اے ظل شاہ یہ انصاف کی جا نہیں

36

دو نوجوان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہیں۔ محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں:”یا عمر یہ ہے وہ شخص“
عمر رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے ہیں: ”کیا کیا ہے اس شخص نے؟“
”یا امیر المومنین! اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے“۔
عمرؓ اللہ عنہ پوچھتے ہیں: ”کیا کہہ رہے ہو۔ اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے؟“عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں:”کیا تُو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے؟“
وہ شخص کہتا ہے: ”ہاں امیر المومنین! مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ“
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں: ”کس طرح قتل ہوا ہے؟“
وہ شخص کہتا ہے: ”یا عمر!ان کا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا۔ میں نے منع کیا۔ باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا“۔
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ”پھر تو قصاص دینا پڑے گا۔ موت ہے اس کی سزا“نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں۔ نہ ہی اس شخص سے اس کے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے، نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں، معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے؟ ان سب باتوں سے بھلا عمر رضی اللہ عنہ کو مطلب ہی کیاکیونکہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر رضی اللہ عنہ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کے نفاذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ کو روک سکتا ہے حتیٰ کہ سامنے عمر کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو۔ قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔
وہ شخص کہتا ہے: ”اے امیر المومنین،اس کے نام پر جس کے حُکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں، مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجئے تاکہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے۔ میں اس کے بعد واپس آ جاؤں گا“
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ”کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟“مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی ایسا نہیں ہے جو اس کا نام تک بھی جانتا ہو۔ اس کے قبیلے، خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے۔ کون ضمانت دے اسکی؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے اور کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ
سے اعتراض کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔محفل میں موجود صحابہؓ پر ایک سناٹا چھا گیا ہے۔ اس صورتحال سے خود عمر رضی اللہ عنہ بھی متاثر ہیں کیونکہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں؟ یا پھر اس کو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا۔خود عمر رضی اللہ عنہ بھی سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ اس صورت حال پر سراُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں: ”معاف کر دو اس شخص کو“نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں: ”نہیں امیر المومنین!جو ہمارے باپ کو قتل کرے اس کو چھوڑ دیں، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا“عمر رضی اللہ عنہ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں: ”اے لوگو! ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟“ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں:”میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی“۔عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ”ابوذر! اس نے قتل کیا ہے“ابوذر رضی اللہ عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں: ”ہاں! چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو“عمر رضی اللہ عنہ: ”جانتے ہو
اسے؟“ابوذر رضی اللہ عنہ:”نہیں جانتا“عمر رضی اللہ عنہ: ”تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو؟“ابوذر رضی اللہ عنہ:”میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا۔ ان شاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا“عمر رضی اللہ عنہ: ”ابوذر دیکھ لو۔ اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تمہاری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا“ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں: ”امیر المومنین! پھر اللہ مالک ہے“عمر رضی اللہ عنہ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے۔ کچھ ضروری تیاریوں کیلئے، بیوی بچوں کو الوداع کہنے کیلئے، اپنے بعد اْن کے لئے کوئی راہ دیکھنے اور پھر اس کے بعد قصاص کی ادائیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے اور پھر تین راتوں کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے۔ انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا۔ عصر کے وقت شہر میں منادی پھر جاتی ہے۔ نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے۔ ابوذر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔
عمر رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں: ”کدھر ہے وہ آدمی؟“ابوذر رضی اللہ عنہ مختصر جواب دیتے ہیں: ”مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المومنین“ابوذر رضی
اللہ عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ محفل میں ھُو کا عالم ہے۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے۔یہ سچ ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں بستے ہیں، عمر رضی اللہ عنہ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمر رضی اللہ عنہ دیر نہ کریں، کاٹ کر ابوذر رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے۔ اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے۔ کوئی کھیل تماشا نہیں ہونے جا رہا۔ نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے۔ حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔مغرب سے چند لمحات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے۔ بے ساختہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے۔ ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے۔عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں: ”اے شخص! اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا۔ نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا“وہ بولا: ”امیر المومنین! اللہ کی قسم، بات آپ کی نہیں ہے۔ بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے۔ دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں۔ اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر۔ جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے“عمر رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کر کے پوچھا: ”ابوذر!تو نے کس بنا پر اس کی ضمانت دے دی تھی؟“ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”اے عمر! مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے“ سیدنا عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟ نوجوانوں نے، جن کا باپ مرا تھا، روتے ہوئے کہا: ”اے امیر المؤمنین! ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اٹھا لیا گیا ہے“عمر رضی اللہ عنہ ”اللہ اکبر“ پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گرنے لگے۔۔۔ فرمایا:”اے نوجوانو! تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے“۔”اے ابوذر! اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے“ ”اور اے شخص! اللہ تجھے اس۔ وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے“ اے ظل شاہ یہ پاکستان ہے۔یہاں کچھ نہیں ہوگا۔یہاں انصاف نہیں ملے گا مگر تیری قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔قیامت کے دن تیرے قاتل سرخرو نہیں گے۔وہاں پاکستانی نظام حکومت نہیں گا۔وہاں یہ ججز نہیں ہونگے۔وہاں اس مطلق العنان بادشاہ کی عدالت ہوگی جس کے حکم بغیر کسی کو پر مارنے ہمت و جرأت نہ ہوگی۔اے ظل شاہ یہ انصاف کی جا نہیں۔۔۔یہ انصاف کی جا نہیں۔

تبصرے بند ہیں.