اقتدار کی تجارت میں مہنگائی نہیں ہوتی

16

گفتگو اور تقریر کا فن ایک قدرتی عطیہ ہے یہ جتنا متاثرکن ہوگا لوگ آپ کو اتنا ہی پسند کریں گے تاریخ کے سابقہ ادوار میں جب سیاست میں پیسے کا دخل نہیں تھا تو کسی لیڈر کی قابلیت کا اندازہ اس کی تقریر سے لگایا جاتا تھا امریکہ میں آج بھی صدارتی امیداروں کی دوڑ کے آخری مر حلے پر دونوں امیدواروں کو ایک ہی سٹیج پر لا کر ان کی تقریر سنی جاتی ہے اور بہت سے امریکی ووٹرز تقریریں سن کر اپنی رائے پر نظر ثانی کر لیتے ہیں۔ قائد اعظمؒ جب اعلیٰ تعلیم کیلئے انگلینڈ تشریف لے گئے تو زمانہئ طالبعلمی میں وہ برٹش پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں اس وقت کے سیاستدانوں کی تقاریر سننے کیلئے جایا کرتے تھے مگر اب وقت بدل گیا ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ اب عوام کی رائے تقریروں کی بنیاد پر تشکیل نہیں پاتی معیار بدل چکے ہیں۔ آج کے لیڈروں کی تقاریر کا معیار بہت گر گیا ہے مخالفین کے خلاف ناشائستہ الفاظ استعمال کرنا معمول بن گیا ہے جس کی وجہ سے قومی اخلاقیات کا معیار بہت پست ہو گیا ہے۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین مقررین کا تناسب بہت کم ہے عورت کی آواز میں قدرتی باریکی اور نزاکت کی وجہ سے تاریخ میں اچھے مقررین کی صف میں خواتین کا نام بہت کم آتا ہے خطابت کی تاریخ انبیاء کرام سے شروع ہوتی ہے اور ان انبیاء کرام میں کوئی عورت نہیں تھی عورت کی آواز اپنی قدرتی بناوٹ کی وجہ سے جب ایک مناسب Pitch سے بلند ہوتی ہے تو وہ شور میں تبدیل ہو جاتی ہے حالیہ دور سیاست میں مریم نواز شریف کی تقاریر اس کی مثال ہیں انہوں نے فن تقریر پر کافی مہارت حاصل کی ہوئی ہے اور ان کے Speech Writer اس میں انہیں کافی بیک اپ بھی کر ر ہے ہمیں لیکن ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی آواز کا Volume بہت زیادہ ہے جو شور کا تاثر دینے لگتا ہے اگر وہ اس پر توجہ دیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ البتہ پاور پالیٹکس کے اس کھیل میں تقریریں Matter نہیں کرتیں۔ آپ کی کارکردگی کا مواز نہ آپ کے مخالف کی کار کردگی سے کیا جاتا ہے جس کا نقصان ہمیشہ برسر اقتدار پارٹی کو ہوتا ہے اور اس دفعہ بھی یہ ہوکر رہے گا۔
پاکستان کے ایک نجی ادارے گیلپ نے Public Pulse Surrey یا عوامی نبض شناس سروے میں 2000 شہریوں جن کا تعلق چاروں صوبوں سے تھا ان کی رائے پوچھی تو 61 فیصد نے عمران خان کے حق میں فیصلہ دیا جبکہ 36 فیصد نے نواز شریف کو پسند کیا۔ یہ تمام شہری اور دیہاتی عوام کا مخلوط سروے تھا اس سروے سے ہمارے آئندہ انتخابات کے نتائج کا تخمینہ لگایا جا سکتا ہے۔ اقتدار میں آکر ہر سیاسی لیڈر یا جماعت کی مقبولیت میں کمی آتی ہے کیونکہ وہ عوام کی امنگوں پر پورا اترنے سے قاصر رہتے ہیں۔
لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف براہ راست اقتدار میں شریک نہ ہونے کے باوجود اپنی مقبولیت کیوں کھو رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی پارٹی جو اس وقت اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے اس پر اپنی گرفت نہیں رکھ سکے سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد وہ چاہتے تھے کہ ملک میں فوری طور پر نئے انتخابات کرا دیئے جائیں مگر پی ڈی ایم اور اس کے اتحادی رضامند نہیں تھے آج ان کی یہ بات درست ثابت ہو رہی ہے۔ ایک تو یہ کہ اگر اس وقت انتخابات ہو جاتے تو شاید پاکستان اتنے سنگین آئینی اور مالیاتی دونوں بحرانوں سے بچ جاتا اور یہ بھی ممکن تھا کہ ان کی پارٹی کی آج 5 سال کیلئے منتخب ہو چکی ہوتی جو موجودہ حالات میں کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا۔
