گجرات کے باسیو ں کی ہجرت

67

راقم کے دادا چوہدری اللہ داد جٹ کوروٹانہ کا خمیر گجرات کی مٹی سے اُٹھا تھا، انھو ں نے قیام پاکستان کے بعد تحصیل کھاریاں کے دیہہ عموآنہ سے سابقہ ملتان اور موجودہ ضلع وہاڑی کے دیہات 190 ڈبلیو بی میں دو وجوہات پر ہجرت کی، ایک تو انکی زمین کا بڑا حصہ برساتی نالے کی نذر ہو گیا جو زمین کے ساتھ بہتا تھا، دوسرا عموآنہ میں قیام کے دوران ایک فرد کا قتل ہو گیاوہ بہت پرامن اور جہاندیدہ انسان تھے،غربت اور بدامنی نے انھیں زمین بیچنے پر مجبور کیا،ہجرت کے بعدایک مربع قطعہ مبلغ 12000 روپے میں خرید کیا،وہ ”رورل وذڈم“ کی عملی مثال تھے،ان پڑھ ہونے کے باوجود انھوں نے زمین پر باغ لگوایا اپنے بچوں کوملتان میں پڑھایا،یہ تحریک بھی شروع کی کہ کوئی خاتون دیہات میں دھوتی نہیں پہنے گی، کسی خوانچہ فروش سے سودا سلف نہیں لے گی، گاؤں میں ہر گھر کا دروازہ نہیں ہوتا تھا انھوں نے اپنے گھر بڑا گیٹ لگوایا تاکہ بغیر اجازت کوئی داخل نہ ہو، اِسی کا فیض تھا کہ انکے بیٹوں محمد اسماعیل اور محمد اشرف مرحومین نے لڑکے اور لڑکیو ں کے سکول اپنی ذاتی کاوش سے دیہہ میں منظور کرائے، اسی سے پڑھے لکھے گھرانے کا تعارف ہمارے خاندان کی پہچان بنا، ان سے زیرتعلیم بچے اور بچیاں اب ڈاکٹریٹ کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں کچھ اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک سدھار گئے ہیں، رشتہ داریوں کی وساطت سے آبائی علاقہ میں رابطہ تاحال بحال ہے۔
ماضی میں وہاں غربت تھی مگراہل گجرات کا معیار زندگی ہمارے علاقہ سے آج بہت بہتر ہے، جس تحصیل سے دادا جی نے ہجرت کی تھی ارض وطن کی اب امیر ترین تحصیل ہے، اس کے پیچھے گجرات کے بہادر سپوتوں کی قابل فخر کاوشیں اور دیار غیر میں ہجرت اور محنت ہے، اس کاآغاز وہاں کے رہائشی نیک عالم نے کیا تھا،جنوبی پنجاب میں سیکڑوں دیہات ہیں جہاں اہل گجرات نے ہجرت کر کے زمینوں کو آباد کیا جو انگریز بہادر نے انھیں عطا کی تھیں، ان دیہاتوں کے نوجوانوں میں بھی دیار غیر جانے کا شغف پایا جاتا ہے، دیار غیر جانے سے پہلے گجرات کے مکینو ں نے غربت کے لئے کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا، بے بسی کا رونا نہیں رویا، یہاں کے نوجوان کسی کے آلہ کار نہیں بنے،اس کے جوانوں نے عرب کے صحرا اپنی محنت سے آباد کئے، یورپ میں کٹھن زندگی بسر کی مگر اپنا ایک مقام بنایا، روایت ہے مسٹر ٹرمپ کے سیاسی مشیر کاتعلق ملحقہ ضلع منڈی بہاؤالدین سے ہے۔
گجرات کے نوجوانان کے سر پر باہر جانے کی دھن ہمیشہ سوار رہتی ہے،وہ غیر قانونی طریقہ سے جانے کا رسک لینے سے بھی باز نہیں آتے، دادا کی وفات کے بعد میرے فرسٹ کزن نے ہمارے خاندان سے پہلے غیر قانونی طور پر فرانس ہجرت کی اپنے پر خطر سفر کی داستان میں بتاتے ہیں جب ایجنٹوں کے بتائے ہوئے راستہ پر ہم سب گامزن تھے تو انھوں نے کئی انسانی کھوپڑیاں صحرا میں دیکھی تھیں، یہ ان پناہ گزینوں کی تھی جو سنہرے خواب دل میں لئے اب ملک عدم روانہ ہو چکے تھے۔
راقم کے گاؤں سے ایک نوجوان نے اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے کہا،کہ لیبیا کی لاقانونیت سے تنگ آکر ایجنٹس کے سبز باغ دکھانے کے بعد مختلف قومیت کے ایک گروہ نے بذریعہ کشتی اٹلی جانے کا فیصلہ کیا،اس سفر کے لئے”ڈنکی“ لگانے کی اصطلاح مستعمل ہے، کشتی میں گنجائش سے زیادہ مسافر جن میں خواتین،بچے شامل تھے سوار کرائے، کشتی اٹلی سے کچھ فاصلہ پر تھی کہ ٹوٹ گئی اور ہچکولے کھانے لگی، سب نے چیخ و پکار شروع کی، جھنڈے لہرائے، مدد کے لئے پکارا، خوش بختی سے ایک پرائیویٹ چھوٹا بحری جہاز قریب سے