بہادر کون؟

90

حیرت ہے نوازشریف کے مقابلے میں عمران خان کو بہادر کہا جا رہا ہے کہ اس نے گولیاں کھا لیں مگر پھر بھی پاکستان میں ہی موجود ہے۔ حیرت اس لئے کہ جب خان کو بھی جیل کاٹتے ہوئے دو سال ہو گئے، جب اس کی شہر شہر پیشیاں بھی دو سو سے زیادہ ہو گئیں، جب اسے بھی ہتھکڑیاں لگا کے ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کیا گیا، جب اس کی پارٹی کو توڑنے کے لئے لیفٹیننٹ جنرلوں، بریگیڈئیروں سے میجروں تک نے ڈیوٹیاں سنبھالیں، جب اس کے کارکنوں کے ساتھ بھی وہی ہوا جو پرویز رشید کے ساتھ ہوا تھا، جب اس کے گھروں کو قبضے میں لے کر اولڈ ہومز بنائے گئے، جب اس کی کردار کشی کے لئے اسی کے ووٹروں کی ٹیکس منی سے مہموں کی نگرانی ہوئی، جب اس کے خلاف بھی فائز عیسی نے ثاقب نثار بنتے ہوئے ہر صورت سزا کے لئے مانیٹرنگ جج مقرر کئے اور شرابی ججوں سے فیصلے لئے، جب اس کے خلاف بھی شہباز شریف نے تقریریں کر کے کہا کہ وہ اس کا اے سی تک اتروا لے گا، جب اس کے خلاف بھی جاوید اقبال اور شہزاد اکبر جیسے مکروہ کردار مسلط کئے گئے، جب اس کی بہن اور بیٹی کو بھی اس کے سامنے، اس سے ملاقات کرتے ہوئے، گرفتار کیا گیا، اس کے بھائیوں بیٹوں رشتے داروں کو نیب کے بنچوں پر بٹھا کے تصویریں جاری کی گئیں، ہاں، یہ لیول پلینگ فیلڈ میں کھیل شروع ہو گیا اور اس کے بعد بھی یہ سیاست اور مزاحمت کے میدان میں رہا تو میں اسے نواز شریف سے زیادہ بہادر مان لوں گا۔ ابھی تو لاڈلے کا ذلت اور مصیبت والے کھیل کا مرحلہ شروع ہی نہیں ہوا۔ ابھی تو کمفرٹ زون ختم ہی نہیں ہوا۔
حیرت ہے کہ تم اسے اس نوازشریف سے زیادہ بہادر اور محب وطن سمجھتے ہو جو نوازشریف اپنی محبوب بیوی کو بستر مرگ پر چھوڑ کے اپنی پیاری بیٹی کا ہاتھ پکڑ کے اس دھرتی کی محبت میں پابند سلاسل ہو گیا مگر اف تک نہ کی، نہ کسی کو میر جعفر اور میر صادق کہا، نہ جانور اور ڈرٹی ہیری۔ اس کے مقابلے میں اس شخص کو بہادر کہتے ہو جو اپنی بیٹی کو بیٹی کہنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ اس کا ماتھا چومنے اور اسے یہو دیوں کے قبضے سے نکال کر اپنی ہی ڈیکلیئر کی ہوئی ریاست مدینہ میں نہیں لا سکتا۔ جو شخص اپنی بیٹی اور بیٹوں کے لئے بہادر نہیں، قربانی نہیں دے سکتا وہ ان صدقے کے بکروں کے لئے قربانی دے گا جنہیں گرفتاری سے بچنے کی خاطر کتے بلوں کی طرح مرنے کے لئے زمان پارک بلا لیتا ہے۔ غلط تشریحیں مت کرو، طاقت اور اقتدار رکھتے ہوئے اسمبلیاں توڑ کے اور حکومتیں چھوڑ کے بھاگ جانے والے بہادر نہیں ہوا کرتے۔ بہادر اپنے عوام کو مشکلات سے نکالا کرتے ہیں، انہیں آئی ایم ایف سے بدترین معاہدے کر کے، ان پر بغیر کسی میگا پراجیکٹ کے تاریخ کے سب سے بھاری قرضے لے کر لاد نہیں جایا کرتے۔ بہادر میرٹ اور انصاف پسند ہوتے ہیں ان کی چوائسز عثمان بزدار اور فرح گوگیاں نہیں ہوتیں۔ بہادر دشمن ملکوں سے خفیہ فنڈز نہیں لیتے، توشہ خانوں میں ڈاکے نہیں ڈالتے۔ بہادر اپنی فالوور بہن بیٹیوں سے عائلہ ملک جیسی گفتگو اور حرکتیں نہیں کرتے کہ اصل بہادری کردار کی ہوتی ہے، ظرف کی ہوتی ہے۔
