”کتاب میلہ: کبھی کتابوں میں پھول رکھنا“

19

کتابوں میں پھول رکھنے کی روایت بڑی رومانوی ہوا کرتی تھی مگر زمانہ اس قدر تیزی سے بدل رہا ہے کہ اب کتابیں ہیں اور نہ پھول باقی ہیں۔ کتاب اور لائبریری یا کتب خانہ اب قصہئ پارینہ بن چکے ہیں اب تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ یونیورسٹی کے طلبا و طالبات کی ٹیکسٹ بک یا درسی کتب بھی ختم ہو رہی ہیں جب سے پرائیویٹ یونیورسٹیوں کو ڈگری جاری کرنے کا اختیار ملا ہے اس نے کتابوں پر انحصار کم کر دیا ہے اب پروفیسر صاحبان کلاس کے بچوں کا Whatsapp گروپ بناتے ہیں اور لیکچر اس گروپ میں اپ لوڈ کر دیا جاتا ہے۔ جس نے پڑھنا ہے پڑھ لے اگر کسی کو مزید رہنمائی کی ضرورت ہو تو انٹرنیٹ پر خود سرچ کرے اس سے طالبان علم میں تحقیق کی عادت تو پیدا ہوتی ہے مگر کتاب کی روایتی اہمیت نے اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ جہاں تک تحقیق کی بات ہے تو ایسے کیسز کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں جہاں ڈاکٹریٹ کرنے والے استادوں پر الزام ہے کہ انہوں نے مقالہ جات چوری کر کے اپنے نام سے چھپوا لیے ہیں اور بہت سے وہ ہیں جو پکڑے ہی نہیں جاتے ہمارا وہم و گمان تو اس کی وجہ کتاب سے قطع تعلق کو ہی سمجھتا ہے۔
کتاب کے ساتھ گم گشتہ تعلق کی بحالی کیلئے ہمارے ہاں کچھ نہ کچھ کوشش ہو رہی ہے مگر اس کوشش میں اہل مکتب یا اہل علم سے زیادہ دلچسپی ان کاروباری اداروں کو ہے جو کتابوں کی چھپائی کا کام کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کا کاروبار ترقی کرے مگر اس میں بھی انہیں کا میابی نہیں مل رہی۔
میلے ہماری ثقافت کا ایک اہم حصہ ہیں۔ میلہ کا لفظ ذہن میں آتے ہی کھیل تماشا سیر و تفریح اور کھانے پینے کا خیال آتا ہے۔ عوام کی اس حس لطافت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کتاب کی واپسی کی تحریک چلانے والوں نے کتابوں کی نمائش کا نام اب کتاب میلہ رکھ دیا ہے تاکہ عوام کو میلہ کے نام پر کتاب کی طرف راغب کیا جاسکے اس لئے اب کتاب میلے منعقد کیے جاتے ہیں جہاں پبلشرز کی طرف سے بڑے بڑے لکھاریوں کو مدعو کیا جاتا ہے اور خریداروں کو مصنف کی کتاب مصنف کے دستخط بمعہ سیلفی کی مفت سہولت دی جاتی ہے مگریہ
حربہ بھی اتنا کارآمد ثابت نہیں ہو رہا۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی (IT) کے انقلاب نے پرانی روایات کو ملک بدر کر دیا ہے جس کی وجہ سے ہمارے ذہن اب عملی نہیں بلکہ Virtual ہو چکے ہیں۔ اب ہم پھول کو شاخ سے توڑ کر اس پر جمے ہوئے شبنم کے قطروں اور اس کی خوشبو کا ذائقہ اٹھانے کے بجائے انٹرنیٹ پر پھولوں کی تصویروں سے لطف اندوز ہونے اور ان کو آگے شیئر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں نئی نسل تو ایسے سوفٹ ویئر کی ایجاد کی منتظر ہے جہاں بھوک لگنے پر ایسے میگا بائٹس ان کے لیپ ٹاپ یا موبائل سے ڈاؤن لوڈ ہو کر ان کے جسم میں ٹرانسفر ہو جائیں جہاں انہیں کھانا کھانے کی ضرورت نہ پڑے۔
