مرے کو مارے شاہ مدار

5

یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پاکستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ کبھی یہ بحث ہوتی تھی کہ آئی ایم ایف سے قرض لیا جائے یا نہیں۔ اب ہر کوئی یہی کہتا سنا جا رہا ہے کہ قرض لینے کے لئے اس کے پاس جانا تو ہے ہی بلکہ پاکستان چلا گیا ہے مگر اب قرض دینے والا نہیں مان رہا اور سخت شرائط عائد کر رہا ہے۔ اگر اس کی شرائط مان لی جائے تو پوری قوم ہی نہیں تاجر اور بڑے بڑے مالیاتی ادارے شدید متاثر ہوں گے۔ شرائط نہ مانی تو آئی ایم ایف دھیلا نہیں دے گا۔ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ شنید یہ ہے کہ یہ بین الاقوامی ادارہ چاہتا ہے کہ پہلے پاکستان اپنے دوست ممالک سے کچھ رقم مستعار لے تاکہ قرض کی ادائیگی کے لئیے اس کے پاس رقم کی موجودگی کی ضمانت ہو۔ حقائق یہ ہیں کہ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات رقم دینے سے ہچکچا رہے ہیں کہ کہیں ان کی رقم ڈوب نہ جائے کہ پاکستان کی سیاسی حالت تو اتنی مخدوش ہو گئی ہے کہ اب پاکستان کی حکومت سمیت بڑے ادارے پہلوانوں کے اکھاڑے لگ رہے ہیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے چکر میں ہے۔ پہلے یہ ممالک کہتے تھے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کرو پھر ہم تمہاری مدد کریں گے۔
ایک طرف تو آئی ایم ایف سے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور دوسری طرف ریاست کے پاس ریزرو رقم صرف 8 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ اسی لئے پاکستان میں لوگوں کو یہ خدشات ہیں کہ کہیں ملک ڈیفالٹ نہ ہو جائے۔ اپوزیشن تو اپوزیشن اب تو بر سر اقتدار جماعتوں کے وزیر یہ کہنے لگے ہیں کہ ہم ڈیفالٹ ہونے جا رہے ہیں۔ جو ریزرو رقم ہے اس کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے اوپر سے ایک اور ناگہانی خبر آئی ہے کہ ایران کی طرف سے ایک مطالبہ پاکستان کے کئے کسی بھی وقت آ سکتا ہے کہ پاکستان گیس پائپ لائین منصوبے کے حوالے سے 18 ارب ڈالر جرمانہ ادا کرے۔ پارلیمانی اکاو¿نٹیبلٹی کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کو جو رقم پاک ایران گیس پائپ لائین منصوبے کے لئے دئیے گئے تھے وہ منصوبہ وقت پر مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ وہ منصوبہ کیوں مکمل نہ ہو سکا اس کے بارے میں پارلیمانی پارٹی کے اس بیان سے پتہ چل جاتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ سے کہا جائے گا یا شائد کہا بھی جا رہا ہے کہ وہ یا تو جرمانہ ادائیگی کے لئیے رقم فراہم کرے یا پاکستان کو اس مد میں ریلیف فراہم کروائے۔
جو بھی معاملات ہوں۔ دیکھا یہ جا رہا ہے کہ ریزرو تو صرف 8 ارب ڈالر ہے اور ایک پڑوسی ملک کو جرمانے کے طور پر ادائیگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسی کو کہتے ہیں “مرے کو مارے شاہ مدار۔
سوال یہ ہے کہ یہاں تک پہنچنے کی نوبت ہی کیوں آئی؟ کسی بھی ملک میں سیاست اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ سیاسی افراتفری کسی بھی حکومت کو مفلوج کر کے رکھ دیتی ہے اور وہ ملک کے استحکام کے لئے کوئی قدم اٹھا ہی نہیں سکتا جب تک کہ اسے سکون کا سانس لینے کا موقعہ ہی نہ ملے۔ پاکستان میں ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے تو انتخابات ڈھنگ سے منعقد نہیں ہو تے اور اگر ہو جاتے ہیں کِہ دھاندلی کا شور اٹھتا ہے اور اگلے انتخابات تک حکومت کو گرانے کی جدوجہد شروع ہو جاتی ہے۔ حکومت بچانے کے چکر میں وزرا اور محکمے نامناسب حربے استعمال کرنے لگ جاتے ہیں۔ جب زرداری کی جماعت بر سر اقتدار آئی تھی تو دوسرے سال سے ہی افواہوں کا بازار گرم رہتا تھا کہ حکومت اب گئی اور تب گئی۔ پھر جب نواز شریف حکومت میں آئے تو ان کی حکومت گرانے کے لئے سرگرمیاں عروج پر پہنچ گئیں۔ اور وہ بطور وزیر اعظم ایک برس پہلے ہی حکومت سے نکالے گئے۔ جب 2018 میں عمران خان کی پارٹی کو حکومت ملی تو دوسرے ہی سال سے ان کا تختہ الٹنے کی سازشیں شروع ہو گئیں۔ یہ خبر کسی سے اب چھپی نہیں رہی کہ عمران خان کو عسکری اسٹیبلشمنٹ لے کر آئی اور کہا جاتا ہے کہ دو مدتوں کے لئیے لائی مگر ہوا کیا؟ جو لے کر آئے تھے انہوں نے ہی عمران خان کو نکال باہر کیا۔ مزے کی بات ہے کہ جو سیاسی جماعتیں سب سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کے مخالف تھیں وہی ساڑھے تین برس کی جمہوری حکومت کو گرانے کی سازش میں شریک ہوکر وقت سے پہلے بر سر اقتدار آ گئے۔ پاکستان میں سیاسی، معاشی اور سماجی برائیوں نے جڑ پکڑ لیا ہے۔ ایسی بگاڑ آئی ہے کہ اللہ کی پناہ۔ اتنی بد اخلاقی، بد زبانی اور سطحی حرکات ہو رہی ہیں کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ہر طرف آئین آئین کا شور اٹھ رہا ہے مگر عمل اس پر کوئی کرنے کو تیار نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل ایوب خان، یحی خان نے، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف نے سول حکومتیں گرا کر آئین کو توڑا۔ آج یہ حال ہے کہ بر سر اقتدار جماعتوں کے رہنماؤں سمیت اپوزیشن اور دوسرے ادارے سب آئین کے بر خلاف ہی کام کر رہے ہیں بلکہ آئین کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ انتخابات وقت پر نہ کرانا آئین کی صریحاً خلاف ورزی ہے مگر وزرا یہ تعویلیں دیتے نہیں تھکتے ۔حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ آئین میں چونکہ یہ نہیں لکھا کہ مقررہ مدت تک انتخابات نہ ہونے کی صورت میں کیا ہوگا۔ جہاں ابہام ہوتا ہے وہاں عدالت کے پاس جایا جاتا ہے۔ مگر پاکستان ہی میں اب یہ مذاق بھی ہو رہا ہے کہ کھلم کھلا عدالت کے فیصلے کو نہ ماننے کے اعلانات ہو رہے ہیں۔ اب تو عدالتوں میں ججز ایک دوسرے کے مد مقابل آچکے ہیں اور گروپس کی شکل میں ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں۔ ایک اور مضبوط ادارے کی طرف بھی اشارے ہو رہے ہیں کہ وہاں بھی تقسیم کا عمل جاری ہے۔ ایسا اگر ہوگیا تو اس ملک کو کون بچا سکے گا۔

تبصرے بند ہیں.