ٍْہیوی ویٹس کی موت

8

میرا پسندیدہ باکسر جوفریزیر67 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوا تھا۔ یقینا سب نے اللہ ہی کی طرف لوٹ کرجانا ہے،لائٹ ویٹ ہویا ہیوی ویٹ۔ باکسنگ میں ہیوی ویٹ اُس باکسر کو کہتے ہیں جس کا وزن 2 سو پونڈ سے زیادہ ہوجائے لیکن سیاست میں ہیوی ویٹ کی اصطلاح اُس سیاسی شخصیت کے بارے میں استعمال کی جاتی ہے جو مشہور یا بدنام ہونے کے ساتھ ساتھ الیکشن جیتنے کا ہنر جانتا ہولیکن یہ بھی لازمی نہیں کہ وہ ہر بار جیت بھی جائے کیونکہ اسی ملک میں دوبار(1970 اور1988) تو ہیوی ویٹس چت ہوتے لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔پاکستان کو بگاڑنے میں ان ہیوی ویٹس کا مرکزی کردار ہے یا پھر اُن کا جن کو پاکستان نے ہیوی ویٹ بنادیا یعنی جنہوں نے اتنی لوٹ مار کی جتنی اُن کی بساط بھی نہیں تھی۔پاکستان کاسیاسی نظام چاروں صوبوں میں مخصوص قسم کے حالات سے دوچار ہے۔یہ فیڈریشن بھی بھان متی کے کنبے سے کسی صورت کم نہیں۔کہیں جاگیردار بیٹھے ہیں تو کہیں سردار، کہیں سرمایہ داروں کا سکہ چلتا ہے تو کہیں دہشت گردوں کی بندوق،کہیں ذات برادریاں ہیں تو کہیں مسلکی بنیادوں پرووٹ دیئے جا رہے ہیں۔کوئی شخصیت کی پرستش میں مگن ہے تو کسی نے آباو اجداد کی سیاسی تنظیم سے وابستگی کو اپنے ایمان کا حصہ قرار د ے رکھا ہے۔یہ کاروانِ حیات اپنی تمام ترشکست و ریخت کے باوجود گزشتہ چونسٹھ سال سے کسی نامعلوم منزل کی طرف رواں دواں ہے۔بقول ساحر
نا کوئی جادۂ منزل نہ روشنی کا سراغ
بھٹک رہی ہے خلاؤں میں زندگی میری
گزشتہ چند ماہ سے عمران خان نے پاکستانی سیاست میں اودھم مچا رکھا ہے اور اب اُس کو چند لوگوں نے فوری مگر غیر مسلسل جبکہ ایک نجی ٹیلی ویژن نے عرصہ دراز سے اور مسلسل اپنی توجہ کا مرکز بنا رکھا ہے۔میری نظر التفات سے بھی یہ مرد آہن فیض یاب ہوتا رہاہے لیکن بقول ناصر کاظمی
اب ملاقات میں وہ گرمی جذبات کہا ں
اب تورکھنے وہ محبت کا بھرم آتے ہیں
عمران ایک انتہائی شرمیلا اور آنکھ کی شرم رکھنے والا انسان سمجھا جاتا تھا اوریہ بات میں کسی سے سن کر نہیں لکھ رہا بلکہ سیاست کے ابتدائی ایام میں اُس نے اپنے آپ کو ایسا ہی پیش کیا تھا وہ بھی دوسرے سیاستدانوں کی طرح عوام کا درد لے کر میدان میں اترا تھا لیکن چونکہ اُس کا ماضی سیاسی نہیں تھا سو اُسے اوریجنل سمجھنے کی غلطی معراج محمد خان نے بھی تمام تر مخالفت کے باوجود کی اور اپنی اچھی خاصی سیاسی و انقلابی جماعت پاکستان قومی محاذ آزادی عمران نیازی کی تحریک انصاف میں ضم کردی لیکن وقت نے ثابت کیا کہ عمران نیازی ظرف کے حوالے سے انتہائی پست انسان ہے۔ ممکن ہے اُس کے دل میں پاکستانیوں کی محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہو لیکن بقول شاعر
چوٹ تو عشق کی پڑتی ہے دلوں پر یکساں
ظرف کے فرق سے آواز بدل جاتی ہے
جس طرح عشق صرف اہل ِ ظرف پر اپنے اثرات مرتب کرتا ہے اسی طرح سیاست کیلئے لیے بھی قدرت نے مخصوص ذہن پیدا کیے ہوتے ہیں۔ یہ کارِ محال ہر ایرے غیر نتھو خیرے کے بس کا کام نہیں۔ سیاست میں شیرکا دل اور لومڑی کا دماغ درکار ہوتا ہے اورمیں سمجھتا ہوں کہ عمران کے پاس شیر جیسا دل