ہمارے زمانے میں اساتذہ ہمیں آؤٹ آف سیلبس کتا بوں اور ادبی ناولوں کے بارے میں بتاتے تھے اور سکولوں، کالجوں اور گھروں میں لائبریری ہوا کرتی تھی۔ کوئز پروگراموں میں سوال مرتب کئے جاتے تھے کہ فلاں مجموعہ شاعری کا مصنف کون ہے یا فلاں مصنف کی کتاب کا نام کیا۔ اب رزق ہوا ہو چکا ہے۔ شاید اسی وجہ سے ہماری اخلاقی روایات دم توڑ گئی ہیں معاشرے میں مروت تحمل صبر و برداشت اور حسن کلام یا شائستہ گفتگو کا تصور ختم ہو چکا ہے۔ ہمارے زمانے میں کسی کی علمی یا شخصی استعداد کا اندازہ لگانے کیلئے دیکھا جاتا تھا کہ یہ کسی قسم کی کتابیں پڑھنے میں دلچسپی رکھتا ہے مگر اب ہماری زندگی سے کتاب کا خانہ خالی ہو چکا ہے اور اس کی جگہ اپ لوڈ اور ڈاؤن لوڈ نے لے لی ہے۔
گزشتہ ہفتے ہمیں ایکسپو سنٹر لاہور میں ایک ایسے ہی کتاب میلے میں جانے کا اتفاق ہوا جس کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ آج کے اس Profit & Loss کے دور میں بھی کچھ لوگ ہیں جو معاشرتی ریفارم کا کام کر رہے ہیں یہ کتاب میلہ گزشتہ کئی سال سے منعقد ہو رہا ہے اور میری کوشش ہوتی ہے کہ اس موقع پر کتابیں خرید کر اس کاز کی حمایت کی جائے اس دفعہ کے کتاب میلے کی جگہ گزشتہ سال کے مقابلے میں سکڑ گئی ہے جس کی وجہ عوام کی عدم دلچسپی ہے۔
اسی طرح میلہ میں آنے والوں کی تعداد میں بھی کمی دیکھی گئی اور اس موقع پر خرید و فروخت کے اعدادو شمار بھی گزشتہ سال کے مقابلے میں کم ہوں گے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کی قوت خرید میں کمی آچکی ہے دوسرا کتا بوں کی قیمتیں بھی پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہیں تیسری اہم بات یہ ہے کہ کتابوں کی آن لائن خریداری کے ریٹ کتاب میلہ کے نرخوں سے کم ہیں اس لیے کسٹمر کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ سستی کتاب جہاں سے ملتی ہو وہاں سے خریدے۔
یہاں پر اپنی ذاتی خریداری کا تجربہ شیئر کرنا چاہوں گا قرآن مجید شائع کرنے والی بر صغیر کی مشہور دکان تاج کمپنی کے سٹال سے مجھے قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ نظر آیا۔ مشہور برطانوی نو مسلم Marmad uke Picpthal نے اسلام قبول کرنے کے بعد کئی سال کی محنت سے 1928ء میں قرآن کا انگریزی ترجمہ کیا جسے اس وقت پوری دنیا میں سب سے مستند مانا جاتا ہے۔ تاج کمپنی نے ہندوستان میں Glorious Quran کے نام سے یہ ترجمہ 1931ء میں شائع کیا پاکستان بننے کے بعد آج تک اس کو بارہا شائع کیا جا چکا۔ کوئی اور انگریزی ترجمہ شدہ کتاب اس قدر ضخیم خریدیں تو اوسطاً آپ کو یہ 5000 روپے کی ملے گی لیکن Glorious Quran کی یہ جلد جو بہترین کاغذ کوالٹی، بڑا سائز اور خوبصورت جلد کے ساتھ آپ کو صرف 1350 میں سیل کی جارہی ہے جو لاگت سے بھی کم ہے۔ تاج کمپنی کے سٹال پر موجود نمائندے نے بتایا کہ یہ کمپنی 1931ء سے لے کر اب تک 3 بار بک چکی ہے مگر Glorious Quran کی اپنی کاوش کے ساتھ ان کا ایک روحانی تعلق ہے جس وجہ سے کمپنی کا اعلان ہے کہ وہ اس پر منافع نہیں لیں گے جس وجہ سے قرآن کا یہ انگریزی ترجمہ شدہ نسخہ آپ کو یہ سمجھیں کہ مفت دیا جا رہا ہے ایک برائے نام ہدیہ کے عوض۔
اللہ تعالیٰ مرحوم Pickthal پر اپنی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے جو ان کی قبول اسلام اور اسلام کی حرمت کی ترجمانی کرتا ہے۔ انگریزی سمجھنے والوں کیلئے اس نسخے کے ذریعے قرآن فہمی بہت آسان ہے۔ اس میں جامعیت اور Clarity اردو ترجموں کی نسبت کافی زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے اس سے استفادہ کرنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تبصرے بند ہیں.