حیرت اس پر بھی ہے کہ میں نے ایوب خان کے دور سے آج تک سیاسی جمہوری رہنماوں کو گرفتار ہوتے اور جیلیں کاٹتے دیکھا ہے مگر کارکنوں کا یہ ظالمانہ اور گھٹیا استعمال اس سے پہلے طاہر القادری کے جامعہ منہاج القرآن میں دیکھا تھا جب اس نے اپنے گھر کے باہر غیر قانونی بیرئیرز بچانے کے لئے اپنے کارکنوں کو اس طرح مروا دیا تھا جیسے بلدیہ والے آوارہ۔۔۔۔۔ کو مارتے ہیں اور دوسری مثال اس مبینہ صادق اور امین بہادر کی ملتی ہے جو ججوں کی بحالی کے لانگ مارچ میں دیوار پھلانگ کے بھاگ گیا اور آج گھر میں ایک ایس پی کی آمد پر باتھ روم میں چھپ گیا، آہ، ستم ظریفی دیکھئے، انقلابی شاعر احمد فراز کے بیٹے نے وارنٹ گرفتاری پر لکھا کہ چیئرمین ”ایویل ایبل“ نہیں ہیں۔ یہ کیسا بہادر ہے جس نے اقبال اور فراز تک کی اولادیں ذلیل کروا دیں، کسی کو شک ہے تو ولید اقبال کی ماں کا بیان سن لے جو علامہ اقبال کی بہو ہے۔
مجھے نہ نوازشریف کی قبر میں جانا ہے نہ عمران خان کی مگر میرا یہ فرض ہے کہ میں تاریخ کا ریکارڈ درست رکھوں اور اسے گمراہ کن پروپیگنڈے کی نذر نہ ہونے دوں۔ میں نے نوازشریف کی جلاوطنی کی مخالفت میں باقاعدہ کالم لکھے تھے اور چاہا تھا کہ وہ سیاستدان سے بڑھ کے تاریخ ساز رہنما ہو جائیں، اب بھی چاہتا ہوں کہ وہ واپس آ جائیں چاہے اسٹیبلشمنٹ اور ججوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے جیل ہی کیوں نہ جانا پڑے مگر اس کے باوجود حقیقت تو یہ ہے کہ عمران خان اور اس کے ساتھی نوازشریف اور اس کے ساتھیوں کے مقابلے عشر عشیر جرات اور بہادری بھی نہیں دکھا سکے۔ مصیبتیں بہت اٹھائیں مگر نواز شریف نے کبھی آرمی چیف سے براہ راست مذاکرات کی بھیک نہیں مانگی۔ میرا اختلاف سہی مگر وہ جنرل عزیز کی بندوق کی نوک پر ڈٹ گیا کہ میں اسمبلیاں نہیں توڑوں گا، الفاظ تھے ”اوور مائی ڈیڈ باڈی۔۔۔“، یہ چپیڑیں کھا کے ایوان وزیراعظم سے نکلنے کی شہرت رکھنے والے کیا جانیں کہ بندوق کے سامنے ڈٹ جانا کیا ہوتا ہے۔ انہیں کیا علم کہ جرأت کردار کیا ہوتی ہے، دیکھو، نہ شہبازشریف رویا نہ حمزہ شہباز، نہ شاہد خاقان کے آنسو نکلے نہ خواجہ سعد رفیق کے، نہ رانا ثناء اللہ نے بھیک مانگی اور نہ مریم نواز نے مگر یہ سوشل میڈیا پر کیسے ٹکر کے لوگ تھے کہ کسی کا روتے روتے سانس نہیں مل رہا تھا، کسی کا پھیپھڑا جواب دے گیا تھا اور اسٹریچر پر پہنچ گیا تھا، کسی کے ایک دھکے سے آنسو نکل آئے تھے اور کسی کو بواسیر ہو گئی تھی۔ یہ کیسی بہادری اور تحریک ہے جس میں بیان کی گئی واحد قربانی ہی ان کے قائد کے مطابق ننگا ہونا ہے؟