گذرا،اس کے عملہ نے ناگہانی صورت حال کو بھانپ لیا، جہاز میں سوار کرنے سے پہلے بارڈر فورس سے رابطہ کیا کیونکہ سب غیر قانونی طور پر اٹلی داخل ہو رہے تھے انسانی ہمددری کی بنیاد پر مسافروں کو لانے کی اجازت ملی، بعد ازاں اقوام متحدہ کے پناہ گزیں کیمپوں میں قیام کیا اور قانونی طور پر اٹلی میں قیام کی کاوش میں مصروف ہو گئے۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کوئی کشتی اس طرح کے مسافروں کو ساحل پر نہ اتارتی ہو، ترکیہ، لیبیاسے آنے والے پناہ گزینوں کی بڑی تعدادیورپی ممالک میں روزگار کی تلاش میں ایجنٹوں کے ذریعہ یہ شارٹ کٹ راستہ اپناتی ہے، غیر قانونی سفر کا بھاری معاوضہ متاثرین سے لیا جاتا ہے، بعض ذرائع بتاتے ہیں، کہ ان ایجنٹوں کو اپنی پکڑ کا اندیشہ یا انکی جان کو خطرہ ہو تو وہ از خودتارکین وطن کی کشتی ڈبونے سے بھی گریز نہیں کرتے، یہ قبیح جرم آج بھی جاری ہے۔
حال ہی میں غیر قانونی طور پر ترکیہ، لیبیا سے رخت سفر باندھنے والے پناہ گزینوں کی تین کشتیوں کے ڈوبنے کے افسوس ناک واقعات ہوئے ہیں،ان میں ہلاک ہونے والوں کی بڑی تعداد گجرات،منڈی کے نوجوانوں کی بھی ہے۔ دونوں شہروں کے دیہاتوں میں اربوں روپے سے تعمیرمحلات نما بنگلوں کا مرکزی دروازہ تین فٹ کی گلی میں بھی کھلتا ہے، گجرات اور منڈی بہاؤالدین کی ان شادیو ں کا تذکرہ میڈیا میں ہوتا ہے جن میں ملکی اور غیرملکی کرنسی کے علاوہ قیمتی موبائل بھی اڑائے جاتے ہیں، کہا جاتا ہے گجرات یونیورسٹی کے ایک وائس چانسلر نے سروے کرانے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مذکورہ دونوں اضلاع کے باسی بھاری بھر دولت غیر ترقیاتی کاموں پر صرف کرتے ہیں، نجانے مورخ اس فعل کوجذبہ تفاخر لکھے گا یا احساس کمتری میں شمار کرے گا؟ یہی مسابقتی دوڑ نوجوانان کو غیر قانونی طور پر دیار غیر جانے پر اُکساتی ہے یہ پردیسی سمندر کی بے رحم موجوں کی نذر ہو جاتے ہیں، ان کے لواحقین کف تاسف ملتے رہ جاتے ہیں۔
آبادی کے اعتبار سے گجرات مملکت کا اکیسواں شہر ہے مگر شرح خواندگی نصف کے قریب ہے، فرنیچر اور پنکھوں کی صنعت اس کی وجہ شہرت ہے، اسکی ہمسائیگی میں کاٹیج انڈسٹری میں نام کمانے والے شہر اقبال کے کاروباری طبقہ نے اپنی مدد آپ کے تحت ائر پورٹ تعمیر کیا ہے، دیار غیر میں گجرات اور منڈی کے مقیم اپنے خون اور پسینے کی کمائی سے دیدہ زیب، خوبصورت، محلات بنانے کے بجائے اپنی دولت کی سرمایہ کاری گھریلو صنعت و حرفت میں کریں تو امکان غالب ہے کہ غیر قانونی طور پر اپنی مٹی کوالوداع کہنے والے یہ بیچارے نوجوان سمندر کی مچھلیوں کی خوراک بننے سے بچ جائیں گے۔
شہر گجرات کی سیاسی قیادت کاہر حکومت میں مرکزی کرداراس کا طرہ امتیاز ہے، باوجود اس کے ان ایجنٹوں کو کڑی سے کڑی سزا دلانے میں قطعی ناکام نظر آتی ہیں جو ماؤں کی گود اجاڑنے میں تاحال مصروف عمل ہیں، سمندر میں ابدی نیند سونے والے یہ پلاسٹک کے”گڈے“ نہیں گوشت پوست کے زندہ انسان ہیں جو ملکی حالات سے مایوس ہو کر بہتر زندگی کی تلاش میں دیار غیرکا غیر قانونی سفر کرتے ہیں، بد قسمتی سے ہر ڈوبتی کشتی میں ڈوبنے والے مسافر انصاف کے متلاشی ہیں۔
ارباب اختیار اس سے خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے، آخر کب تلک ان بیچاروں کا خون رائیگاں جائے گا؟
ورثاء کے ناقابل تلافی نقصان کا ازالہ کرنا سرکار کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ بہتر مستقبل کی تلاش میں گجرات سے یورپ کے لئے ماضی کا جو سفر کسی کے دادا نے شروع کیا تھا آج پوتے، نواسے پوتیاں اس پر گامزن ہیں، فرق صرف قانونی اور غیر قانونی ہجرت کا ہے۔

تبصرے بند ہیں.