ملک بد قسمتی کے نئے فیز میں داخل ہو رہا ہے، دور تک دیکھنے اور اندر کی خبریں لانے والے کہتے ہیں کہ ایسا زلزلہ آنے والا ہے جس کے باعث متعلقہ حضرات غیرمتعلق ہوجائیں گے۔ نئے خطرات قوم کے سر پر منڈلا رہے ہیں۔ سیاست گرم، عدلیہ سرگرم، جن پر گرمی دکھائی گئی وہ بھی گرم ہوگئے، ٹکر کے لوگ آپس میں ٹکریں مار رہے ہیں۔ جن سے ٹکر لینی تھی ان سے ٹکر نہ لی جاسکی۔ ”سوچیں پئے آں ہن کی کریے“ (سوچ رہے ہیں اب کیا کریں) ملک کے ساتھ عجب تماشہ ہو رہا ہے۔ پسند نا پسند کے دہرے معیار اور منافقت سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ ابھی تک آنکھیں بند ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے 5 سال پہلے ایک اسٹار کو گود لینے کا جو پراجیکٹ شروع کیا تھا ایک سال قبل اسے لپیٹنے کا فیصلہ کیا لیکن اسے لپیٹا نہ جاسکا۔ جڑیں گہری ہیں اندر باہر سے حمایت اور سہولت کاری مل رہی ہے۔ عجیب دہرا معیار ہے۔ پراجیکٹ ختم بھی کرنا ہے۔ اس کے معماروں کو ریلیف بھی دیا جا رہا ہے۔ ”اک طرفہ تماشا ہے یہ اپنی سیاست بھی“ نئے پنڈورا باکس کھل رہے ہیں۔ جو کام ہونے تھے نہیں ہوئے جو نہیں ہونے چاہیں تھے وہ ہوگئے، حقائق کا ادراک نہیں، حدود اور اختیارات کا تعین نہیں جو کل تک فساد، افراتفری، عدم استحکام اور جھوٹ کو انقلاب کا پیش خیمہ بنانے والوں کے آلہ کار تھے آج بھی ہیں ٹرائی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی حد سے بڑھ گئی بحران سنگین ہوتا نظر آتا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ زمان پارک میں روزانہ ایک سے زائد اجلاسوں میں کچھ نہ کچھ کرنے کے فیصلے ہوتے ہیں۔ بقول حضرت علامہ اقبال نچلا تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا“ کپتان کا ایک ہی مقصد مقبولیت ساتویں آسمان پر ہے دو صوبوں کی اسمبلیاں بے وجہ نہیں توڑی گئیں۔ صوبائی الیکشن اپریل میں ہوجائیں تو دو تہائی اکثریت سے دونوں صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومتیں بن جائیں گی۔ بعد ازاں قومی اسمبلی کے عام انتخابات میں دونوں صوبوں کی حکومتیں اثر انداز ہوں گی۔ اس طرح وفاق میں بھی نمایاں کامیابی کپتان کا مقدر بنے گی۔ وفاقی حکومت اپریل میں انتخابات کے سلسلے میں ہچر مچر کر رہی ہے۔ اس میں سب سے بڑی رکاوٹ معاشی بدحالی ہے۔ بظاہر پی ڈی ایم کی حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام ہوگئی۔ ڈالر نے ڈار کو پچھاڑ دیا اور 290 روپے تک پہنچ گیا بلکہ 300 روپے کی حد چھونے جا رہا ہے افراط زر بے قابو پیٹرول بجلی گیس آٹا گھی اور دیگر اشیائے صرف عوام کی پہنچ سے دور عوام سڑکوں پر نہیں نکل رہے لیکن اندر ہی اندر جل بھن رہے ہیں اور انتخابات جیسے کسی موقع کی تلاش میں ہیں تاکہ ن لیگ سے خصوصاً اور حکومت کی دیگر پارٹیوں سے انتقام لے سکیں حکومت کا موقف ہے کہ وہ کپتان کی چار سالہ حکومت کی نا اہلی سے ہونے والی مہنگائی اور آئی ایم ایف سے کیے جانے والے معاہدوں کو بار بار توڑنے اور اس کے نتیجہ میں نئے معاہدے میں لیت و لعل نئی شرائط عائد کرکے ناک سے لکیریں نکلوانے کا خمیازہ یا سزا بھگ رہی ہے۔ آئی ایم ایف نے پہلے سات اور گزشتہ دنوں مزید چار شرائط عائد کردیں۔ گیارہ شرائط پوری ہونے پر مزید قرضہ ملے گا۔ شرائط پوری کرنے کے چکر میں ہی مہنگائی بے قابو ہوئی حکومت بلکہ کپتان سمیت کسی کے پاس بھی اسے روکنے کا کوئی آپشن نہیں۔ دودھ اور شہد کی نہریں سوکھ چکیں، ریت اڑ رہی ہے۔ بقول خواجہ آصف ملک ڈیفالٹ ہوچکا، اسحاق ڈار نے اگرچہ اس کی ایک سے زائد با تردید کی تاہم تشویش ان کے چہرے سے عیاں ہے۔ معاشی بحالی چند دنوں یا چند مہینوں کا کام نہیں سالوں لگیں گے بد قسمتی ہے کہ حکومت اب تک عوام کو آئی ایم ایف کی گیارہ شرائط سے واضح طور پر آگاہ نہیں کرسکی۔ ان شرائط کا اردو میں ترجمہ کر کے عوام کو بتایا جائے کہ سابق حکومت کی جانب سے بار بار معاہدوں کی خلاف ورزیوں کے باعث حکومت مالیاتی ادارے کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے۔ وزیروں مشیروں کی پریس کانفرنسوں اور بیانات کے باوجود عوام کو ان شرائط کا علم نہیں چنانچہ وہ ن لیگ کو کمر توڑ مہنگائی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ کپتان اسی صورتحال سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اعداد و شمار بتا بتا کر جلتی پر تیل کا کام کر رہے ہیں۔
کیا پنجاب اور کے پی کے میں 90 دن یا چند
دن بعد انتخابات ہوسکیں گے حکومت ہرگز انتخابات کے موڈ میں نہیں ہے۔ اسے انتخابات سے پہلے مہنگائی میں کمی کی فکر ہے اور سیانے تجزیہ کاروں کے مطابق کپتان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا۔ با خبر ذرائع کا کہنا ہے کہ الیکشن اکٹھے اکتوبر یا اس کے بعد ہوں گے حکومت کے پاس ضمنی انتخابات کے لیے 20 ارب اور عام انتخابات کے لیے باقی 40 ارب نہیں ہیں۔ مردم شماری ہو رہی ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ دو صوبوں کے انتخابات مردم شماری کے بغیر اور باقی صوبوں کے مردم شماری کے بعد ہوں۔ کپتان کا دباؤ اور حکومت کا انکار، سیاسی صورتحال دشوار گزار راستوں سے گزر رہی ہے۔ ایک طرف حالت یہ ہے کہ ”عجیب بات ہے جو روشنی کی دشمن ہے اسی ہَوا کے اشاروں پہ جل رہے ہیں چراغ، جبکہ دوسری طرف حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ ”کل جو کہتا تھا کچھ نہیں ہوتا، اب وہ روتا ہے چپ نہیں ہوتا۔ اسلام آباد میں وزیر اعظم نے بڑوں کو بلا لیا۔ پہلے آرمی چیف سے بند دروازوں کے پیچھے ملاقات کی کیا فیصلے ہوئے کسی کو پتا نہیں، لوگ ٹامک ٹوئیاں ما رہے ہیں۔ بعد میں نواز شریف سے رابطہ کیا گیا انہوں نے سخت جواب دیا۔ لندن میں تپے بیٹھے ہیں نرمی کہاں سے آئے گی۔ شہباز شریف نے آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان کو بلا کر صورتحال سے آگاہ کیا۔ آصف زرداری نرمی اور سہولت سے سیاسی فیصلے کرنے کے عادی ہیں۔ لیکن ان کی ترجمانی پیپلز پارٹی کے اجتماع میں بلاول بھٹو نے سخت لہجہ میں یہ کہہ کر کہ کوئی مقدس گائے نہیں، آئین سپریم ہے سب کے خلاف جہاد ہوگا دو دن بعد مریم نواز نے کھلم کھلا انتخابات کے فیصلے سے اختلاف کیا کہ پہلے انصاف کے ترازو کے دونوں پلڑے برابر کریں پھر انتخابات ہوں گے غور طلب بات۔ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل دائر کردی۔ فل کورٹ کا مطالبہ دہرایا یا مقررہ تاریخ پر انتخابات کرانے سے انکار کردیا۔ معاشی ایمرجنسی نافذ کردی تو کیا ہوگا۔ چیف جسٹس توہین عدالت میں وزیر اعظم کو طلب کریں گے اور ممکنہ طور پر ان کی برطرفی کے احکامات جاری کردیں گے۔ پھر کیا ن لیگ میں سے ہی دوسرا وزیر اعظم آجائے گا۔ انتخابات کہاں ہوں گے۔ اسی دوران آڈیو ویڈیوز نے طوفان کھڑا کر رکھا ہے۔ جن میں فاضل ججوں کے نام بھی آرہے ہیں۔ فواد چوہدری اور ان کے بھائی فیصل چوہدری کی آڈیو پر بھی شور مچا ہے کسی ٹرک کا بھی ذکر کیا گیا۔ ایک سینئر تجزیہ کار نے ٹرک کا معنی بھی بتا دیا کہ یہ لفظ میمن برادری کاروباری معاملات میں استعمال کرتی ہے۔ فیصل چوہدری نے تو اس آڈیو کو ہنس کر ٹال دیا۔ تاہم فواد چوہدری نے اسے جعلی قرار دے کر مسترد کردیا۔ کتنی آڈیو ویڈیو آگئیں۔ حکومت صرف مزے لے رہی ہے کسی کے خلاف اقدام مقصد نہیں۔ ورنہ فارنزک کرا کے متعلقہ افراد کے خلاف کارروائی کی جائے، چوہے بلی کے کھیل سے کپتان کا کچھ نہیں بگڑ رہا۔ البتہ حکومت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ انتخابات میں تاخیر کی ایک اور وجہ ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کی طرف سے متعدد فائلیں کھولنے اور کپتان ان کی اہلیہ اور دیگر رہنماؤں کی طلبی ہے 27 فروری کو کپتان کی جوڈیشل کمپلیکس سمیت چار عدالتوں میں طلبی تھی کپتان نے لاہور ہائیکورٹ والا ڈرامہ دہرایا۔ زخمی ٹانگ کے ساتھ پہلے تو ہوائی جہاز کے ذریعے اسلام آباد آنے کا فیصلہ کیا تاہم بقول خود انہیں اطلاع دی گئی کہ اسلام آبادایئر پورٹ پر اترتے ہی ایف آئی اے انہیں گرفتار کرلے گی۔ اس لیے انہوں نے پھر کارکنوں کے اجلاس میں اسلام آباد روانگی کا فیصلہ کرلیا اور دن بھر موٹر وے پر محو سفر رہے۔ جوڈیشل کمپلیکس میں کارکنوں سمیت داخل ہوئے جنہوں نے گیٹ، سی سی ٹی وی کیمرے اور دیگر املاک تباہ کردیا۔ عدالت نے بڑے آرام سے ضمانت منظور کرلی۔ اسی اثناء میں کپتان کے بڑے وکیل نے کچہری میں سیشن کورٹ میں پیش ہو کر پھلجھڑی چھوڑی کہ کپتان جوڈیشل کمپلیکس میں پیش ہوگئے ہیں۔ وہ یہاں نہیں آسکتے آپ اپنی عدالت جوڈیشل کمپلیکس میں لے جائیں جسٹس (ر) شائق عثمانی کی بات سچ ثابت ہوئی کہ عدالت زمان پارک چلی جائے اف یہ لاڈ پیار ہم تو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے خیر سیشن جج برہم ہوئے اور انہوں نے کپتان کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔ کھلا میدان گھوڑا حاضر مگر رانا ثناء اللہ کپتان کو گرفتار کرنے سے گھبرا رہے ہیں۔ کہنے لگے کوشش کریں گے کہ کپتان کو گرفتار کرلیں۔ واللہ اعلم لوگ کہتے ہیں کہ رانا ثناء اللہ کو چوڑیوں کا تحفہ بھیجنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ کپتان کو اپنی گرفتاری کا مکمل احساس ہے۔ 100 سے زائد مقدمات قائم، وارنٹ گرفتاری جاری۔ اس لیے زمان پارک میں ہیومن شیلڈ کے تحفظ میں بیٹھے ہیں۔ بنی گالہ نہیں آرہے۔ کمال ہے 27 فروری کی پیشی کے چار دن بعد ہی ٹانگ ٹھیک ہوگئی۔ عذر لنگ ختم ہوا مگر واہ ری ہوشیاری اور چالاکی ”زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ آئیں گے کیا“ فورا نیا بیانیہ سامنے لے آئے کہ مجھ پر دوبارہ قاتلانہ حملہ کا منصوبہ بنایا لیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بابر اعوان نے آگے بڑھائی کہ ایک غیر ملکی ایجنسی کو قاتلانہ حملہ کا ٹاسک دیا گیا ہے اس لیے کپتان کو پیشی پر مجبور کرنے کی بجائے ویڈیو لنک پر رابطہ کیا جائے کیا ذہن پایا ہے آنے والے دنوں میں توشہ خانہ کیس، ممنوعہ فنڈنگ کیس میں فرد جرم، ٹیریان کیس، ایف آئی اے میں طلبی، 50 ارب حوالگی کیس سمیت متعدد مقدمات میں طلبی ہے کسی میں بھی گرفتاری ہوسکتی ہے لیکن زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد، کپتان زمان پارک سے دو تہائی اکثریت حاصل کیے بغیر نہیں نکلیں گے۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ انتخابی مہم چلائیں گے کیسے چلائیں گے یہ واضح نہیں گمان غالب ہے کہ وہ ویڈیو لنک پر ہی خطاب کریں گے۔ قصہ مختصر، اسلام آباد میں گزشتہ بدھ کو چار بڑوں کے اجلاس میں سخت فیصلے ہوئے ہیں جن سے لڑائی ختم ہونے کی بجائے بڑھنے کا خطرہ ہے۔ دمادم مست قلندر ہوگا۔ صاحبان اختیار اور صاحبان اقتدار میں لڑائی سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ تاہم کہا جا رہا ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں اداروں میں موجود اور باہر بیٹھے سہولت کار اپنے محبوب کپتان کو سنبھال نہیں پائیں گے۔ ہم کو ان سے وفا کی ہے امید۔ جو نہیں جانتے وفا کیا ہے پرویز الٰہی اور بے شمار دیگر لیڈر ہاتھ ملتے رہ جائیں گے جہاں تک ضمنی انتخابات کا معاملہ ہے سینئر اینکر پرسن اور دیگر تجزیہ کار اب تک کہہ رہے ہیں کہ 30 اپریل کو انتخابات نہیں ہوں گے، واللہ اعلم بالصواب۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.