آرمی چیف کی تاجروں سے ملاقات

65

اگرچہ آرمی چیف کا پاکستانی تاجروں سے ملنا کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔ پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے لیکن موجودہ صورتحال میں اس کو محض معمول کی ملاقات بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حکومتی دعووں کے سیاق و سباق کا براہ راست جائزہ لینا لمحہ موجود میں وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کا دعویٰ کر کے اقتدار میں آنے والی پارٹیوں کی طرف سے ملک کو معاشی تباہی کے جہنم میں جھونک دیئے جانے کے بعد اور اس پہ ناکامی تسلیم کرنے اور عوام سے معافی مانگ کر اقتدار سے الگ ہو جانے کے بجائے اصرار کرنا کہ ملک کو کچھ بھی نہیں ہوا گویا مزید تباہی لانے کے ایجنڈے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ایسی صورتحال میں آرمی چیف کا تاجروں سے ملنا نہ صرف اس بات کی غماضی کر رہا ہے کہ فوجی قیادت کو معاشی بحران پر ازحد تشویش ہے بلکہ یہ اندازہ لگانا بھی بے محل نہیں ہو گا کہ فوجی قیادت کو اسحاق ڈار کی طرف سے دی جانے والی طفل تسلیوں پر بھی اعتبار نہیں ہے لہٰذا پاکستانی معیشت کے سٹیک ہولڈرز سے براہ راست ملاقات کو ترجیح دی گئی۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی پارٹی کی سیاسی غیر سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے اس بات پر بھی اب کوئی شک و شبہ نہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود انتخاب سے ہر ممکن گریز کرتے ہوئے صرف سیاسی شہادت کے باعث ہی اقتدار چھوڑنا پسند کریں گے کیونکہ اس وقت ن لیگ کی سیاسی موت واقع ہو چکی ہے اور صرف تجہیز و تکفین ہی باقی ہے۔ اب ان کے پاس صرف آخری حربے کے طور پر یہی چال باقی رہ گئی کہ کسی طرح ان کو زبردستی اور طاقت کے زور پر
اقتدار سے الگ کیا جائے تاکہ یہ کسی بیانیے کے ساتھ عوام میں جانے کے قابل ہو سکیں۔ عمران خان کی ریلی کو دفعہ ایک سو چوالیس کے نفاذ اور پولیس گردی کے ذریعے روکنے کی وجہ سے پنجاب کی نگران حکومت نے اپنے جانبدار ہونے کا الزام جتنی خوش اسلوبی سے اپنے سر لیا ہے اس کی تو باقاعدہ داد بنتی ہے۔ وہی حلقے جو نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کو سرکاری اخراجات پر کنٹرول کی داد دے رہے تھے اب پولیس کے ہاتھوں اپنے عوام پر تشدد کرنے کا سہرا ان کے سر پر سجاتے نظر آتے ہیں۔
دوسری طرف عمران خان تمام تر تنقید سہنے کے باوجود فوج مخالف بیانیے کے ساتھ عوام میں جانے کے خلاف ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت عمران خان کو کوئی بیانیہ بنانے کی ضرورت بھی نہیں۔ پچھلے ایک سال میں عوام پر ڈھائے جانے والے معاشی ستم سے بڑا کیا بیانیہ ہو سکتا ہے جس کی سچائی سے پاکستان کا ایک ایک فرد اور ایک ایک خاندان براہ راست واقف ہو چکا ہے۔
عوام اس بات پر بھی حیران ہیں کہ ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں اس کے حکمران ملکی مفاد کے نام پر اتنی بڑی بربادی لاتے ہیں اور پھر آرام سے چلے جاتے ہیں۔ پھر آتے ہیں اور وہی کچھ کرتے ہیں اور مزے لیتے یہ جا وہ جا۔ الیکشن ریلی روکنے کے لیے کریک ڈاؤن اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ حکمران پارٹیوں کو ہر قیمت پر بحران پیدا کرنا ہے۔ عمران خان اب کتنا اور کمپرومائز کرے۔ کیا یہ کم ہے کہ وہ مسلسل ردِ انقلاب کا فرض ادا کرتا چلا آ رہا ہے۔ فرض کیا عمران خان کو سین سے آؤٹ کر دیا جائے تو کیا ملک کے معاشی حالات درست ہو جائیں گے۔ کیا عوام پر توڑے گئے مظالم کی تلافی ہو جائے گی۔ ہرگز نہیں بلکہ عوام کے غم و غصے میں اتنا اضافہ ہو جائے گا کہ جس کے بے مہار اور بے قابو ہونے سے بہت بڑا نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ ایسا نقصان کہ ملک کو واپس بہتر حالت میں لانے کے لیے پوری ایک صدی درکار ہو گی۔ میں یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں کہ یہ تمام باتیں فوجی قیادت کے تجزیے اور علم میں نہیں ہونگی۔ تاجروں سے آرمی چیف کی ملاقات ملکی حالات میں بہتری لانے کی ایک کوشش ہے۔ ہو سکتا ہے اگلی ملاقات ٹیکنو کریٹس کے ساتھ رکھی جائے۔ مجھے لگتا ہے حکومت کی طرف سے تیس اپریل کو ہونے والے الیکشن کو روکنے کے لیے یا خراب کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ بالفرض حکومت الیکشن نہ روک پائی پھر بھی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے علاوہ باقی صوبوں اور وفاق میں الیکشن کو سال رواں کے آخر تک کھینچ کھانچ کے لایا جائے گا۔ اسٹیبلشمنٹ کے سیاست سے الگ رہنے اور پولیٹیکل پارٹیوں کے سیاسی معاملات خود حل کرنے کی پالیسی نے اگرچہ حکومت کو تحریک انصاف اور عوام کو دانتوں میں دبانے کا موقع تو فراہم کیا ہے لیکن عدالت کی تلوار پہلے سے زیادہ تیز دکھائی دے رہی ہے۔ ہمارے حکمران ابھی تک معاشی بحران تسلیم کرنے سے انکاری ہیں تو انہیں ملک کو درپیش بین الاقوامی معاملات، دہشت گردی کے مسائل اور دشمن ممالک کے زہریلے پراپیگنڈوں کے اثرات کا کیا ادراک ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی بطور پرائم منسٹر اہلیت اور کارکردگی سے تو یہی لگتا ہے کہ یہ معاملات بھی کسی اور کو ہی دیکھنا ہوں گے۔

تبصرے بند ہیں.