پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان صاحب کی سیاست کو یہ کریڈٹ تو دینا ہی پڑے گا کہ ایک کامیاب تحریک عدم اعتماد کے نتیجہ میں اپنی حکومت ختم ہو جانے کے بعد انہوں نے سیاست میں ارتعاش اور افرا تفری پھیلانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ لیکن باقی سیاسی قیادت بھی اس بحرانی کیفیت میں اپنی اپنی بولی بول رہی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ غلط نہ ہو گا کہ مضمرات سے بے پروا ہمارے سیاسی راہنما جلتی ہوئی پر پانی ڈالنے کے بجائے پیٹرول ڈال رہے ہیں۔
ایک طرف میاں شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ دو دھاری تلوار لیے ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے درپے ہیں تو دوسری جانب عمران خان نے ملک میں بحرانی کیفیت برقرار رکھنے کے لیے گھوڑے پر کاٹھی ڈال رکھی ہے اور ایک پریشر گروپ کے طور پر ایکشن کرتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ سے اپنے حق میں فیصلے بھی لے رہے ہیں اور جب اور جیسے بہتر محسوس کرتے ہیں اداروں پر بھی بھر پور تنقید کرتے ہیں۔
نواز لیگ تو اس وقت ڈبل رول ادا کرنے کے درپے ہے۔ انہوں نے ایک طرف تو حکومت سنبھال رکھی ہے تو دوسری طرف مریم نوا زکی صورت میں اپوزیشن کا میدان چھوڑنے کے لیے بھی تیار نہیں۔
عمران خان کو بھی گزشتہ کئی سال کی سیاست میں حکومت کرنے اور اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کا بھر پور موقع ملا، اس کے علاوہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ان کی پارٹی کی صوبائی حکومتیں بھی قائم رہیں مگر افسوس نہ تو وہ ایک اچھے سیاستدان کا کردار ادا کر سکے اور نہ ہی ایک اچھے کھلاڑی کا۔ خان صاحب تو ایک کھلاڑی اور فاسٹ بالر رہے ہیں جانے کیوں بار بار سمجھانے کے باوجود ان کی عقل میں یہ بات نہیں گھسی کہ جس طرح کرکٹ میں ایک ہی انداز میں باؤلنگ کرا کر کسی عقلمند بیٹسمین کو آؤٹ نہیں کیا جا سکتا اسی طرح کسی ایک ہی پوائنٹ پر سیاست کر کے کسی بھی صورت مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے۔خان صاحب نے گزشتہ کئی سال کی سیاست میں اپنی حکومت کے حصول اور نواز لیگ کی مخالفت کے علاوہ کسی بات کو اہمیت ہی نہیں دی شائد اسی ون ٹریک ڈپلومیسی کی وجہ سے انہیں اب سیاسی میدان میں پے در پے چھکے پڑ رہے ہیں۔اس کے علاوہ مشاہدے میں آیا ہے کہ خان صاحب کا تو پورا سیاسی کیریر ہی دھونس، دھاندلی، جھوٹ اور یو ٹرنز کے گرد گھومتا ہے یعنی سیاست میں شائد ہی کبھی انہوں نے کسی مسئلہ پر انہوں نے سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کیا ہو۔
عمران خان صاحب کے لیے دانشمندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ وفاقی حکومت سے نکالے جانے کے بعد یہ بھر پور انداز میں اپوزیشن کا کردار سنبھالتے اور حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ ایک متبادل پلان بھی دیتے اس کے علاوہ پنجاب اور خیبر پختونخوا جہاں ان کی حکومتیں قائم تھیں
وہاں کچھ غیر معمولی کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا آج ان کی سیاست کو ویل چیئرکی ضرورت پڑ چکی ہے۔ وہ جو بھی پلان، منصوبہ یا حکمت عملی پیش کرتے ہیں وہ بری طرح فلاپ ہو جاتا ہے۔
عمران خان صاحب کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے آج ان کی سیاست کا یہ حال ہے کہ وہ مظلومیت کے نام پر بھی بھر پور انداز میں عوامی سپورٹ حاصل کر نے میں ناکام ہیں او ر ان کے لیے بری خبر یہ ہے کہ اب نواز شریف نے اپنی کھوئی ہوئی سیاسی پوزیشن دوبارہ حاصل کرنے کے لیے مظلومیت کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس سلسلہ میں جلد اور بھرپور انداز میں ایکشن میں نظر آنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
اس تمام صورتحال میں معزز اعلیٰ عدلیہ کی خدمت میں صرف اتنا گوش گزار تو کیا جا سکتا ہے کہ اگر سیاسی نوعیت کے فیصلوں میں ٹائمنگ کے فیکٹر کو مدنظر رکھا جائے تو زیادہ مناسب رہے گا یعنی الیکشن کے انعقاد تک کسی بھی قسم کے سیاسی مقدمات کی سماعت نہ کی جائے اس سے ایک تو سیاسی پارٹیوں کو خواہ مخواہ کی بیساکھی مہیا نہیں ہو گی اور دوسرا یہ کہ عدلیہ مخالف پراپیگنڈہ سے کسی حد تک بچا جا سکے گا۔
عمران خان صاحب اگر آج بھی اپنی سیاسی حکمت عملی ازسرنو ترتیب دیتے ہوئے اس کو حصول اقتدار سے تھوڑا سا شفٹ کر لیں اور ایک حقیقی اپوزیشن لیڈر کا کردار اپنا لیں تو شائد اب بھی مریم نواز کی جانب سے حاصل کردہ اپوزیشن کی فرنچائز کو بھی تالہ لگ سکتا ہے۔
موجودہ حالات میں ہونے والی نئی سیاسی صف بندیوں میں پیپلزپارٹی کا کردار ابھی تک خاصا مبہم ہے۔ زرداری صاحب کی باتوں سے کم از کم اتنا تو واضح ہے کہ وہ آئندہ الیکشن کسی بھی صورت نواز لیگ کے ساتھ مل کر نہیں لڑیں گے۔ الیکشن کے بعد کی صورتحال پر تو بعض تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ وہ چودھری پرویز الٰہی کی درخواست پر خاص صورتحال میں پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ بھی ہاتھ ملا سکتے ہیں۔
ویسے تو پنجاب میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے اور شاید آئندہ چند روز میں خیبر پختونخوا میں بھی انتخابات کی تاریخ سامنے آ جائے لیکن جانے کیسے ملک میں آدھے ادھورے سے انتخابات کا انعقاد ممکن ہو پائے گا، اور اگر کسی طور یہ ممکن ہو گیا تو پھر قومی اسمبلی کے انتخابات کو تو لمبے عرصہ تک ملتوی ہی سمجھیں۔ میرا اندازہ ہے کہ دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب کی صورت میں عمران خان صاحب اور ان کی پارٹی کو ایک لالی پاپ ضرور مل جائے گا لیکن اس میں بھی شائد یہ اپنی حکومتیں قائم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ بس اس کے بعد خان صاحب اپنے پرانے دھندے یعنی احتجاج اور دھرنے وغیرہ میں لگ جائیں گے اور فیصلے کرنے والے اپنی پلاننگ کے تحت ملک میں فنانشل ایمرجنسی کے نام پر کچھ موجودہ سیاستدانوں اور کچھ ٹیکنوکریٹس کو لے کرچند سال کے لیے ایک سیٹ اپ تشکیل دے دیں گے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.