تاثر اور حقیقت

19

بغیر کسی تمہید کے گفتگو شروع کرتے ہیں تاثر یہ ہے کہ عمران خان بہت مقبول ہیں حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ لانگ مارچ سے لے کر جیل بھرو تحریک تک ہر تحریک ناکامی سے دوچار ہوئی۔تاثر یہ ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ بہت ظلم ہو رہا ہے اور اس کی پوری قیادت کو جیل میں بند کر دیا گیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے جیل بھرو تحریک سے پہلے جمیل فاروقی، شہباز گل، اعظم سواتی، فواد چوہدری، عمران ریاض اور شیخ رشید کے علاوہ ساتواں بندہ گرفتار نہیں ہوا لیکن دوسری جانب تحریک انصاف کے دور میں گرفتار ہونے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے جس میں آصف علی زرداری، میاں نواز شریف، مریم نواز، فریال تالپور، میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز، شاہد خاقان عباسی، رانا ثنا اللہ، سید خورشید شاہ، شرجیل میمن، سعد رفیق، سلمان رفیق، حنیف عباسی وغیرہ شامل ہیں۔تاثر شروع کے دنوں میں یہ دیا گیا تھا کہ عدلیہ تحریک انصاف کے خلاف ہے لیکن حقیقت خود آشکار ہو گئی جب عدلیہ نے اس حد تک لاڈ کیا کہ تاثر کی دھجیاں اڑ گئیں۔ تاثر یہ تھا کہ باجوہ صاحب تحریک انصاف کے لئے بہت بڑے ولن کا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن پھر حقیقت یہ سامنے آئی کہ وہ تو کسی اور کے لئے ولن کا کردار ادا کر رہے تھے۔ تاثر ہر دوسرے دن یہ بنتا ہے کہ حکومت عمران خان کو گرفتار کر کے دم لے گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر بار ہوتا یہ ہے کہ خان صاحب کو مفت میں ہیرو بنا کر لوٹ کے بدھو گھر کو آجاتے ہیں۔ تاثر یہ ہے کہ خان صاحب پر جو مقدمات ہیں وہ تو سب مذاق ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ توشہ خانہ، فارن فنڈنگ اور ٹیریان کیس سمیت ہر کیس میں نااہل ہو سکتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان قانون اور عدالتوں کے ساتھ اور عدالتیں عمران خان کے ساتھ جو کر رہی ہیں وہ اصل مذاق ہے۔ تاثر یہ ہے کہ معاشی تباہی کی ساری ذمہ داری موجودہ حکومت کے سر ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تباہی کے اصل ذمہ دار عمران خان ہیں۔ تاثر یہ ہے کہ حکومت عمران خان سے ڈر گئی ہے اور وہ عمران خان کو گرفتار نہیں کر سکتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر حکومت گرفتار کرنا چاہے تو چند درجن کارکن چاہے وہ لٹھ بردار ہی کیوں نہ ہوں وہ کبھی رکاوٹ نہیں بن سکتے اس لئے کہ اگر ایسا ہوتا تو پھر الطاف حسین کے پاس تو اس سے کہیں زیادہ ڈنڈا بردار تو کیا اسلحہ بردار تھنڈر سکواڈ تھا تو انھیں لندن نہ جانا پڑتا۔ تاثر یہ ہے کہ حکومت الیکشن سے ڈر گئی ہے اور وہ ہر صورت الیکشن سے فرار چاہتی ہے اور اس تاثر کو بنانے میں بھی بنیادی کردار خود حکومتی طرز عمل کا ہے لیکن اگر حکومت الیکشن ملتوی کرنے کی طاقت یا حوصلہ نہیں رکھتی تو مریم نواز، رانا ثنائاللہ اور دیگر کے بیانات سے الیکشن سے فرار کا تاثر
دے کر قبل از وقت الیکشن میں اپنی شکست کا بندوبست کیوں کیا جا رہا ہے جبکہ حقیقت جو نظر آ رہی ہے وہ یہی ہے کہ حکومت کچھ کر لے سپریم کورٹ الیکشن کرا کر چھوڑے گی۔
