جنگ کے 6 ماہ چھٹی

162

ایک چودھری نے مذاق سے ڈوم ڈانگری مزاج کے ایک مفت بھر آدمی کو فوج میں بھرتی ہونے کی پیشکش کی کہ عزت والی نوکری ہے۔ تم کیا سارا دن مانگ تانگ کر گزارا کرتے اور ذلت کی زندگی گزار رہے ہو۔ اس نے کہا، مولا خوش رکھے، میری ہر نوکری کے لیے چند شرائط ہوا کرتی ہیں۔ فوج میں بھرتی کے لیے میری شرط ہے کہ مجھے کھانے میں کریلے گوشت، گرمیوں میں ململ کی وردی اور چھاؤں میں مورچہ، سردیوں کی آمد سے پہلے ہیٹر کی سہولت۔ اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے والے نے کہا، منظور ہے۔ تمہیں یہ سب سہولتیں میسر ہوں گی۔ اس ڈوم نے کہا، آخری شرط یہ ہے کہ جنگ کے 6 ماہ چھٹی بھی دی جائے تب میں فوج میں بھرتی ہوں گا۔ شاید سیاست میں بھرتی ہونے کے لیے عمران نیازی کی بھی یہی شرائط تھیں کہ الزام لگاؤں گا، ثابت نہیں کروں گا۔ آئین قانون دھجیاں اڑاؤں گا، آئین اور قانون کے محافظ میری سہولت کاری کریں گے۔ انتخابات میں تمام الیکٹیبلز میری جماعت میں شامل کرائیں، دھاندلی کی نئی تاریخ رقم کریں۔ پھر بھی حکومت کرنے کے قابل نہ ہوں تو اتحادی دیئے جائیں۔ تمام قانون پاس کرانے کے لیے ایجنسیاں ساتھ دیں۔ مجھے وزیراعظم بنوا دیں اور اختیارات بادشاہ، سپہ سالار، چیف جسٹس کے بھی عطا ہوں۔ سب شرطیں مان لیں۔ مخالفین کو جیلوں میں ڈالا، کرپشن کو کاروبار سمجھا، مافیاز کی سہولت کاری کی۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ملک ڈوبتا گیا۔ بین الاقوامی تنہائی کا شکار ہوا۔ اربوں ڈالر قرضہ لیا، کہاں لگا کچھ معلوم نہیں۔ گالی جھوٹ الزام کرپشن کو آسان ترین پالیسی کے طور پر اپنایا بالآخر پارلیمنٹ نے عدم اعتماد کیا اور عام آدمی بنا دیا۔ اب مقدمات ہیں تو سیاسی جنگ میں 6 ماہ کی چھٹی درکار ہے۔ جیل بھرو تحریک کا اعلان ہے لوگوں کے 80 سے زائد بچے بوڑھے غلط فہمی میں جیل جاتے ہوئے رو رہے تھے۔ خود موصوف پولیس کے آنے پر کبھی کمرے کے اندر سے کنڈی لگاتا ہے کبھی بستر کے نیچے کبھی بیڈ کے نیچے چھپتا ہے۔ شاعر کا بچہ لکھ کر دے دیتا ہے کہ ملزم موجود نہیں ہے اور آدھے گھنٹے بعد ملزم جھوٹ پر مبنی تقریر شروع
کر دیتا ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ قانون کیا صرف مال روڈ پر ہیلمٹ نہ پہننے والوں کے لیے ہے؟
قانون اور آئین کی بالادستی حتیٰ کہ جماعت کا نام تحریک انصاف رکھنے والے نے آئین اور قانون کو مذاق بنا کر رکھ دیا اور اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ آئین قانون کے محافظ اداروں نے اس کی مکمل سہولت کاری کی۔ یہ اب تاریخ ہے جو کبھی کسی اینکر کے ذریعے کبھی کسی کالم نگار کے ذریعے اور کبھی آڈیوز، وڈیوز کے ذریعے عوام کیا دنیا بھر میں عام ہو رہی ہیں۔ اس میں مزید خبریت یہ ہے کہ عوام کو عام آدمی کو ریڑھی بان سے نگہبان تک سب اس تاریخی مجرمانہ واردات سے واقف تھے۔ اب تو صرف اقرار، اقبال اور اظہار ہوا چاہتا ہے۔ بلاول بھٹو اگر نیازی صاحب کو چوہا قرار نہ دے تو اور کیا کہے۔ اگر میں اس کو کاذب اعظم نہ کہوں تو اور کیا کہوں۔ محترمہ مریم نواز، میاں نوازشریف سے جرأت ادھار دینے کا نہ کہے تو اور کیا کہے۔ خود تو 72 سالہ فریال تالپور کو ہسپتال سے اٹھا کر جیل ڈالتا ہے اور وہ بھی رات بارہ بجے کے بعد، مریم کو قید والد کی آنکھوں کے سامنے جیل سے گرفتار کراتا ہے۔ بوڑھے صدر زرداری کو جیل ڈالتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت سالہا سال جیل میں رہتی ہے اور جھوٹے مقدمات میں، خود سچے مقدمات میں پولیس آتی ہے تو ہانپتا کانپتا ہوا کمرے کی کنڈی لگا لیتا ہے۔ میں نے وطن عزیز کی سیاسی تاریخ میں کسی سیاست دان کو یوں چھپتے چھپاتے، بزدلی دکھاتے، لوگوں کو پکارتے، چیختے چلاتے نہیں دیکھا۔ عورتوں، بچوں اور پاگلوں کے حصار میں چھپ کر بات کرنے والا، چند دن جیل کاٹنے والے (وہ بھی غلط فہمی میں) پھر یوں بات کر رہے ہیں جیسے ایم آر ڈی کی تحریک کے مجاہد ہوں۔ چودھری پرویز الٰہی اس وقت سیاسی اعتبار سے بہت مشکل میں ہیں، انہیں معلوم ہے کہ یہ قابل بھروسہ نہیں ہے۔ مگر ایک غلط فیصلہ پرویز الٰہی کو امتحان میں ڈال گیا۔ اب یہ جو سازشیں اور ان کی کہانیاں باہر آ رہی ہیں۔ ثاقب نثار اور جہانگیر ترین کے قصے، جنرل باجوہ کی سہولت کاری، یہ عدالتی کیا انصاف اور قانون سے کھلواڑ نہیں ہے۔ کیا کوئی اسے پوچھے گا کہ یہ ملک تمہارے نانا حلوائی کی دکان تھی؟ پیمرا نے نیازی صاحب کی تقریر پر پابندی لگا دی ہے کہ اداروں کے خلاف مسلسل تقریریں کرتے ہیں حالانکہ پیمرا کو تصحیح کرنی چاہئے کہ اداروں اور مخالفین کے متعلق دروغ گوئی، جھوٹ، الزامات اور بکواس کرتے ہیں۔ شوکت خانم ہسپتال کی جگہ میاں نوازشریف نے دی، پہلا 50 کروڑ روپیہ میاں شریف نے دیا اور اس کے خاندان کا روزگار لگ گیا۔ اگر کوئی ایصال ثواب ہے تو وہ میاں شریف صاحب کی روح کو ہے اس کا چاہے مولوی طارق جمیل سے پوچھ لیں کیونکہ نیکی کی نیت تھی تو نوازشریف اور میاں شریف صاحب کی تھی۔ فرض کریں اگر یہ بزدلی کی مثال بننے کے بجائے گرفتاری دے دیتا تو ایک دن میں اس کو کیا فرق پڑتا مگر سیاست اور رہنمائی کی لاج رہ جاتی۔ ایک دن کی گرفتاری سے بچنے کے لیے اس نے کیا کیا پاپڑ بیلے ہیں۔ جس طرح شبلی فراز نے اس کے نہ ہونے کا بیان لکھ دیا بعد میں اس کا چہرہ گہرے رنگ میں بدل گیا جب اس نے تقریر کر کے اس کے جھوٹ کا پردہ چاک کیا۔ اسی طرح ایک دفعہ اس نے پرویز الٰہی کو مولانا فضل الرحمن کو منانے اور مذاکرات کے لیے بھیجا۔ پرویز الٰہی ابھی مولانا کے گھر گئے ہی تھے، مولانا کی طرف سے استقبال کے بعد بیٹھے ہی تھے کہ ٹی وی پر اس کا بیان چل رہا تھا جس میں مولانا کو ڈیزل کہہ کر پکار رہا تھا۔ چودھری پرویز الٰہی اُٹھ کر واپس آ گئے اور انہوں نے باقاعدہ بیان دیا کہ یہ صورت حال دیکھ کر میں نے اندازہ لگایا کہ یہ تو سنجیدہ ہی نہیں۔ پرویز الٰہی نے کہا تھا کہ بزدار نے چار سال میں پنجاب کا بیڑا غرق کر دیا اور یہ بھی کہ عمران خان کی نیپیاں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ شیدے نے کہا تھا کہ عمران پاگل ہو گیا ہے۔ حالت یہ ہے کہ عمران کے ساتھ بیٹھنے والے پیٹھ پیچھے اس کو اور یہ اُن کو گالیاں دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کو آزمائش اور مصیبت سمجھتے ہیں مگر عمران نیازی کا یہی رویہ جب سعودیہ، ترکیہ، چین اور امریکہ (جس کو اس نے بہت Serve کیا) سے ہوا تو پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہو گیا۔ آج وطن عزیز کا مسئلہ اقتصادی سے زیادہ خارجی ہے۔ معاشی سے زیادہ اقوام عالم میں اپنے مقام اور اعتبار کو بحال کرنا ہے جس کی شہبازشریف اور خصوصاً بلاول بھٹو کوشش کر رہے ہیں۔ رہی بات عمران نیازی کی، یہ ایسا سپاہی ہے جو جنگ کے 6 ماہ کی چھٹی مانگتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.