کسی بھی ملک و قوم کے لیے جس طرح کے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے ہمارے ہاں اس کے برعکس لوگوں کا پورے ملک پر باقاعدہ قبضہ ہے۔ ہر اہم جگہ پر رشتے داریوں اور مفاد پرستوں کے نیٹ ورک موجود ہیں جن کے درمیان آپس میں لاکھ اختلافات چل رہے ہوں یہ جتھے قابل، دیانت دار اور باصلاحیت لوگوں کے خلاف متحد ہونے میں ایک لمحہ ضائع نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ ہمارے اداروں میں اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک اور اعلیٰ اقدار کے حامل لوگ اول تو بہت ہی کم اور کہیں کہیں نظر آتے ہیں اور اگر غلطی سے کہیں آ جائیں تو چاروں طرف سے جکڑے ہوئے ہونگے۔ ان کے صرف ہاتھ پاؤں ہی نہیں باندھے گئے ہونگے بلکہ ان کی فکری آزادی اور شخصی اوصاف تک زنجیروں میں جکڑے نظر آئیں گے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جتھے بنیادی طور پر دانائی سے محروم ایسے چالاک لوگوں پر مشتمل ہوتے ہیں جن کے نزدیک اہل علم اور اہل خیر لوگوں کا ہونا ان کے مذموم مقاصد کی تکمیل میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ یہ ان کے سامنے جب خود کو بونا اور کوتاہ قامت محسوس کرتے ہیں تو اونچی ایڑی والے جوتوں کا سہارا لے کر برابری کی کوشش کرتے ہیں یا پھر ان کو ہر طرح نیچا دکھانے کے لیے نیچ سے نیچ حرکت سے بھی گریز نہیں کرتے۔ مجھے زندگی میں بہت ساری نوکریوں کا تجربہ ہوا ہے اور مشاہدہ تو اتنا ہے کہ گنتی میں نہیں۔ میں نے بے روزگاری کا دکھ بھی جھیلا ہے اور نوکریوں کے المیے بھی۔ ہمارے ملک میں اگرچہ زیادہ تکلیف سفید پوش آدمی جھیلتا ہے جسے اپنے خاندان کو پالنا اور گھر کو چلانا بھی ہوتا ہے اور اپنا بھرم بھی قائم رکھنا ہوتا ہے۔ سفید پوش لوگ اسی لیے سفید پوش رہ جاتے ہیں کہ چالاکی، مکاری اور حرص ان کے مزاج کا حصہ نہیں ہوتی۔ وہ ساری زندگی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں پر ضمیر کے بوجھ اور اس کی ملامت سے محفوظ رہتے ہیں۔ دوسری طرف جھپٹ جھپٹ کر پیسے کمانے والے لوگوں کا لمحہ لمحہ جس دوزخ میں گزرتا ہے یہ وہی جان سکتے ہیں یا پھر وہ لوگ جو ان کے قریب ہوں۔ زیادہ مسائل لائق، مخلص اور دیانتدار افراد کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔ جس معاشرے میں تعلق، سفارش، رشوت اور ذاتی مفاد کو اولیت حاصل ہو اور ترجیح دی جائے وہاں قابلیت اور شرافت ہمیشہ نا اہل اور کرپٹ لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کیے رکھتے ہیں۔ چکربازیوں سے نوکری، عہدے، ترقی اور فائدہ مند تقرریاں حاصل کرنے والوں کو لائق لوگ ہمیشہ تھریٹ نظر آتے ہیں اور ان کی قابلیت اور دیانت سے پیدا ہونے والے اس فطری خوف سے نکلنے کے لیے چکرباز ان کی نوکری بلکہ زندگی عذاب بنائے رکھنے میں اپنی بچت سمجھتے ہیں۔ نا لائق فرد اپنی چالاکی یا اپنے کسی ہمدرد کی مدد سے عہدہ تو حاصل کر لیتا