پاکستان مسلم لیگ ن اس وقت عوامی مقبولیت کے گراف میں All time low کے درجے پر ہے جس کی ضمنی وجوہات اپنی جگہ ہیں جیسا کہ Deliver نہ کرنا یا معاملات قابو میں نہ لانا ہے مگر اس کی سب سے بڑی وجہ میاں نواز شریف کا پاکستان آنے سے گریز ہے۔ اگر وہ خود یہاں ہوتے تو معاملات اتنے قابو سے باہر نہ ہوتے۔ حال ہی میں ان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر گھوم رہی ہے جس میں وہ اپنے گروپ کے ہمراہ 50 کروڑ کی گاڑی سے نکل کر دنیا کے مہنگے ترین لگژری شاپنگ سٹور Louis Vuitton میں داخل ہو رہے ہیں جہاں ایک فیشن بیگ کی قیمت 7 سے 8 لاکھ روپے ہے۔ ان کی پارٹی کے اندر بھی یہ رائے ہے کہ انہیں واپس آکر پارٹی معاملات خود کنٹرول کرنے چاہیے بلکہ پارٹی کے کچھ لوگ یہاں تک کہتے ہیں کہ ان کی پارٹی کے اندر کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ وہ واپس آئیں شاید اسی لئے گزشتہ ایک سال کے اقتدار کے باوجود پارٹی نے ان کی واپسی کیلئے قانونی رکاوٹوں کو دور نہیں کیا۔ پارٹی کے اندر ان کی جانشینی کا مسئلہ چل رہا ہے اور اگر وہ واپس آجاتے ہیں تو پھر جانشینی کی بحث ہی ختم ہو جاتی ہے دوسری طرف مریم نواز کو ان کی خالی جگہ پر کرنے کیلئے لایا گیا۔ جس پر عام ورکر کو تو کوئی اعتراض نہیں مگر پارٹی کی اعلیٰ ترین Seniority List میں پائے جانے والے ٹاپ ٹین (10) میں اس پر تحفظات موجود ہیں جس میں شاہد خاقان عباسی جیسے معتبر نام شامل ہیں۔
اس وقت پاکستان کو سب سے بڑا مسئلہ ڈیفالٹ کا خطرہ ہے اتنے نازک موڑ پر پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری کا بیان سامنے آیا ہے کہ دیوالیہ ہو جانا اتنی بڑی بات نہیں جاپان اور امریکہ بھی دیوالیہ ہو چکے ہیں اس سے ایک بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ دیوالیہ ہونا اب زیادہ دور نہیں ہے لیکن اس کے باوجود حکومت کے پاس گھر بچاؤ کی کوئی سٹریٹیجی موجود نہیں۔ گزشتہ پانچ ماہ سے چلنے والے مذاکرات، نتیجہ خیز نہیں ہو رہے آئی ایم ایف کسی طرح بھی پاکستان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں بمشکل تمام شرائط پوری کرتے ہیں تو آئی ایم ایف نئی شرائط کھڑی کر دیتا ہے۔ شرح سود 20 فیصد کرنے کے بعد اب وہ کہتے ہیں کہ اس کو 23 فیصد تک لایا جائے مگر اس شرح پر ملک میں Cost of doing business اتنی زیادہ ہو جائے گی کہ اس سے پروڈکشن اور ایکسپورٹ کا پہیہ رک جائے گا۔ شہباز شریف نے کوشش کی کہ قطر سے کچھ 2 بلین کا کیش انجکشن مل جائے مگر ابھی تک ایسا کوئی اعلان نہیں ہوا۔ البتہ ان حالات میں چائنا واحد ایسا ملک ہے جو پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے اس وقت جبکہ پاکستان 1.6بلین ڈالر کی امداد کیلئے آئی ایم ایف کے سامنے بقول شہباز شریف ناک سے لکیریں نکال رہا ہے پڑوسی ملک انڈیا کی قومی ایئر لائن انڈسٹری کی سب سے بڑی ڈیل ہے جس سے آپ انڈیا کی معاشی حالت کا اندازہ لگا سکتے ہیں اس وقت جبکہ ہماری سالانہ GDP گروتھ منفی ہونے کا خطرہ ہے انڈیا کی GDPساڑھے 6 فیصد کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔
ان حالات میں اگر پاکستان میں انتخابات کا اعلان ہو جاتا ہے تو اس کا ایک فائدہ ضرور ہو گا سیاستدان اپنی تجوریوں کا منہ کھول دیں گے اور ان کا ناجائز پیسہ ملکی معیشت میں زیر گردش آجائے گا اس سے 3 ماہ کیلئے ملک میں فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ حل ہو گا جلسوں اور ریلیوں میں لوگوں کو کھانا ملے گا۔ ٹرانسپورٹ ترقی کرے گی کیٹرنگ اور پولٹری کا شعبہ متحرک ہوگا۔ پرنٹنگ پریس اور فلیکس کا کام تیز ہو گا روز گار پیدا ہوگا البتہ منفی پہلو یہ ہے کہ ٹکٹ کے حصول کیلئے پارٹی فنڈز میں جو اربوں روپے اکٹھے ہوں گے اس سے پارٹی سربرا ہان کافی امیر ہو جائیں گے مگر اس کا آڈ ٹ نہیں ہوگا۔ رسیدیں بھی نہیں ہوں گی۔ البتہ ووٹروں کی خریداری پر جو رقمیں خرچ ہوتی ہیں اس کا Trickle down کچھ نہ کچھ حد تک جھونپڑیوں تک بھی پہنچے گا۔
آئی ایم ایف ہمیں ٹیکس جمع کرنے کا ٹارگٹ دیتا ہے طریقہ نہیں بتاتا۔ آئی ایم ایف کی سفارشات کے باوجود جب مطلوبہ ٹیکس اہداف حاصل نہیں ہورہے تو کم از کم اب آئی ایم ایف کو سوچنا ہو گا کہ وہ پاکستانی حکام کو ملک میں ٹیکس ریفارم کا کوئی ڈرافٹ دیدیں جس پر عمل کر کے امراء سے ٹیکس وصول کیا جا سکے۔ کیونکہ بالواسطہ ٹیکسوں کا نظام جس میں 80 فیصد ٹیکس غریبوں سے نچوڑا جاتا ہے وہ اب نا کام ہو چکا ہے اس لئے اب امراء سے ٹیکس وصولی کا وقت آگیا ہے کیونکہ پرانے فرسودہ طریقوں سے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہو رہے۔

تبصرے بند ہیں.