میری اُس سے پہلی ملاقات 2011ء کے دسمبر میں ہوئی جب پاکستان تحریک انصاف مینار پاکستان پر اپنا تاریخی جلسہ کرنے کے بعد ابھی فارغ ہی ہوئی تھی اور تحریک انصاف میں پاکستان کی ساری سیاسی آلودگی اکھٹی ہو رہی تھی۔ عمران نیازی پھولے نہیں سما رہا تھا اور وہ ”قد آور لیڈر“جو کبھی عمران نیازی کو گھاس نہیں ڈالتے تھے اب اُس کے ہاتھوں ”غلامی کا سیاسی پٹا“ ڈالوا کر باقاعدہ اپنے سوشل میڈیا سے تصاویر جاری کر رہے تھے۔ اچانک تحریک انصاف باغی باغی کے نعروں سے گونج اٹھی تو معلوم پڑا کہ جاوید ہاشمی نے بھی تحریک انصاف جوائن کر لی ہے۔ میں نے لاہور آنے پر عمران نیازی سے کہا کہ جاوید ہاشمی قابل ِ اعتماد آدمی نہیں یہ ہمیں اُس وقت چھوڑ کر جائے گا جب ہم مصیبت میں ہوں گے لیکن تحریک انصاف کے کسی بھی جلسے میں ڈائس پر آتے ہی فضا باغی باغی کے نعروں سے گونج اٹھتی۔ حالانکہ جاوید ہاشمی نے جس جرم میں جیل کاٹی تھی اُس کے صحت جرم سے ہی انکار کر دیا تھا لیکن سہاگن وہی جو پیا من بھائے عمران نیاز ی کو اُس وقت شاہ محمود قریشی کو کنٹرول کرنے کیلئے ملتان سے ایک ہیوی ویٹ کی ضرورت تھی۔ جاوید ہاشمی جتنے دن پارٹی میں رہا اُس نے مالدار لوگوں کو مال کے بدلے عمران نیازی کے قریب کرایا جن میں ڈار برادران سرِ فہرست تھے۔
ایک دن تحریک انصاف لاہور کے سرگرم کارکن نعیم خان نے مجھے تفصیل سے ایک نوجوان کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ یہ ”چھوٹا باغی“ ہے۔ میں نے اُس کی طرف دیکھا تو بچوں کی سی معصوم مسکراہٹ اُس کے چہرے پر بکھر گئی۔ میں نے نعیم خان سے اُس کا اصل نام پوچھا تو اُس نے کہا اصل نام تو مجھے بھی نہیں معلوم شاہ صاحب ہیں اور چھوٹا ”باغی کہلوانے“ میں ہی فخر محسوس کرتے ہیں اور پھر بڑا باغی تو اسلام آباد کے دھرنے میں کینٹینر سے اتر کر ہمیں چھوڑ گیا لیکن ”چھوٹا باغی“ مجھے ہر جگہ نظر آیا۔ وہ جہاں ملتا بچوں کی طرح مجھ سے لپٹ جاتا اور ایسی ایسی فرمائشیں کرتا کہ میری ہنسی نہیں رکتی تھی۔ وہ عمران خان سے ملنا چاہتا تھا اور تحریک انصاف میں آنے کے کئی سال بعد تک جب اُ س نے عمران خان کو دور ہی سے دیکھا اور ملاقات کی کوئی سبیل نہ بنی تو اُس نے عمران خان کے نزدیکی ساتھیوں سے گلے اور شکایتیں شروع کر دیئے جن میں، میں بھی شامل تھا۔ آہستہ آہستہ مجھے معلوم ہوا کہ وہ بچہ ہوش حواس میں ہونے کے باوجود ذہنی طور پر تندرست نہیں اور پھر یہ بات ساری تحریک انصاف پر آشکار ہو گئی۔ عبد العلیم خان کو ایاز صادق کے مقابلے پر ضمنی انتخاب کا ٹکٹ ملا تو عمران نیازی کارکنوں سے ملنے لاہور آیا تو وہ درویش صبح سویرے ہی میرے گھر چلا آیا اور بچوں کی طرح عمران نیازی سے ملنے کی ضد کرنے لگا۔ مجھے کبھی کسی ورکر کو عمران نیازی سے ملانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوا لیکن اُس کے ساتھ پرابلم یہ تھی کہ وہ جس لیڈر کو بھی ملتا اُس کے ساتھ بچوں کی طرح چپک جاتا جسے دوسرے لوگ نا پسند کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ دوسرے لوگ اُسے عمران خان سے ملاتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار ہوتے تھے یقینا میں بھی انہیں میں شامل تھا لیکن اُس دن مجھ سے اُس کی تڑپ دیکھی نہ گئی اور میں نے گارڈن ٹاؤن آفس میں اُس کی ملاقات چیئرمین تحریک انصا ف سے کرا د ی۔ عمران نیازی نے مجھے مسکرا کر دیکھتے ہوئے کہا یہ کچھ ابنارمل دکھائی دیتا ہے میں نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا جناب باقی کون سے ذہنی تندرست ہیں؟ عمران نے مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھا اور پھر مسکرا کر چلا گیا۔ وہ مجھے پہلے ہی تحریک انصاف میں کوئی توپ شے سمجھتا تھا اب تو میں ہی اُس کا سب کچھ تھا۔ وہ ایک لمحے میں ناراض ہو جاتا اور دوسرے ہی لمحے میں آپ سے دوبارہ دوستی کر لیتا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت میں اُس کی حالت انتہائی غیر تھی۔ اقتدار کے دنو ں میں ہمیں تحریک انصاف اور ہم نے تحریک انصاف کو منہ نہیں لگایا لیکن ہمارے معاملات نظریاتی تھے لیکن اُس کے تو کوئی نظریات ہی نہیں تھے وہ تو ”عمران لورز کلب“ کا ممبر تھا۔ وہ عمران نیازی کے علاوہ تحریک انصاف کے کسی لیڈر کے ساتھ نہیں تھا اور اہم بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے لیڈر تو اُسے دیکھ کر نظر بچا جاتے تھے خود عمران نیازی بھی بعد ازاں اُس سے ملتے ہوئے کتراتا تھا۔ وہ کبھی رات ایک
بجے مجھے چائنہ چوک میں ملتا اور کبھی دو بجے مسجد شہدا کے سامنے، کبھی وہ تحریک انصاف کا پرچم لیے پوسٹ ماسٹر جنرل اور سول کورٹ کے درمیان کھڑا دکھائی دیتا اور کبھی مال روڈ پر چیف منسٹر ہاؤس کے سامنے ٹریفک درست کرا رہا ہوتا۔ میں نے اکثر تحریک انصاف کے سابق دوستوں سے پوچھتا کہ اِس کی فیملی اِس کا خیال کیوں نہیں رکھتی؟ لاہور کی سٹرکیں اور احتجاجات کے مقامات اُس کے قدموں کی آواز پہچانتے تھے لیکن وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ کیوں ہے اور کسی دوسری جماعت کا مخالف کیوں؟ وہ عمران نیازی کی تقاریر سے باتیں نکال کر وہی دہراتا رہتا۔ یہ بات پاکستان تحریک انصاف کا ہر ورکر جانتا ہے وہ وہ ذہنی طور پر تندرست نہیں تھا لیکن ہر جلسے اور جلوس میں ایک سر کا اضافہ کسے بُرا لگتا ہے۔ وہ کسی بھی پارٹی ورکر سے کچھ بھی مانگنے میں شرم محسوس نہیں کرتا تھا شاید وہ ان سب باتوں کے بارے میں جانتا ہی نہیں تھا۔ ایک ایسے نوجوان کو بے رحم پنجاب پولیس کے شیروں کے آگے چارے کی طرح ڈال دینا کہاں کی انسانیت ہے؟ کونسی سیاست ہے؟ کونسی سی آزادی اورکیسی عدلیہ بچاؤ تحریک ہے؟ جس شخص پر اللہ نے اپنا قانون لاگو نہیں کر رکھا تھا اُسے کسی سیاسی حقوق کی جنگ میں جھونکنا کہاں کی لیڈر شپ ہے؟ جو کسی ریاستی یا حکومتی عہدے کا آئینی طور پر اہل ہی نہیں تھا اُسے آنسو گیس، پتھراؤ، واٹر کینن اور لاٹھی چارج جیسے معرکہ پر لے جانے کی اجازت کس آئین، قانو ن یا اخلاقیات نے دے رکھی ہے؟ کیا کسی ذہنی معذور کو اپنے سیاسی نظریات کی بھینٹ چڑھانے کی اجازت آئین دیتا ہے؟ کیا کسی انسان سے کوئی ایسی مشقت لی جا سکتی ہے جس کا معاوضہ وہ وصول ہی نہیں کر سکتا؟ تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈز اور حکومتی عہدیداروں کے درمیان ایک بچہ جسے قانون معاہدے کا حق ہی نہیں دیتا وہ کسی سیاسی تنظیم کا رکن کیسے ہو سکتا ہے؟ مجھے اُس کی موت کا دکھ ہے اب وہ مجھے لاہور کے اُن مقامات پر کبھی نہیں ملے گا جہاں اکثر اُس سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ وہ مسکراتا ہوا بے ریا چہرہ، منافقوں کے قبیلے کے قابو آ کر مارا گیا۔ یہ لوگ جو آج اُس کے ماں باپ سے افسوس کرنے جا رہے ہیں جب یہی لوگ وزیر مشیر تھے تو اُسے اِن کے دفاتر کے آگے سے گزرنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ وہ چونکہ ڈاکٹر یاسمین راشد اور زبیر نیازی کے حلقہ انتخاب کا رہائشی تھا سو سب سے زیادہ وہ انہیں کے زیر عتاب بھی تھا کیونکہ اُس کے پاس معصوم خواہشات کے سوا تھا کچھ نہیں اور یہ لوگ بے رحم تعبیریں بیچنے والے لوگ ہیں۔ عظیم کرکٹر عبد القادر کا انتقال اُس وقت ہوا جب عمران نیازی وزیر اعظم تھا اور مجھے یاد ہے کہ عمران نیازی کے ہمعصر کرکٹروں میں سے اگرکسی نے دل سے عمران نیازی کی عزت کی ہے تو وہ صرف عبد القادر تھا لیکن عمران نیازی اُس کے جنازے پر بھی نہیں گیا تھا حالانکہ وہ 1997 کے انتخابات میں ہمارے ساتھ کمپین کرتا رہا ہے۔ وزارتِ عظمیٰ سے ہٹنے اور زخمی ہونے کے بعد جب عمران نیازی کے پاس سوائے فارغ وقت کے اور کچھ بھی نہیں بچا تو اُس نے عبد القادر کے بچوں کو فرمان جاری کیا کہ وہ زمان پارک آ کر اپنے مرحوم باپ کی فاتحہ کہہ جائیں لیکن عبد القادر کے غیرت مند بچوں نے ایسی ہتک آمیز تعزیت سے صاف انکار کر دیا لیکن ظلِ شاہ غریب ماں باپ کی اولاد تھا۔ وہ عمر بھر اپنے ماں باپ کے کسی کام نہیں آیا اور نہ ہی آ سکتا تھا لیکن اُس کا مردہ جسم عمران نیازی اور اُس کی سیاسی گِدھوں کے کام ضرور آئے گا کیونکہ رات گئے اُس کا باپ زمان پارک جا کر فاتحہ کہہ آیا تھا۔ چھوٹا باغی قتل ہو گیا ایسے جرم میں جس کا کرنا تو دور کی بات وہ اُس جرم کے بارے میں جانتا بھی نہ تھا۔ وزیر آباد کے معظم مقتول اور ظلِ شاہ کی موت کیا عمران نیازی کی بزدلی کے خاکے میں اپنی خواہشات کے رنگ بھرنے کے کام آ سکے گی؟ بات جو بھی ہو میرا ”چھوٹا باغی“ مر گیا اور اُسے کس جرم میں قتل کیا گیا کوئی نہیں جانتا۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.