ہے لیکن اس کے بعد اس کی ساری توانائیاں اپنی نالائقی اور کرپشن چھپانے میں صرف ہوتی ہیں۔ وہ دوسروں سے پورا پورا کام لے کے بھی مشکور نہیں ہوتا بلکہ شو کراتا ہے کہ یہ سب اسکی لیڈرشپ کی وجہ سے ہوا ہے۔ چکرباز اپنے اعلیٰ افسران یا با اثر افراد سے اپنے شعبے کے لائق لوگوں کو چھپاتا ہے بلکہ ان کو سب کے سامنے کمتر بنا کے پیش کرتا ہے یا انتہائی چالاکی سے ان کو ذلیل کرتا ہے تاکہ اس کا خوف اور احساس ِ کمتری بھی ظاہر نہ ہو اور کام بھی ہو جائے۔ وہ کمزوروں کو نظر انداز کرتا ہے، ان کے سینوں پر ایڑیاں مار مار کر چلتا ہے اور طاقتوروں کے تلوے چاٹنا عین سعادت سمجھتا ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ نالائق افسر سفاک بھی ہوتا ہے اور کرپٹ بھی۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح کی یا بیک وقت کئی طرح کی کرپشن میں ملوث نہ ہو۔ کیونکہ اس کی نا اہلی کے باوجود کسی سیٹ پر اس کا براجمان ہونا یا چمٹے رہنا پہلی کرپشن ہوتی ہے جس سے اس کے انسانی سطح سے پست ہونے کی بنیاد پڑتی ہے۔ نا اہل افسر کسی ایسی سیٹ پر بیٹھتا ہی اس لیے ہے کہ اسے اپنے فرائض ادا کرنے کے بجائے کچھ اور کرنا ہوتا ہے۔ وہ کوئی ٹارگٹ لے کے آتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دوسروں کی زندگی دوزخ بنائے رکھنے والا یہ چکر باز خود بھی چین سے نہیں رہتا۔ کسی بھی وقت ایکسپوز ہو جانے کے خوف کے علاوہ کرسی چھن جانے کا ڈر کسی ڈراؤنے بھوت کی طرح اس کے سر پر سوار رہتا ہے اور وہ رفتہ رفتہ زندگی کی حقیقی خوشیوں سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر آخر ایک دن موت کا وقت سر پر آ پہنچتا ہے۔ اس کی ساری زندگی کی فلم اس کی آنکھوں کے سامنے چلتی ہے اور اسے یاد آتا ہے کہ وہ جن جھوٹی تعریفوں پر خوش ہوتا رہا ہے وہ تو ایک فریب تھا۔ جو پیسہ اس نے کمایا وہ اس کے کام نہیں آ سکا۔ جس بات کو وہ عزت سمجھتا رہا وہ تو ایک معمولی عہدے کی عزت تھی اس کی نہیں تھی۔ منہ پہ عزت کرنے والے لوگ درحقیقت یا تو اس سے نفرت کرتے ہیں یا پیٹھ پیچھے حقارت سے اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ حتیٰ کہ جن لوگوں کو اس نے خطرہ مول لے کے فائدہ پہنچایا وہ بھی مفاد نکل جانے کے بعد اس سے منہ پھیر گئے۔
لیکن اس کے برعکس جن لوگوں نے اپنی اہلیت کے مطابق کام کیے یا اپنے سے زیادہ اہل لوگوں کی مدد سے اپنے فرائض خوش اسلوبی سے نمٹائے اور ان کے مشکور رہے، لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آتے رہے اور ہر ممکن مخلوق ِ خدا کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے وہ اپنی زندگی میں بھی مطمئن اور خوش رہے، ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہوں نے زیادہ عزت حاصل کی بلکہ دنیائے فانی سے چلے جانے کے باوجود دعاؤں میں ہمیشہ یاد کیے جاتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد پھر سے افسری حاصل کرنے کے لیے جتن کرنے والے لوگ خاص طور پر قابل ِ ترس ہوتے ہیں کیونکہ ان کو اندر سے کہیں احساس ہو گیا ہوتا ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی افسری نہیں ہو گی تو غیر کیا خود ان کے اپنے بھی ان کی عزت کرنا چھوڑ جائیں گے اور ان کے سلام کا جواب تک دینا گوارا نہیں کریں گے۔ اس خوفناک صورتحال سے نکلنے کے لیے یہ چکر باز ریٹائرمنٹ کے بعد ایڑی چوٹی کا زور لگا کر پھر ایک اور افسری حاصل کرتے ہیں لیکن قسمت تین سال بعد ایک بار پھر ان کے ساتھ مذاق کرتی ہے، ان کی مصنوعی عزت پر قہقہے لگاتی ہے اور ان کو قبر سے پہلے قبر میں اتارنے کا پورا انتظام کر کے اپنے دروازے ان پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیتی ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.