پبلک پالیسی کی تشکیل، تنقید اور جانچ میں میڈیا کا کردار

13

نوید الٰہی ایک ریٹائرڈ سینئر بیوروکریٹ ہیں دہشت گردی سے نمٹنے کی قومی مہم میں ایک نڈر ماہر اور محب وطن پاکستانی کے طور پر نیک نام رہے ہیں، سینئر افسران کی تربیت بھی کرتے رہے ہیں، پاکستان کی سول بیوروکریسی جن افسران کے نام اور کام پر فخر کرتی ہے نوید الٰہی ایسا ہی نام نامی ہے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنی ذہانت و مہارت کو نوجوانوں میں منتقل کرنے کے لئے ایک بڑی نجی یونیورسٹی میں سکول آف گورننس اینڈ سوسائٹی قائم کیا اور پھر تعلیم و تربیت اور تدریس کے لئے وقف ہو گئے۔ ڈاکٹر نوید الٰہی نے پروفیسر سکول آف گورننس اینڈ سوسائٹی کے طور پر گزشتہ دنوں ایک راؤنڈ ٹیبل مباحثے میں شرکت کی دعوت دی۔ موضوع ”پبلک پالیسی کی تشکیل، تنقید اور جانچ میں میڈیا کا کردار“ تھا۔ گول میز کے شرکا میں بیرسٹر سید اظفر علی صوبائی وزیر برائے مذہبی امور، زکوٰۃ اور عشر، اسرار رانا، گروپ ایڈیٹر روزنامہ پاکستان، پروفیسر ڈاکٹر انجم ضیا، ڈین میڈیا اینڈ کمیونیکیشنز سٹڈیز، یو ایم ٹی پروفیسر راحت العین، پروفیسر سکول آف گوورنس اینڈ سوسائٹی، پروفیسر ڈاکٹر مجاہد علی منصوری، سابق پروفیسر شعبہ صحافت پنجاب یونیورسٹی، اور مصطفی کمال پاشا،سابق ڈائریکٹر جنرل کمیونیکیشن، ٹیوٹا پنجاب شامل تھے۔ ڈائریکٹر سکول آف گورننس اینڈ سوسائٹی ڈاکٹر عائشہ اظہر اور ڈاکٹر سیمی وحیدبھی شرکا میں موجود رہیں۔
ڈاکٹر نوید الٰہی اجتماعی دانش کے پیامبر بھی ہیں اس لئے وہ شعبہ جاتی ماہرین کو یونیورسٹی کانفرنس روم میں اکٹھا کرتے رہتے ہیں۔ مختلف موضوعات پر ماہرین کی آرا سنتے بھی ہیں اور اپنے طلبہ و طالبات کو بھی دانش سے مستفید ہونے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ اپنے افتتاحی خطاب میں انہوں نے بتایا کہ میڈیا کا سرکار کی پالیسی سازی اور اس کے نفاذ میں انتہائی اہم کردار ہوتا ہے۔ میڈیا پالیسی سازوں کے ساتھ معاملات میں نہ صرف براہ راست شریک ہوتا ہے بلکہ انہیں عوامی ضروریات اور خدشے سے بھی آگاہ رکھتا ہے اس طرح پالیسیوں کی تشکیل میں نہ صرف عوامی ضروریات کو مدنظر رکھا جاتا ہے بلکہ پالیسیوں کے نفاذ میں شفافیت کے عمل کو بھی فروغ دینے میں مدد ملتی ہے۔ سرکاری اہلکاروں کے احتساب میں بھی معاونت فراہم کرتا ہے۔ شرکا نے تفصیلاً موضوع کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا، گفتگو بڑی مفید رہی۔ ہمارا قومی میڈیا بنیادی طور پر نجی اور سرکاری میں تقسیم ہے۔ نجی شعبے میں قائم میڈیا کے مالکان کی اکثریت سرمایہ کاروں اور سرمایہ داروں پر مشتمل ہے جو یا تو تعلیمی اداروں کے مالک ہیں یا وہ رئیل اسٹیٹ بزنس سے وابستہ ہیں۔ ہمارے میڈیا منظر پر نجی شعبہ چھایا ہوا ہے۔ پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے مالکان نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس لئے ہمارا میڈیا ذاتی مفادات کے لئے سرگرداں نظر آتا ہے۔ میڈیا ہاؤسز کسی نہ کسی سیاسی و مذہبی جماعت کے ساتھ وابستگی کے ذریعے اپنا اثرورسوخ بڑھاتے رہتے ہیں۔ اپنے مفادات کے لئے سرگرم ایسے میڈیا ہاؤسز کے غلبے نے معاملات دگرگوں کر دیئے ہیں۔ کئی افراد تو اپنی غیرقانونی آمدنی کو تحفظ دینے اور چھپانے کے لئے بھی میڈیا ہاؤسز قائم کر لیتے ہیں پھر وہ اپنا ویسا ہی مقصد لے کر آگے بڑھتے ہیں۔ اس لئے سرکاری پالیسی سازی میں عوامی سوچ و فکر کو آگے بڑھانا ان کے نہ تو ایجنڈے میں شامل ہوتا ہے اور نہ ہی ان میں ایسی ذمہ دارانہ صلاحیت پائی جاتی ہے۔ دوسرا ہمارے ہاں اردو میڈیم میڈیا کا غلبہ ہے۔ ابلاغ عامہ کے لئے اردو میڈیم ہی فعال ہے جبکہ پالیسی ساز انگلش میڈیم ہیں۔ ہمارے پالیسی ساز بیوروکریٹ ہوں یا ٹیکنوکریٹ وہ انگریزی میں ہی سوچتے ہیں، انگریزی بولتے ہیں اور انگریزی لکھتے ہیں اس لئے وہ عوام سے، عامتہ الناس سے، ان کے مسائل سے، ان کی سوچ سے بیگانہ ہی رہتے ہیں۔ میڈیا بھی کیونکہ اردو میڈیم ہی ہے اس لئے میڈیا ان کی رہنمائی کرنے اور عوامی سوچ سے آگاہ کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ ہمارے ہاں پالیسیوں کے بے ثمر رہنے اور مطلوبہ نتائج ظاہر نہ کرنے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ پالیسی سازوں کو عوامی مسائل کا پتا ہی نہیں ہوتا ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کی اکثریت جون جولائی کے گرم اور قہرآلود مہینوں میں سوٹ پہن کر یخ بستہ دفتروں میں بیٹھ کر جو کچھ سوچتی ہے، سمجھتی ہے، لکھتی ہے اور پھر نافذ کرتی ہے، اس کا زمینی حقائق سے قطعاً تعلق نہیں ہوتا ہے، ڈاکٹر انجم ضیا صاحبہ نے اس حوالے سے بالتفصیل پُرمغز بات چیت کی۔
پروفیسر راحت العین نے بھی بڑی مدلل گفتگو کی اور پالیسی سازوں کی ناکامی کا تفصیلاً ذکر کیا۔ انہوں نے پالیسی سازوں کا فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ پر زور دینے کے حوالے سے زبردست محاکمہ کیا اور بتایا کہ پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے لیکن یہاں خالص دودھ کی عوام تک رسائی کا کوئی بندوبست نہیں ہے پھر نجی شعبے نے یہ کام سنبھالا۔ نیسلے نے یہاں دودھ