مشکوک حملے میں جعلی زخم بنا کے معصوم بلکہ احمق اور جذباتی کارکنوں کے حصار میں چھپ جانے والوں کے گروہ نے ہمت، جرأت اور بہادری دیکھنی ہے تو بھٹو اور شریف خاندان کی دیکھے۔ ایک نے ضیائی آمریت میں نانا، ماموں اور پھر ماں تک کی قربانی دے لی مگر سیاست کے خونی میدان میں ڈٹ کے کھڑا ہے دوسرے نے پرویزشرف کے بعد قمر جاوید باجواہ اور عمران خان کے مارشل لا بھی دیکھ لئے مگر پھر اپنی بیٹی کو اسی رزم گاہ بلکہ قتل گاہ میں اتار دیا اور کہتے ہو کہ بہادر وہ پے جس نے اپنی اولاد تک(صفحہ3پر بقیہ نمبر1)
اسلام دشمنوں کے پاس گروی رکھی ہوئی ہے۔ حیرت ہے۔ ہاں، اگر بہادری یاوہ گوئی کا نام ہے، اوئے طوئے کرنے کو جرات کہتے ہیں، مخالف کو ماں بہن کی گالیاں دینا بہادری ہے تو پی ٹی آئی واقعی بہادروں کا لشکر ہے مگر اہل علم اسے بدتمیزی اور بد تہذیبی کہتے ہیں، علم اور تربیت کا فقدان کہتے ہیں، خاندانی نہ ہونا کہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ جعلی زخم تو یہ بات اپنے طور پر نہیں کی۔ سچ تو یہ ہے کہ جناب عمران خان کے زخموں کے حوالے سے آج تک کوئی غیر جانبدار یا سرکاری رپورٹ دستیاب نہیں ہے۔ ان مبینہ زخموں کا انہوں نے عدالتوں میں حاضر نہ ہونے کے حوالے سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔
اس ممی ڈیڈی برائلر نسل کو، جو ایک لمحے میں غلیظ ترین گالیاں دینے اور حملے کرنے پر تیار ہوجاتی ہے، بہادری کا اصل مفہوم سمجھانے کی ضرورت ہے جو ذہنی غلامی میں ایک بٹن دبانے پر فوج کی مداخلت کی حامی ہو جاتی ہے اور اگلے روز کسی احمقانہ یوٹرن پر اپنے ہی ملک کی فوج کی مخالف۔ یہ چوزے کسی نظرئیے کے حامی ہو بھی نہیں سکتے کیونکہ نظریے کے لئے عقل، فہم اور بہادری کی ضرورت پڑتی پے جبکہ شاہ دولہ کے چوہے صرف الم غلم بک سکتے ہیں، پنجے مار سکتے ہیں، تھوک پھینک سکتے ہیں۔ اگر تم اسے بہادری کہتے ہو تو یہ تمہیں مبارک ہم اس سے محروم ہی بھلے۔ لیڈر سے لے کر کارکنوں تک یہ بہادری صرف اتنی ہے کہ زمان پارک میں میلہ لگا رہے، انجوائے منٹ ہوتی رہے۔ لیڈر اپنے بچوں جیسے کارکن مردوں اور عورتوں کے حصار میں قلعہ بند رہے تاکہ کوئی اسے گرفتار نہ کر سکے۔ میں نے زمان پارک میں چند سال کے بچوں کے ہاتھوں میں برے بڑے ڈنڈے دیکھے تو تعجب ہوا۔ یہ کیا بہادری ہوئی کہ آپ کارکنوں کو پولیس مقابلے کے لئے بھیج دیں۔ ہم سب پاکستان کی تاریخ کی چھوٹی بڑی سطح پر طالب علم رہے ہیں اور میں اپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ مجھے کسی ایک لیڈر کا نام بتا دیں جو خود کو بہادر بھی کہتا ہو اور گرفتاری سے بھی بے پناہ ڈرتا ہو؟

تبصرے بند ہیں.