انتخابات کا ”بوجھ“ عوام پرکیوں۔۔؟

10

سکول میں بچوں کے پیپرہوں یانوجوانوں کی نوکریوں کے لئے کوئی ٹیسٹ وانٹرویو،اس کے پیسے آج بھی غریب عوام سے لئے جاتے ہیں۔جولوگ پیسے نہیں دیتے ان کے بچوں کوپھرنہ سکول،کالج اوریونیورسٹی کے امتحان میں بیٹھنے دیاجاتاہے اورنہ ہی ان کے بچوں سے سرکاری نوکری اورملازمت کے لئے کوئی ٹیسٹ وانٹرویولیاجاتاہے۔جس طرح سکول میں بچوں کے امتحان کے لئے والدین سے ہفتہ دوپہلے پیسے لئے جاتے ہیں اسی طرح نوکری اور ملازمت کے لئے اپلائی کے لئے بھی ایڈوانس میں پیسے جمع کرائے جاتے ہیں۔ جو لوگ سرکاری نوکری میں قسمت آزمانے کے لئے مقررکردہ فیس جمع نہیں کراتے انہیں پھرٹیسٹ وانٹرویومیں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ٹیسٹ اورانٹرویوکے اہل ہی وہ لوگ ہوتے ہیں جن کانمبرسلپ یانام لسٹ میں آیاہو اورلسٹ میں نام اوررول نمبرسلپ انہی لوگوں کا آتاہے جوبنک یاایزی پیسہ کے ذریعے پیسے جمع کراتے ہیں۔کسی امتحان اورانتخاب کے لئے عوام سے پیسے لینے کی یہ بات صرف سکول، کالجز، یونیورسٹی اور سرکاری ملازمت کی اپلائی تک محدودنہیں بلکہ ہروہ کام اوراقدام جس کاعوام کے ساتھ تھوڑاسابھی کوئی تعلق اوررشتہ ہواس کے لئے عوام سے ضرورپیسے لئے جاتے ہیں۔عوام کاکوئی کام توان سے پیسے لئے بغیراس ملک میں کبھی ہوتانہیں۔یہاں تو بجلی ٹرانسفارمرکی مرمت یاگلیوں وشاہراہوں کی پختگی کاکوئی مسئلہ ہوتوتب بھی عوام سے کہاجاتاہے کہ آپ نے اتنے پیسے دینے ہیں۔اس کے برعکس قومی وصوبائی اسمبلیوں کے عام یاضمنی انتخابات جن کاڈائریکٹ تعلق اوررشتہ ہی سیاستدانوں سے ہوتاہے اورالیکشن یہ سیاستدانوں کاانتخاب نہیں بلکہ ایک قسم کاامتحان بھی ہوتاہے لیکن بڑوں کے اس امتحان کے لئے ان سے برائے نام داخلہ فیس کے علاوہ کوئی پیسے نہیں لئے جاتے۔ حالانکہ عوام کے چھوٹے چھوٹے امتحانات جن پرہزاروں یا زیادہ سے زیادہ لاکھوں کے اخراجات آتے ہیں ان کے لئے بھی داخلہ فیس، سنٹر فیس، سیکورٹی فیس، ٹرانسپورٹ اور فوڈ چارج سمیت نہ جانے کیا کیا اور چارج ہوتے ہیں لیکن امیروں کے اس امتحان جس پر پورے ملک کاستیاناس ہوتاہے امیدواروں سے محض چندہزارلیکرباقی کھاتہ عوام کے ہی خون پسینے کی کمائی سے پھر پورا کیا جاتا ہے۔ ایک ایک بارکے انتخابات پرکروڑوں نہیں اربوں روپے صرف ہوتے ہیں مگرافسوس انتخابات کے یہ اخراجات بھی الیکشن میں حصہ لینے والے سیاستدانوں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور ارب پتیوں سے نکالنے کے بجائے اس ملک میں ایک ایک سانس کی نقدقیمت دینے والے انہی غریبوں سے وصول کئے جاتے ہیں۔مال مفت دل بے رحم۔امتحان وانتخاب عوام کے خون پسینے کی کمائی پرہوتوپھرخان جیسے سادہ لوگ سات سات حلقوں سے الیکشن نہیں لڑیں گے تواورکیاکریں گے۔۔؟ پھرمفت میں تماشادیکھنے کاشوق بھی کس ظالم کو نہیں ہوتا۔ یہی وہ وجوہات ہیں کہ جن کی وجہ سے الیکشن ہارنے یا اقتدارسے بیدخل ہونے والے سیاستدانوں کا پہلا مطالبہ اورشوق ہی پھرنئے انتخابات کا ہوتا ہے۔ جس طرح عوام سے ہرکام واقدام کے پیسے لئے جاتے ہیں اسی طرح اگراس ملک میں انتخابات کے اخراجات بھی الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں سے وصول کئے جاتے توآپ یقین کریں یہ عجوبے پھر ہردوسرے دن انتخابات انتخابات کے نعرے نہ لگاتے۔ آج بھی اگرایساکوئی نظام اورقانون بن جائے کہ جوجولوگ الیکشن میں حصہ لیں گے تمام ترانتخابی اخراجات سب پربرابرتقسیم کرکے ان سے ہی لئے جائیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ آج یہ جولوگ انتخابات کوفرض عین قراردے رہے ہیں یہی لوگ پھرانتخابات کوگناہوں کی فہرست میں شامل کرکے اس کی مخالفت شروع کردیں گے۔اب توانتخابات پروسائل ملک وقوم کے ضائع ہوتے ہیں۔مفت میں الیکشن لڑنے والوں کو انتخابات کا کیا احساس۔۔؟ جب پیسے ان کے اکاؤنٹ،جیبوں اور تجوریوں سے لگیں گے تب ان کو احساس ہوگاکہ یہ انتخابات کس بلا کانام ہے۔یہ توکہیں سمجھتے ہیں کہ الیکشن مہم پریہ جو چند ہزار اور چندلاکھ تک لگاتے ہیں یہی انتخابی اخراجات ہیں لیکن نہیں انتخابات پر جو اخراجات آتے ہیں وہ ان کی سوچ سے بھی باہر ہیں۔ امیدواروں کی فہرست، ووٹر لسٹوں ودیگرکاعذات کی پرنٹنگ، پولنگ بوتھ،ووٹ باکس،سامان کی ترسیل،انتخابی عملہ، ٹرانسپورٹ اور پھر سیکورٹی۔ انتخابات کی تو صرف سیکورٹی پرجتنے اخراجات آتے ہیں اس کاشماربھی کروڑوں سے آگے اربوں میں ہوتا ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے والے غریب نہیں ہوتے، جو غریب ہوتے ہیں انہیں یہ سیاستدان، جاگیردار اور سرمایہ دار الیکشن لڑنے ہی نہیں دیتے۔الیکشن لڑنے والے یا جاگیردار ہوں گے یاپھرسرمایہ دار۔ مطلب مغرب سے مشرق اورشمال سے جنوب تک آج بھی ہرجگہ الیکشن پنڈ کا چوہدری لڑے گا یا پھرچوہدری کابیٹا۔پنڈکاایک غریب اگرہرامتحان اورانتخاب کے لئے پیسے دے سکتاہے توپھراس پنڈکاچوہدری اور سردارایک ہی امتحان وانتخاب کے لئے پیسے کیوں نہیں دے سکتا۔؟ یاتواس ملک میں غریبوں کے لئے بھی سارے امتحانات فری کئے جائیں یا پھر چوہدریوں، خانوں، نوابوں، سرداروں اور وڈیروں سے بھی اس انتخابات نامی امتحان میں شریک ہونے کے پیسے لئے جائیں۔یہ کہاں کا انصاف ہے کہ چندسوروپے نہ دینے پر توغریب کے بچے کو سکول، کالج اور یونیورسٹی کے امتحان اور نوکریوں کے انتخاب میں بیٹھنے نہ دیاجائے لیکن انتخابات کے بڑے امتحان میں امیروں اورکبیروں کے لاڈلے بچوں کومفت میں ملک وقوم سے کھیلنے کے لئے کھلا چھوڑا جائے۔ اس طبقاتی نظام نے ملک وقوم کوتباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ یہاں ایک طبقہ شروع سے آخرتک ملک کونہ صرف چاٹتاہے بلکہ ساتھ کاٹتا اور لوٹتابھی ہے لیکن غریب طبقہ سترسال سے ناکردہ گناہوں کے بوجھ تلے دبتا جا رہا ہے۔ غریبوں نے یہاں وہ وہ بوجھ بھی اپنے ناتواں کندھوں پراٹھائے جوبوجھ ان کے تھے ہی نہیں۔ بھوک سے رلنے، بلکنے اورتڑپنے والے غریبوں کے کندھوں پرآج بھی جوبوجھ ہیں واللہ یہ بھی ان غریبوں کے اپنے نہیں۔انتخابات کے اخراجات بھی عوام اٹھائیں پھرایم این اے،ایم پی اے اورناظمین کی کفالت بھی عوام کریں، حکمرانوں کے نازنخرے، سیر سپاٹے، عیاشیاں اور مزے بھی عوام کے خون پسینے کی کمائی پر ہوں۔ واللہ۔یہ صرف ظلم نہیں بلکہ بہت بڑاظلم ہے۔ آپ مہینوں اور سالوں بعدنہیں بلکہ ہردن انتخابات کے ڈرامے رچائیں لیکن خداراان ڈراموں وتماشوں کابوجھ عوام پرنہ ڈالیں۔عوام پہلے ہی بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں یہ مزیدآپ کاکوئی بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔ انتخابات جن کاخاندانی کھیل ہے اس کے اخراجات بھی انہی سے وصول کئے جائیں۔

تبصرے بند ہیں.