پراسیسنگ پلانٹ لگائے اور آج صورت حال یہ ہے کہ وہ 13 ملین ڈالر ماہانہ کا زرمبادلہ باہر لے جاتا ہے۔ انہوں نے یہاں FDI کے ذریعے معاملات کو سنبھالا اور ہمارا ہی دودھ لے کر اسے پیک کر کے ہمیں انتہائی مہنگے داموں بیچنا شروع کیا اور پھر زرمبادلہ یہاں سے باہر لے جانا شروع کر دیا۔ یہی حال بجلی کی پیداکنندہ کمپنیوں کا ہے۔ پاکستان انہیں سالانہ 4000 ارب روپے ادا کرتا ہے۔ ہم پانی سے بجلی پیدا کرتے تھے، ایٹمی بجلی گھر چلتے تھے لیکن آئی پی پیز نے آ کر فرنس آئل سے مہنگی بجلی پیدا کرنا شروع کی ہم نے ان سے کچھ اس طرح معاہدے کئے کہ فی یونٹ لاگت آسمانوں کو چھونے لگی۔ فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے کے باعث عالمی مارکیٹ میں فرنس آئل کی گھٹتی بڑھتی قیمتوں نے بھی یہاں بجلی کی پیداواری لاگت میں عدم استحکام پیدا کیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ 4000 ارب روپے ادا کرنے کے باوجود پورا ملک لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہے۔ عوام جان لیوا بل بروقت ادا بھی کرتے ہیں لیکن انرجی سیکٹر کا گردشی قرضہ ہے کہ شیطان کی آنت کی طرح پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے یہی صورت حال گیس کی ہے ایسا ہی کچھ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ عام آدمی بجلی، گیس اور تیل کی ادائیگیاں کرتے کرتے ہلکان ہو جاتا ہے اس کی آمدنی کا ایک معقول حصہ انہی ادائیگیوں میں اڑ جاتا ہے۔ اس پر اشیا ضروریہ کی آسمان کی طرف محو پرواز قیمتوں کا جان لیوا مسئلہ ہے۔ ہمارا ابلاغ عام سیاستدانوں اور فنکاروں کے بیانات سے مزین ہوتا ہے۔ عمران خان نے کہا، نوازشریف نے کہا، مریم نواز نے کہا، آصف علی زرداری نے کہا وغیرہم سیاستدانوں کے ماننے اور چاہنے والے انہی بیان بازیوں سے تسکین پاتے ہیں۔ میڈیا ان کے حقیقی مسائل کی وجوہات سامنے لاتا ہے اور نہ ہی انہیں حل کرنے کے لئے ذہن سازی کا کام کرتا ہے۔پالیسی ساز ان لوگوں سے کٹے ہوئے ہیں جن کے لئے انہیں پالیسیاں بنانا ہوتی ہیں پھر میڈیا پروفیشنلز کی صلاحیتوں کا بھی مسئلہ ہے۔ ہمارے ہاں صحافیوں کی اکثریت نہ صرف انگریزی زبان سے نابلد ہے بلکہ انہیں مختلف علوم کی اصطلاحات سے کماحقہ واقفیت نہیں اکثریت معاشی اصطلاحات سے مکمل طور پر نابلد ہے۔ انہیں ملین، بلین اور ٹریلین کا ہی پتا نہیں ہوتا ہے بجٹ خسارہ کیا ہوتا ہے۔ گردشی قرضہ کیسے وقوع پذیر ہوتا ہے اس سے چھٹکارا کیسے پایا جا سکتا ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، لندن کلب، پیرس کلب اور کمرشل بینک کیسے کام کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس لئے ہمارا میڈیا معاملات کی تہہ تک پہنچنے اور ان کا کماحقہ ادراک کرنے سے ہی قاصر ہے جس کے باعث انہیں پالیسی سازی میں کچھ بھی کردار ادا کرنے کی نہ تو ضرورت محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی ان میں ایسا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
راؤنڈ ٹیبل کے آخر میں پروفیسر ڈاکٹر مجاہد منصوری نے ایک خوبصورت لیکچر دیا جس سے سکول آف گورننس اینڈ سوسائٹی کے طلبہ و طالبات نے جی بھر کر استفادہ کیا۔

تبصرے بند ہیں.