تونہیں ہے لیکن کسی لومڑی کی عقل داڑھ وہ پوری دیانتداری اور ذمہ داری سے استعمال کر رہا ہے۔اب سالہا سال کی ریاضت کے بعد اُس کے پاس مستعار عقل کے علاوہ بہت سے کوتلیہ چانکیہ اور میکاولی اکھٹے ہو چکے ہیں جو چاہتے ہیں عمران نیازی اُن کی عقل بھی استعمال کرے لیکن وہ تمام ہجو م جو میں اُس کے گرد دیکھتا ہو اُن کے اپنے مفادات اورفلسفے تو ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن مکاری کے مشترکہ مفاد نے انہیں یک جا کر رکھا ہے۔
بالادست طبقات کا تحریک انصاف میں شامل ہونا دراصل تبدیلی کے اُس نعرے سے انحراف تھا جس کا خواب عمران نیازی نے نوجوانوں کو دکھایاتھا اور میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی اس بات سے سو فیصد متفق تھا کہ آنے والے انتخابا ت میں تحریک انصاف کو زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو آگے لانا چاہیے لیکن عمران نیازی اپنے جیسوں میں واپس جانا چاہتا تھا اور وہ چلا گیا۔قومی اور صوبائی اسمبلیوں پرصرف اورصرف ورکنگ اور مڈل کلاس کا حق تھا جو اُنہیں آج تک نہیں دیا گیا اور اب بھی ایسا ہی ہوگا کیونکہ یہ تبدیلی یا انقلاب نہیں بلکہ انقلاب سے انحراف ہے۔ جب آپ ریاستی قوتوں سے ملنے کیلئے ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہوں تو یہ بات یقینی ہے کہ آپ آنے والی نسلوں کے نہیں بلکہ اشرافیہ کے نمائندے ہیں۔ جس خواب کو آنکھوں میں سجائے لاکھوں لوگو ں نے عمران خان کو خوش آمدید کہاہے وہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید اپنے ساتھ لے گئے۔ اب عمران نیازی ریٹائرڈ جرنیلوں کے بل بوتے پر افواج پاکستان کو دھمکیاں دے رہاہے تو عمران نیازی کے علم میں ہونا چاہیے کہ یہ پینشنر جرنیل کبھی اُس کے ساتھ آخری لڑائی نہیں لڑیں گے۔ ہیوی ویٹس کی تو پاکستانی سیاست میں زندہ مثال ذوالفقار علی بھٹو موجود ہیں جنہوں نے اقتدار پسے ہوئے طبقات کے بل بوتے پر لیا لیکن جب اقتدار میں آئے تو اپنے ہی ساتھیوں کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا اُس کا خمیازہ یہ بھگتنا پڑا کہ بھٹو کی گرفتاری پر اُس کے حقیقی ساتھی اُس سے دور ہو چکے تھے اور جنہیں بھٹو نے اقتدار میں آ کر ساتھی بنایا وہ تو کُو کی سازش میں ضیاء الحق کے ساتھ تھے۔ لوگوں نے ووٹ پیپلز پارٹی یا امیدواروں کو نہیں بھٹو کو دئیے تھے۔ ہمارے ہاں شخصیت کو ووٹ پڑتے ہیں اور 2018 میں بھی ووٹ کسی ہیوی یا لائٹ ویٹ کو نہیں پڑنا تھے بلکہ یہ ووٹ عمران خان کو ملنے تھے اور پھر اُس وقت اسٹیبلشمنٹ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پھر سے چاروں صوبوں کی نئی زنجیر بنانے میں مصروف تھی سو عمران خان کو امیدواروں کے حوالے سے کسی پریشانی کا شکار اور کسی قریبی ”کوتلیہ یا میکاولی“کی عقلی تحریک یا پروپیگنڈا سے متاثرہوئے بغیر جرأت سے فیصلہ لیتے ہوئے اپنے وفادار ساتھیوں اورتحریک انصاف کے پرانے لوگوں کوموقع دینا چاہیے تھا کہ یہی انقلاب کی ضرورت اور ایفائے عہد تھا لیکن ایسا نہیں ہوا اور پھر قرآن تو کھلے لفظوں میں کہتا ہے کہ اے ایمان والو وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔چونکہ عمران نیازی نے اپنا کہا ہوا کیا نہیں تھا سو ایک رسوائی اُس کے مقدر میں لکھ دی گئی۔
