دنیا مستقل بلاؤں، وباؤں کی زد میں رہتی ہے۔ وباؤں، بیماریوں کی بھی اقسام ہیں۔ کچھ وہ ہیں جو پانی کے ذریعے پھیلتی ہیں۔ کچھ وہ جو ہوا کے دوش پر سوار، کھانسنے، چھینکنے، چھونے سے لگ جاتی ہیں۔ ایک خطے کی بیماریاں بلاوجہ ہی دوسرے خطے تک بلاپاسپورٹ ویزا ٹکٹ جہازوں پر سوار ملکوں ملکوں جا پہنچتی ہیں۔ مثلاً سوائن فلو پھیلا اور ان ممالک میں بھی جا پہنچا جہاں خنزیر گالی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ لگا تو ان قوموں کو جو خنزیر سے محبت کی اسیر ہیں۔ مثلاً ایک تصویر میں امریکی خنزیر فارم میں جالی کے آرپار، عورتیں بچے مرد اس کی تھوتھنی چوم رہے تھے! تو یہ بھی وجہ بنی سوائن فلو کی۔ اسی طرح کورونا کا پھیلاو¿ چین، تھائی لینڈ وغیرہ میں بصد شوق کھائے جانے والے پینگولن (مُورخور، 70 ملین سالانہ کیڑے کھانے والا جانور) کے ذریعے قرار پایا۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ اسمگل ہونے والا جانور خیال کیا جاتا ہے، بے پناہ چیونٹیاں چٹ کر جانے والا بالآخر مجرم ٹھہرا۔ باوجودیکہ 200ڈالر فی کلو گرام تک بکتا رہا اپنے گوشت اور (مچھلی جیسے) چانوں کے ذوق رکھنے والوں کے ہاں! تو وہاں خنزیری ذوق اور یہاں مورخوری خوراک پوری دنیا میں (چیونٹیوں کی بددعا سے؟) کورونا بلا بن کر چڑھ دوڑا۔ ایک سال سے کم عرصے میں 16لاکھ انسان تو فوری لقمہ اجل بن گئے اور دنیا بھر میں 75ملین بیماری میں جکڑے گئے۔ معیشت عالمی سطح پر ادھ موئی ہوگئی۔ شکلیں بدل بدل کر یہ غیرمرئی سا وائرس دنیا کو تگنی کا ناچ نچاتا رہا (بلاموسیقی بلاآواز!) آج بھی موجود ہے! پناہ بخدا! طبی ماہرین، سائنسی ترقی منہ تکتی رہ گئی۔
یہ تو ہوئیں جانوروں سے پھیلنے والی جسمانی وبائیں، بلائیں۔ کچھ بیماریاں ہوا کے دوش پر آواز، ساز، تصویری فکری بیکٹیریا، وائرس کالی اسکرینوں کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلتی ہیں۔ یہ فیس بک، انسٹاگرام، (کالی اسکرین کے ہمہ نوع انڈے بچے) کے ذریعے اخلاقی، فکری، نفسیاتی بیماریاں پھیلانے کے ذرائع ہیں۔ سمع وبصر پر حملہ آور ہوکر قلب ونظر میں انتشاری بحران اٹھا کھڑا کرتی ہیں۔ انسان نرا خاک کا پتلا تو نہیں۔ اس کی مادی تندرستی وسلامتی اس کے وجود میں موجود قیمتی آسمانی جوہر، ’روح‘ کی سلامتی سے وابستہ ہے۔ آج کی دنیا انسانی زندگی کے ہر دائرے میں باؤلی ہوئی پھر رہی ہے۔ اپنی شناخت کھو کر تنہائی، عدم آسودگی، اضطراب، اعصابی تناؤ، ذہنی دباؤ(معروف بہ ٹینشن ڈیپریشن، اینگزائٹی) کا ملغوبہ ہے آج کا انسان۔ صرف امریکا میں 50-70 ملین لوگ بے خوابی کے مرض میں مبتلا ہیں۔ خواب دیکھیں تو بھوت بلائیں ہی دیکھیں گے۔ عورت، مرد، بچے، بوڑھے سب اپنے اپنے تنہائی کے صحراؤں میں سرابوں میں مارے مارے پھرتے ہیں، کتے، بلیاں پالتے، ان کے لمس میں شفقت تلاش کرتے۔ اب حالت یہ ہوچکی ہے کہ کورونا کی قید، آن لائن زندگی بند تنہا کمروں کی بیزاری سے نمٹنے کو انہوں نے پالتو جانوروں میں مداوا تلاش کیا، مثلاً اب کینیڈا میں ہر تیسرے فرد کی زندگی کا حصہ ایک پالتو جانور ہے۔ (بیوی بچے نہ پالے، دم والے جانور پالے!) اب دفاتر جانے کے لیے انہیں پالتو کھلانے کے لیے آیا، ملازم، خبرگیردرکار ہے۔ پہلے وقتوں میں ڈے کیئر سینٹر بچوں کی نگرانی کو ہوتے تھے۔ اب کتا، بلی کیئر (نگہداشت) سینٹر درکار ہیں۔ بعض دفاتر پالتو ہمراہ لانے کی اجازت دینے پر مجبور ہوگئے ہیں تاکہ کام چلتا رہے! سو بلی اپنے آقا کی گود میں سو رہی ہے اور وہ دفتر میں کمپیوٹر پر کام کر رہے ہیں! خلل ہے دماغ کا؟
نت نئی تحقیق ہوتی اور اس کے نتائج دھوم دھام سے شائع ہوتے ہیں۔ مثلاً اب یہ ہوائی چھوڑی ہے محققین نے (حقہ پیتے ہوئے؟) کہ خود سے باتیں
کرنے سے مثبت نتائج مل رہے ہیں۔ اس سے اندر روشنی جاتی ہے! مجبوری کا نام شکریہ! جب تمام انسانی رشتوں کو کاٹ ڈالا۔ تنہائی کاٹ کھانے لگی تو خود کلامی ہی باقی رہ گئی تھی۔ اپنی آواز سن کر خوش ہو لیے۔ کوئی تو ہے! بجائے کوئی ہے؟ کوئی ہے؟ کی صدا دیواروں سے ٹکراکر لوٹ آئے! یہ ہے انتہائی ترقی یافتہ ممالک کی معراج! اگرچہ مغرب میں کالی اسکرینوں پر دل بہلانے کے ہمہ نوع انتظام موجود ہیں مگر تشنگی نہیں جاتی۔ انہی عالمی بلاؤں کے بیچ ایک دن اقوام متحدہ نے عورت کے نام بھی کردیا ہے۔ کھلونے دے کے بہلائی (ٹرخائی) گئی ہے! سال کے 364 دن مردوں کے اور مبلغ ایک دن عالمی یوم نسواں کا جھنجھنا پوری دنیا کے اعصاب جھنجھنا ڈالے گا۔ خواتین زبردست تیاریوں میں لگی ہیں۔ (پاکستان میں تمامتر شورشرابے کے باوجود مارچنی عورتوں کی تعداد حقیر ترین اقلیت کی ہے۔ اگر جماعت اسلامی کے علاوہ مدارس اور دیگر مہذب خواتین نکل کھڑی ہوں تو لگ پتا جائے!) حق، حقوق کے پہاڑے پڑھے جائیں گے۔ زندگی کے ہر دائرے میں مرد کو مدمقابل، متخاصم، ظالم بناکر ان پر چاندماری کی جائے گی۔ ان سے برابری کے لیے نت نئی اصطلاحیں مزید آن اتریں گی اور پھر ٹائیں ٹائیں فش۔ وہی دفتر، وہی ہراسمنٹ، وہی چھیڑ چھاڑ، اسکینڈل اور دائروں کا سفر اگلے سال کے 8 مارچ تک۔ پاکستان یا کسی بھی مسلمان ملک میں یہ دن منایا جانا، عورتوں کا عالمی واویلے میں شریک ہونا حیران کن ہے۔ اس مرتبہ کا نعرہ ہے Gender Equity ۔ یعنی مردوں کے ساتھ ہمہ نوع مساوات مبنی برانصاف۔ ہر دائرہ عمل میں۔ اس دن کا پھول ’مموسا‘ (Mimosa) ہے۔ آسٹریلیا میں نرم ونازک نفیس چھوئی موئی سا پھول۔ (یہ مغربی مرد مار قسم کی عورت سے تو مطابقت نہیں رکھتا! اس سے بہتر تو گوبھی کا پھول ہوتا۔) روس میں 8مارچ کے حوالے سے ایک لاکھ 50ہزار گلاب فروخت ہوتے ہیں۔ (اگرچہ اس سال وہ یوکرین پر بم برسانے میں مشغول ہے۔) ویسے ’مموسا‘ پھول تحفہ دینے کے لاحاصل شغل سے تو سموسہ کھلانا بہتر ہوتا۔ پاکستانی مارچنیاں اس مشورے سے فیض یاب ہوسکتی ہیں۔
