ہوئے ہے،حقیقت یہ ہے جس وقت لیڈی ڈفرن نے لاہور دیکھا اس وقت تو یہ شہر کافی حد تک اجڑ چکا تھا، اصل لاہور ان لوگوں نے دیکھا تھا جو مغلوں کے زمانے میں پیدا ہوئے تھے، آج اگر اس دور کے لوگوں کو لاہور دیکھنے کا موقع ملے تو وہ اس شہر کی حالت زار پر خون کے آنسو روئیں گے،اس شہر کی بارہ دریوں،حویلیوں،باغوں اور محلوں کاحسن اسکے چہرے سے نوچ لیا گیا جو کچھ لیڈی ڈفرن نے دیکھا وہ آثار قدیمہ کے مشہور ماہر ڈاکٹر سیف الرحمان کے بقول اکبر، جہانگیر اور شاہ جہاں کے لاہور کی بھٹکتی ہوئی روح تھی، لاہور کے اجڑنے کی کہانی کے برعکس اس کے بسنے کی داستان بہت دلچسپ ہے پہلے پہل کس نے بسایا اور کب بسایا، اس کے تو بہت سے قصے ہیں مگر جب محمود غزنوی نے ہندوستان پر اپنے حملے شروع کئے اس وقت لاہور معمولی سا قصبہ تھا پنجاب کی راج دھانی سیالکوٹ کے پاس تھی، محمود نے اپنی ہی صف میں کھڑے ہونے والے ایاز کو لاہور کا قاضی بنایا، ایاز نے اس شہر کو پنجاب کا صدر مقام قرار دیا غزنی کے بادشاہ کا یہ غلام لاہور ہی میں مرا اور یہیں دفن ہوا، ایاز کی قبر ایک دلکش باغ میں بنائی گئی مگر بعد میں زمانے کی بے حسی نے وہ باغ اجاڑ کر وہاں ٹکسال بنا دی لوگ جانتے تک نہیں کہ رنگ محل کے پاس جس جگہ ٹکسالی بازار، کیسرا بازار اور سوہا بازار آکر ملتے ہیں وہیں ایاز کی قبر موجود ہے، ایاز کے بعد دولت خان لودھی نے لاہور کو نکھارا اور سنوارا۔
مغلوں کو لاہور سے بہت لگاؤ تھا اکبر، جہانگیر، شاہ جہاں کے علاوہ کامران اور داراشکوہ جیسے شہزادوں نے اسے بڑے قرینے سے سجایااکبر یہاں پندرہ برس رہا اور لاہور کو نہ صرف حسن بلکہ علم کی دولت سے بھی مالا مال کیا، جہانگیر نے تو لاہور کو دارالسلطنت قرار دیا اور اسی شہر میں دفن ہونا پسند کیا،مقبرہ جہانگیر بھی دراصل ایک باغ تھا جو اب سکڑ چکا اور جس کی رعنائی ماضی کا قصہ ہوئی، اس کی ملکہ نورجہاں نے بھی اسی خاک کو سب سے بہتر جانا، شاہ جہاں کے بارے میں تو کہا جاتا ہے لاہور ہی میں پیدا ہوا، اس کے بیٹے داراشکوہ نے یہاں بہت وقت گزارا،اورنگزیب کی بات کئے بغیر لاہور کی بات پوری نہیں ہوتی وہ اگرچہ جنوبی ہند کی سیاست میں الجھا رہا اور صرف دو تین مرتبہ لاہور آیا لیکن اس شہر کو اس نے بادشاہی مسجد دی جو لاہور کی انگشتری میں نگینے کی طرح جڑی ہے۔
گئے وقت میں راوی بادشاہی مسجد کے ساتھ بہتا تھا،شالیمار باغ بھی لاہور کے ماتھے کا جھومر تھا جس کی تاریخی خوبصورتی بھی اب ماضی کا قصہ بنتی جا رہی ہے،اس چکا چوند ماضی کے شہر لاہور کی رونقوں،رعنائی،سبزہ و گل کو واپس لانے کی کوشش خدمت ہی نہیں عبادت بھی ہے،زندہ دلوں کے شہر کے مکین گندگی کچرے کوڑے کے شاید عادی ہو چکے تھے،سڑکوں پر گندگی کے ڈھیر کچھ اہمیت نہ رکھتے تھے ٹوٹی پھوٹی سڑکیں بھی شہریوں کیلئے شاید عذاب نہ تھیں مگر نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے شہر کو صاف ستھرا بنانے،باغوں کو آباد کرنے،سڑکوں کا دامن کشادہ کرنے کو اپنا مشن بنایا ہے جو زندہ دلان لاہور کو زندگی کے نئے رخ سے آشنا کرے گا،یہ ایسا کام ہے جو جاری رہنا چاہئے،پی ایچ اے شہر کی سڑکوں کو خوبصورت بنانے کیلئے پھولدار،موسمی،اور آرائشی پودے لگا رہی ہے،کیا ہی بہتر ہو کہ سیزنل پھولدار پودوں کے ساتھ بلند سایہ دار گھنے اور پھلدار درخت بھی لگائے جائیں،صنعت میں استعمال ہونے والے درختوں اور پھلدار پودوں سے خاصا ریونیو بھی حاصل ہو سکتا ہے اس لئے آرائشی پودوں کے ساتھ ساتھ کار آمد درخت لگائے جائیں۔

تبصرے بند ہیں.