یہ صدمہ جیتے جی دل سے ہمارے جا نہیں سکتا
انہیں وہ بھولے بیٹھے ہیں جو ان پر مرنے والے ہیں
جنہیں دیکھ کر ہم جیتے تھے، جنہیں دیکھ کر ہم سیکھتے تھے، جنہیں دیکھتے ہم نے زندگی گزاردی، جنہیں دیکھ کر ہمارا بچپن گزرا۔ وہ بھی آج ہم سے بچھڑ گئے۔ جی ہاں! فلم اورٹی وی کے معروف اداکار قوی خان 80 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ اداکار قوی خان اپنے صاحبزادے عدنان قوی کے ساتھ کینیڈا میں مقیم تھے جہاں ان کا انتقال ہوا، اداکار قوی کینیڈا کے وان شہر کے ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ ایسے لگ رہا جیسے امجد اسلام امجد، ضیا محی الدین کے بعد قوی خان کے چلے جانے سے خدا ہم سے روٹھ گیا ہے۔ انہوں نے فنی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا۔ کم عمری میں چائلڈ ایکٹر کے طور پر ریڈیو پاکستان کے ڈراموں سے کام شروع کیا۔ 1964ء میں جب لاہور میں پاکستان ٹیلی وژن کا آغاز ہوا تو انہیں اس کے پہلے ڈرامے ”نذرانہ“ میں کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے لاتعداد سیریلز، سیریز اور انفرادی ڈراموں میں کام کیا۔ قوی خان نے ڈرامہ سیریل اندھیرا اجالا سے نام کمایا اورایماندار پولیس آفیسر کی حیثیت سے اداکاری کے بہترین جوہر دکھائے۔ قوی خان نے 200 سے زائد فلموں اور لاتعداد ٹی وی ڈراموں میں کام کیا ہے۔ان کے مشہور ٹی وی ڈراموں میں اندھیرا اجالا، دو قدم دور تھے، لاہوری گیٹ، مٹھی بھر مٹی، من چلے کا سودا، میرے قاتل، میرے دلدار، پھر چاند پہ دستک، در شاہوار، زندگی دھوپ تم گھنا سایہ، صدقے تمہارے، تم کون پیا، سہلیاں، نظر بد اور الف اللہ اور انسان شامل ہیں۔جبکہ ان کی چند شہرہ آفاق فلموں میں محبت زندگی ہے، سوسائٹی گرل، چن سورج، سرفروش، کالے چور، زمین آسمان، رانگ نمبر، مہر النسا ء اور پری شامل ہیں۔
وہ پاکستان ٹیلی وژن کے پہلے اداکار تھے جنہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ یہ اعزاز انہیں 14 اگست، 1980ء کو ملا۔ بعد ازاں انہیں ستارہ امتیاز سے بھی سرفراز کیا گیا۔ محمد قوی خان پی ٹی وی ایوارڈ اور ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کے لائف اچیومنٹ ایوارڈ بھی حاصل کر چکے ہیں۔ انہوں نے کئی فلموں میں بھی کام کیا اور تین نگار ایوارڈز بھی حاصل کیے۔ حال ہی میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں اپنی فنی خدمات کے نتیجے میں اعتراف کمال ایوارڈ بھی حاصل کرچکے ہیں۔
میں جب پی ٹی وی میں بطور اینکر پرسن کام کر رہی تھی تو اْس وقت اْن سے ایک انٹرویو کرنے کا بھی موقع ملا، جس میں انہوں نے ذاتی زندگی کے علاوہ بہت سے دیگر تجربات بھی شیئر کیے۔ انہوں نے بتایاکہ میں جب رحمان پورہ لاہور میں رہائش پذیر تھا تو 2 سال بعد اس قابل ہوا کہ 25 روپے کرایہ دے سکوں۔انہوں نے کہا کہ ایک دن ایسا بھی تھا کہ جب میرے پاس بس کے ٹکٹ کے 5 پیسے نہیں تھے، بس کا ٹکٹ 15 پیسے کا تھا اور میرے پاس صرف 10 پیسے تھے، پھر 5 پیسے کے لیے دوست کے گھر گیا، اس کے ساتھ کافی دیر کھڑا رہا لیکن مجھ میں دوست سے 5 پیسے مانگنے کی ہمت نہ ہوئی اور میں واپس آگیا۔
انہوں نے کام سیکھنے کے حوالے سے بتایا کہ الفاظ کے تلفظ، ادائیگی، زیر زبر کا فرق، گفتگو کا قرینہ و سلیقہ میں نے ریڈیو پاکستان سے سیکھا اور کالج کی تعلیم کے دوران بھی ریڈیوپر کام کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا رہا پھر میں 1961میں لاہور آگیا۔ میں نے پانچ چھ برس بینک میں ملازمت بھی کی لیکن چونکہ میرے پاس ریڈیو پاکستان کا این او سی تھا تو میں نے ریڈیو لاہور پر کام کا سلسلہ جاری رکھا پھر میں نے الحمرا تھیٹر اور اوپن ائیر تھیٹر میں اداکاری کے جوہر دکھائے، رفتہ رفتہ مجھے فلم میں کام کرنے کا موقع بھی میسر آگیا 1964میں میری پہلی فلم ”رواج“ ریلیز ہوئی جسے دلجیت مرزا صاحب نے بنایا تھا، ”رواج“ میں ولن کا کردار میں نے ادا کیا ساتھ ہی پروڈکشن میں دلجیت مرزا کو اسسٹ بھی کیا تھا جس سے مجھے فلم میکنگ کی باریکیوں کو سمجھنے میں کافی مدد ملی، اسی دوران لاہور میں پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز ہورہا تھا، میں نے کام کے لئے فوری اپلائی کیا جلد ہی مجھے یہ پیغام ملا کہ پاکستان ٹیلی ویژن سے جو پہلاکھیل ”نذرانہ“ آن ائیر جائے گا اس میں ہیرو کا کردار میں ادا کروں گا تو وہ میرے لئے تاریخ بن گئی جو اب تک ہے۔ اس کھیل کو نجمہ فاروقی نے تحریر کیا تھا اور فضل کمال نے ڈائریکٹ کیا تھا، میرے ساتھ کنول حمید نے ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ پھر میں نے 1966 میں بینک کی جاب چھوڑ دی اور تمام تر توجہ فن اداکاری پر مرکوز کردی، ریڈیو، ٹی وی، تھیٹر اور فلم ہر میڈیم میں مجھے کام ملتا رہا اور میں نے اس سلسلے میں بریک نہ آنے دی۔ ایک زمانے میں مجھ پر فلم میکنگ کا جنون طاری ہوگیا جس کی تکمیل کے لئے میں نے بارہ فلمیں بھی بنائیں جو زیادہ اچھی نہیں گئیں اس ناکامی نے مجھے زندگی کے نشیب و فراز سے بخوبی آشنا کرایا لیکن اس سارے سفر میں ٹیلی ویژن نے مجھے تھامے رکھا، ہم دونوں نے ایک دوسرے کا دامن نہیں چھوڑا۔اب تک 54برس ہوگئے ہیں میں نان سٹاپ ٹی وی پر کام کررہا ہوں اور ہر ہفتے میں کسی نہ کسی چینل پر ضرور آن ائیر ہوتا ہوں۔ میں نے زندگی میں کوئی بزنس نہیں کیا، کوئی پراپرٹی نہیں بنائی۔ اداکاری ہی میرا جنون رہا جس سے مجھے رزق کا سامان بھی مہیا ہوتا رہا۔ میں پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی اوپر نہیں پہنچ گیا بلکہ میرا سفر تو جہد مسلسل کی عملی مثال ہے، پہلی کے بعد دوسری پھر تیسری سیڑھی مرحلہ وار عبور کیں۔
قوی خان کی یہ باتیں واقعی دل موہ لینے والی تھیں، انٹرویو کے دوران وہ بہت زیادہ ماضی میں کھو جاتے تھے، لہٰذاانہیں جگانے کے لیے مجھے ایک شرارت سوجھی اور میں نے اْن سے سٹیج پر اداکاری کے تجربے کے حوالے سے پوچھ لیا۔ اور پوچھا کہ سنا ہے کہ آپ کا وہ تجربہ کامیاب نہیں رہا تو اْنہوں نے ناراضی کا اظہار کیا، اور کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ میرا سٹیج والا تجربہ ناکام رہا، بلکہ وہاں کوئی اور کلاس ڈرامہ دیکھنے آتی ہے، آرٹسٹ کوعلم ہونا چاہئے کہ مکالمہ کہنے کے کیا اسرار ورموز ہیں، تھیٹر ہال میں جو 600آدمی آپ کو لائیو دیکھ رہے ہیں ان کی ڈیمانڈ کیاہے اورٹی وی ناظرین کے سامنے کیسے آنا ہے۔ آوازکی پچ، باڈی لینگوئج، کیمرہ ہینڈلنگ، خود اعتمادی اور ہر میڈیم کاباہمی فرق، یہ سب علوم تجر بے سے ہی حاصل ہوتے ہیں اورسب سے بڑھ کر فنکار کا زمانے میں آنے والی تبدیلیوں کے ساتھ تبدیل ہونا بہت ضروری ہے، جیسے کچھ سال بعد کیمرے بدل جاتے ہیں، لائٹس بدل جاتی ہیں، لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آجاتی ہے، لباس اور گفتگو کا انداز بدل جاتاہے، ویسے ہی آرٹسٹ کو وقت کے ساتھ ان تبدیلیوں کو اپنا لینا چاہئے ورنہ وہ زمانے کے ساتھ چل نہیں پائے گا۔ میرا یقین ہے کہ ریڈیو او ر تھیٹرکا تجربہ ہونے کی وجہ سے میں نے اتنے برس کام کرلیا ورنہ خامیاں اورکوتاہیاں تو مجھ میں بھی بہت ہیں اور مکمل تو صرف میرے مالک کی ذات ہے۔
بہرکیف قوی خان واقعی ایک لیجنڈ اداکار تھے، اْن کے ہونے سے اس معاشرے میں برکت تھی، لیکن اْن کے نا ہونے سے خلا پیدا ہو چکا ہے۔ اْمید ہے اْن کے کام سے ہماری نوجوان نسل سیکھنے کی کوشش کرے گی اور اْن کے کام سے استفادہ کیا جاتا رہے گا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.