مغربی عورت کی کہانی تو واقعی دردناک، المناک ہے۔ اس کے مظاہرے، احتجاج بجا ہیں۔ وہاں عورت کو ترقی اور آزادی، مساوات، برابری کا جھانسا دے کر اسے گھر سے نکال باہر کیا۔ اس کی جائے پناہ، مقامِ تحفظ عزت ووقار، سکینت کا گہوارہ گھر، بچے اور لباس تک اس سے چھین لیا۔ گھروں پر تالے ڈال دیے۔ عورت! اللہ کی خوبصورت، نازک نفیس تخلیق! وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ! حضرت آدم علیہ السلام کو یہ خوبصورت رفاقت جنت ہی میں عطا ہوگئی! عورت کو صفتِ تخلیق سے رب تعالیٰ نے نوازا۔ آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری میں جہاں شاعر سانس بھی آہستہ لینے کو کہتا ہے، عورت کو شیشہ گری (انسان سازی) کا فرض سونپا گیا۔ وہ خود نازک اور اس کام کی نزاکتوں کی اہل، اسے سمجھنے برتنے میں طاق بنایا ہے خالق نے۔ دنیا کی سات ارب آبادی اسی کی مرہونِ منت ہے! عورت کو گھر سے بے گھر کرکے انسان سازی کا کارخانہ تباہ ہوگیا۔ خانہ خالی میں اب وحشت اور دیوانگی کے دیوؤں کا ڈیرا ہے۔ بچے رل گئے۔ عورت کا چکناچور ہوگئی۔ اس کی خوبصورت شخصیت مسخ ہوگئی۔ بنیادی اوصاف، سیرت وکردار کی خوشبو، اخلاق، ایثار، حیا، نرمی، رافت، سرچشمہ محبت کے سارے سوتے خشک ہو گئے۔ مغرب میں تو (بالخصوص) وہ باضابطہ چڑیل سی ہوگئی ہے، خالقِ حقیقی سے رابطہ ٹوٹ گیا۔ وہ خود تہی دامن ہوگئی۔ مرد سے اس کا مضبوط تحفظ اور باہم اعتماد ومحبت کا رشتہ ختم ہوگیا۔ اسے جوڈو کراٹے سیکھنے اور مسلز بنانے جم جانے پر لگا دیا گیا۔ تڑپ کر اس نے یہ بھی کہا: مرے آنگن میں خوشبو کی کمی ہے، مرے مولا! اسے پھولوں سے بھر دے۔ تری پہچان جب مجھ کو ملی تھی، وہی لمحہ مجھے بارِ دگر دے، مرے دل میں مکیں ہو لامکانی، خبر دے مجھ کو خود اپنی خبر دے! واللہ آج کی مغربی عورت کے روئیں روئیں کہ اب یہ پکار ہے، جسے پانے کو مغرب میں مسلمان ہونے والی عورتوں کی شرح مردوں سے زیادہ ہے۔ مغربی معاشرہ اس کی چٹختی سسکتی روح پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ وہ عورت کے استحصال کے عادی ہوچکے۔ اسے اس روپ میں رکھنا ان کی معاشی صنعتی ضرورت ہے۔ ملبوسات، شوبز، اشتہارات، میک اپ، فیشن، حرص وہوس! کالی اسکرین کے سارے تماشے ختم ہو جائیں اجڑ جائیں اگر اس کا آنگن پھولوں سے بھر دیا جائے!
مگر یہ ہماری لڑکیوں، عورتوں کو کیا بلا پڑی اس عالمی دیوانگی کا حصہ بننے کی؟ حرم میں مسعیٰ میں روزانہ عورت کے وجود کو، اس کے عظیم مقامِ امومت کو اپنی ماںسیدہ ہاجرہؑ کے نقشِ قدم پر سعی کرتے دوڑتے مرد سلامی پیش کرتے، یومِ نسواں ہی منا رہے ہوتے ہیں۔ انسانی معزز تاریخ کے سبھی سنہرے نام ہمارا اعزاز ہیں۔ اماں حواؑ سے لے کر حضرت سارہؑ، حضرت آسیہؑ، اور ہماری محبوب ماں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا جنہیں جبرئیل امین اپنا اور اللہ رب العزت کا سلام دیتے ہیں! امہات المومنین سے قرآن ان کے مقامِ بلند کے لیے فرماتا ہے کہ ’تم عام عورتوں جیسی نہیں ہو۔‘ (الاحزاب) آج ہم ان کی ایمانی بیٹیاں بھی عام عورتوں جیسی نہیں ہیں۔ رمضان آ رہا ہے۔ اس دیوانگی سے نکل کر قرآن کے آئینے میں اپنا قابلِ رشک مقام دیکھیے، اپنائیے اور مغرب کی محروم عورت تک پہنچائیے! یہی مسلم عورت کا فرضِ اولین ہے! سرمایہ فخر بھی!
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.