ہم نے جو کہا یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ سمجھ نہ آ سکے بلکہ سب کھلے زمینی حقائق ہے تو پھرسوال یہ ہے کہ ان حقائق کو پس پشت ڈال کر آخر قومی میڈیا کا ایک بڑا حصہ تاثرات کو حقیقت کا روپ دینے پر کیوں تلا ہوا ہے اور اس سے بھی زیادہ اہم سوال کہ حکومت بھی ان تاثرات کو جو فقط مفروضوں پر تخلیق کئے گئے ہیں انھیں قائم اور برقرار رکھنے میں معاون اداکار کا کرداد کیوں ادا کر رہی ہے۔ تصویر کا ایک اور رخ دیکھیں جو شاید کسی اور کو نظر نہیں آ رہا کہ نواز لیگ اور خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی ہمیشہ جمہوریت کے لئے اپنی قربانیوں کاذکر کرتے ہیں اور اکثر آپ نے یہ بات سنی ہو گی کہ محترمہ بینظیر بھٹو کو ایک ہی دن میں کراچی، لاہور اور راولپنڈی تین تین عدالتوں میں بلایا جاتا تھا۔ یہ سب کچھ ان دونوں جماعتوں کے کریڈٹ میں تھا لیکن تحریک انصاف کا دامن اس سے خالی تھا لہٰذا کیا ہوا کہ عمران خان اور تحریک انصاف کی قیادت جس میں فواد چوہدری اور اسد عمر اور کچھ دیگر رہنما شامل ہیں ان پر ایسے بناسپتی مقدمات بنائے جا رہے ہیں کہ (توشہ خانہ، فارن فنڈنگ اور ٹیریان کیس کے علاوہ) جن کا کوئی سر ہے اور نہ کوئی پیر اور اسی لئے جو بھی کیس بنتا ہے اس میں انھیں کیس کے شروع ہونے سے پہلے ہی پہلی درخواست پر ضمانت بھی مل جاتی ہے اور عدالت میں حاضری سے استثنیٰ بھی مل جاتا ہے اور حد یہ کہ اعلیٰ عدلیہ کے ایک محترم جج صاحب نے تو حکومتی وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے یہ ریمارکس بھی دیئے کہ اگر ہم ضمانت خارج کر بھی لیں تو آپ نے کون سا عمران خان کو گرفتار کرنا ہے۔
عمران خان بیانیہ بنانے میں جتنے ماہر ہیں اور ان کا سوشل میڈیا اس بیانیہ کی ترویج میں کیسا کمال رکھتا ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس ساری صورت حال نے تحریک انصاف کا نام بھی شہیدوں میں لکھوا دیا ہے کہ ان پر بھی مقدمات کی بھرمار کر کے ظلم کیا گیا اور یہ بیانیہ بن چکا ہے۔ دوسری بات کہ 25مئی کے واقعات لانگ مارچ اور پھر جیل بھرو تحریک سب ناکام ہوئیں لیکن تحریک انصاف کے کریڈٹ میں کارکنوں کی جیل اور لاٹھی آنسو گیس کے شیل بھی آ گئے اور تین دن پہلے تحریک انصاف کی ریلی کے ساتھ حکومت نے بلا وجہ جو کیا اور جس طرح ایک کارکن کے خون کا الزام راہ چلتے اپنے سر لے لیا اس کو نرم سے نرم الفاظ میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ حکومت نے تحریک انصاف کے مقاصد کے حصول میں سہولت کاری کے فرائض انجام دے کر اپنے منہ پر کالک ملی ہے۔چند سو کارکن زمان پارک پہنچے تھے اگر ریلی نکل بھی آتی تو اس کی ناکامی سے عمران خان کی مقبولیت دنیا پر ایک مرتبہ پھر آشکار ہو جاتی اس سے زیادہ اور کیا ہونا تھا۔تحریک انصاف نے گذشتہ گیارہ ماہ کے دوران حکومت کے خلاف جو بھی اقدام اٹھائے سب زبردست ناکامی سے دوچار ہوئے لیکن در حقیقت اس سے تحریک انصاف کی خالی بلکہ بانجھ جھولی میں ایسا بہت کچھ آ گیا جس کی ایک سیاسی جماعت کو ضرورت ہوتی ہے اور یہی عمران خان چاہتے تھے۔ جس وقت یہ تحریر لکھی جا رہی ہے تو کوئٹہ پولیس کے چند اہلکار ایک ایس پی کی قیادت میں وارنٹ گرفتاری لے کر لاہور پہنچ گئے ہیں اور اعلیٰ عدلیہ نے 13مارچ تک عمران خان کو وقت دے رکھاہے اور سب سے اہم بات کہ مریم نواز نے بھی کارکنوں کو کہہ دیا ہے کہ انتخابات کی تیاری کریں۔ اگر الیکشن میں جانا ہی تھا اور الیکشن ملتوی کرنا حکومت کے بس کی بات نہیں تھی تو یہ تاثر کیوں قائم کیا کہ حکومت عوام میں عدم مقبولیت کے سبب الیکشن سے فرار چاہتی ہے۔ اس تاثر سے الیکشن سے پہلے ہی حکومت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے اور اس کا اہتمام بھی وفاقی حکومت کا کارنامہ ہے۔ آج کی تحریر میں کوشش کی ہے کہ موجودہ سیاسی صورت حال کے تناظر میں جو الجھنیں ہیں انھیں سلجھا کر قارئین کے سامنے پیش کیا جائے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن تک سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.