انقلاب سے جب نوجوانوں کا رومانس جڑ جاتا ہے تو پھر وہ اس سے کم کسی شے پر راضی نہیں ہوتے۔کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے چیئرمین تحریک انصاف کو یہ ضرور سوچ لیناچاہیے تھاکہ وہ نوجوانوں کا قائد ہے اور بقول مسلم لیگ ن کے رہنما جانِ جگر خواجہ سعد رفیق،وہ سرپھروں کا قائد ہے (یہ بات سعدرفیق نے اپنے والد خواجہ رفیق مرحوم کی برسی پر کہی تھی)۔ سرپھروں کو خواب دکھا کر اُس سے انحراف کرنا ایک طرف تو اخلاقی طور پر کسی صورت جائز نہیں اور دوسرا اگر یہ تاثر عام ہوا تو جس ماڈرن اسلامی ریاست کو بنانے کی بات چیئرمین تحریک انصاف کر رہے ہیں اُس سے ملتی جلتی ریاست کا نقشہ لیے حزب التحریر کے نوجوان بھی لیے گھوم رہے ہیں اور میری اطلاع کے مطابق اس وقت تک وہ تحریک انصاف میں بھی دخول (Interisam)کر چکے ہیں۔حزب التحریر کے نوجوانو ں کا کام اتنا سائنٹفک اور عقلی ہے کہ وہ اچھے خاصے پڑھ لکھے کو اپنے سیاسی دام میں پھانس لیتے ہیں اور کسی بھی تنظیم میں اُن کا دبے پاؤں داخل ہونے کا اندازہ اسی ایک بات سے لگا لیں کہ ڈیوٹی پر موجود منظم فوج کا بریگیڈیر بھی اُن سے محفوظ نہیں رہتا۔ ایسے میں تحریک انصاف کے معصوم خرگوش تو اُن کا تر نوالہ ہوں گے اور اُس کے بعد جو ہوگاوہ فی الحال ناقابل ِاشاعت ہے۔ عمران نیازی اب عوام کے سامنے نئے چہرے کے ساتھ آئے گا جو 2018ء سے پہلے نیازی سے بالکل مختلف ہو گا۔ عمران نیازی سے نیا پاکستان تو نہیں بن سکا لیکن نیا عمران نیازی تیار ضرور ہو گیا ہے۔ پرانے نیازی کے ہاتھ میں پاکستان کی سپریم کورٹ کا جاری کردہ صداقت و امانت کا سٹرٹیفکیٹ تھا جبکہ آنے والے الیکشن میں اُس پر بزدار ٗ گوگی ٗ پنکی ٗ زلفی بخاری ٗ میاں اسلم اقبال ٗ میاں محمو د الرشید ٗ ڈاکٹر یاسمین راشد اور ایسے بیسیوں الزامات ہیں جن کا عمران نیازی نے جواب دینا ہے۔ لا تعداد سکینڈلز ہیں جن کا عام آدمی نے پوچھنا ہے ٗ اُن وعدوں کی بابت سوال ہونے ہیں جو الیکشن سے پہلے کیے گئے تھے۔ آئی ایم ایف سے کیا گیا معاہدہ اور اُس کی عدم ِ تکمیل بارے سوال اٹھایا جائے گا۔ عمران نیازی نے اپنے ورکروں کو دھمکی دی ہے کہ جو پارٹی امیدوار کے خلاف کھڑا ہو گا اُس کو پارٹی سے نکال دیا جائے گا۔ اب اس سے زیادہ احمقانہ بات کیا ہو گی اگر آپ غلط امیدوار کو ٹکٹ الاٹ کردیتے ہیں اور وہاں سے آپ کا دوسرا امیدوار جیت جاتا ہے تو کیا آپ جیتے ہوئے امیدوار کو پارٹی سے نکال سکتے ہیں جبکہ ماضی میں آپ دوسروں کے جیتے ہوئے امیدواروں کے طیارے بھر بھر کر لاتے رہے ہیں اور پھر صفدر آباد میں آپ نے رانا صاحب کو ٹکٹ دی لیکن ڈوگر صاحب نے 29 ہزار ووٹ لے کر آپکے امیدوارکوہارا دیا لیکن آپ نے بعد ازاں ڈوگر کو ہی تحصیل صفدر آباد کا جنرل سیکرٹری بنادیا۔ ٹکٹس آپ اب بھی ورکرز کو نہیں دیں گے اور اِس بار آپ کو زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ آپ ایک کمزور اور ناکام اقتدار گزار کر آئے ہیں جس کی وجہ سے پارٹی کا عام اورخاص دونوں ورکرز آپ سے ناراض ہیں۔ نئی سیاسی جماعتیں اپنے ہیوی ویٹس اپنے اندر سے پیدا کرتی ہیں نا کہ کرائے کہ ہیوی ویٹس لے کر میدان ِ کارزار میں اترکر بعد ازاں عدم اعتماد کرا لیتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف کے نوجوانوں کے اندر کسی بھی ہیوی ویٹ کو شکست دینے کی مکمل صلاحیت موجود ہے سو انہیں پر انحصار کرنا عوام کو بہت سے وسوسوں سے بچا سکتا تھا لیکن اگرآپ کے پیش نظر صرف اور صرف حکومت حاصل کرنا تھا اور وہ بھی اختیار کی قیمت پر تو اس سے بہتر یہی تھا کہ اسی دم توڑتے نظام کوچلنے دیا جایا تھا جو چند سال میں اپنی موت آپ مرنے والا تھا بالکل اُسی طرح جس طرح ہر ہیوی ویٹ ایک دن مر جاتا ہے۔ میرے پسندیدہ ہیوی ویٹ جوفریزیر کی طرح۔

تبصرے بند ہیں.