اقتصادی ترقی کو ترجیح بنائیں

7

اگرچہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی جانب سے دو صوبوں (خیبر پختونخواہ اور پنجاب) میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کروانے کے احکامات تو جاری ہو چکے ہیں لیکن اگر آئینی اور قانونی لحاظ سے دیکھا جائے تو باقی دو صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات بھی کوئی زیادہ دور کی بات نظر نہیں آتے۔
اگر حکومت، الیکشن کمشن آف پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے ادارے معاملات میں الجھاو پیدا نہ کر دیں تو پھر تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں الیکشن کا میلہ سجنے میں اب زیادہ دیر نہیں۔
معاملات کچھ بھی ہوں مجھ جیسے لوگ تو موجودہ حالات میں انتخابات کے انعقاد کو ضروری نہیں گردانتے کیونکہ ہم کسی فرد واحد کی انا کی تسکین کے لیے اپنے ٹیکس کے اربوں روپے خرچ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہاں البتہ الیکشن کی گہما گہمی میں ایک چیز اطمنان کا باعث بھی ہو سکتی ہے کہ اس ساری ایکسرسائز میں عارضی ہی سہی لیکن غریب آدمی کے لیے روزگار اور خوراک کے کا کچھ اچھا بندوبست ہو جائے۔
مجھے تو یہ الیکشن کا عمل شروع سے لے کر آخر تک باقاعدہ ایک ٹوپی ڈرامہ محسوس ہوتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ جوں جوں الیکشن مہم زور پکڑتی ہے ہمارے سیاسی قائدئن،جنہوں نے ویسے تو کبھی اپنے حلقے کے عوام کا حال پوچھا ہو یا نہ پوچھا ہو لیکن الیکشن کے قریب ان کو اپنے حلقے اور اس میں بسنے والے عوام کی یاد ضرور ستانا شروع کر دیتی ہے،کوئی اپنی برادری کو اکٹھا کرنے کے چکر میں پڑ جاتا ہے، کسی کو اپنے غریب رشتہ داراور کسی کو پرانی دوستیوں کا خیال آ جاتا ہے تو کسی کو اپنی جانب سے کی گئی زیادتیوں کی معافی مانگنے کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔غرض ان چند ماہ کے دوران ہماری سیاسی قیادت اپنی تمام تر اکڑ اور تکبر کو بھول کر عوام میں گھل مل جانے کی ایسی نوٹنکی کرتے ہیں کہ آسکر ایواڈ والے بھی سوچ میں پڑ جائیں۔
الیکشن جیتنے کے لیے ہر کو ئی انفرادی اور پارٹی سطح پر عوام کو سبز باغ دیکھا نے کے چکر میں پڑا دیکھائی دیتا ہے۔ کوئی ملک سے غربت اور بےروزگاری کے خاتمے کا دعویدار بنا ہوتا ہے تو کوئی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا فارمولا جیب میں لیے گھوم رہا ہو تا ہے، کوئی کہتا ہے کہ وہ حکومت میں آ کر ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر میں کئی گنا اضافہ کر دے گا تو کوئی چند ہی دنوں میں کرپشن کے خاتمے کا طریقہ کار جانتا ہوتا ہے۔لیکن بار بار دھوکا کھانے کے بعد اب تو عوام کو اتنا سمجھدار تو ہو ہی جانا چاہیے کہ وہ اس بات کو پرکھ سکیں کہ الیکشن سے پہلے کیے جانے والے بڑے بڑے دعوے اور وعدے ایک سراب سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہوتے، الیکشن کا رزلٹ آنے کے بعدہمارے یہ نام نہاد راہنما اپنے وعدوں سمیت اگلے الیکشن تک ایسے غائب ہو جاتے ہیں جیسے کسی میجک شو میں جادو گر کی ٹوپی سے کبوتر غائب ہو جایا کرتاہے۔
دنیا کی اکثر جمہوریتوں میں سیاست صرف پارٹی منشور پر ہی ہو ا کرتی ہے اور الیکشن بھی اسی بنیاد پر لڑے جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں لیڈر ہوں یا عوام کوئی بھی اس چیز کی کوئی اہمیت سے واقف نہیں۔یہاں تو بس لوگ دولت، غندہ گردی، ذات، برادری، خاندان، مذہب اور فرقے کی بنیاد پر منتخب ہوتے ہیں۔ یہاں تو پارٹیوں کے سربراہان سے لے کر عام کارکن تک کوئی بھی پارٹی منشور کو ایک کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ اگر ایسا نہ ہو اور سیاسی پارٹیاں اپنے منشور پر عمل پیرا ہوں تو کیا امر مانع ہے کہ ہمارے ملک بھی سیاسی استحکام اور یہاں کے عوام کی سیاسی سوچ میںپختگی آ جائے۔
ملک میں ہونے والے مجوزہ عام انتخابات کے انعقاد کی صورت میں اصل مقابلہ تو پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ہی ہو گا۔ جبکہ جمعیت علما اسلام، ایم کیو ایم اور اے این پی وغیرہ دوسرے درجے کی جماعتیں خیال کی جائیں گی۔ شائد موجودہ سیاسی سیٹ اپ میں نواز لیگ ہی وہ سیاسی جماعت ہے جس نے عملی طور پر عوام کے لیے کچھ کیا ہے باقی جماعتیں تو الزام تراشی ، بڑھک بازی ، گالی گلوچ ، ہلڑ بازی اور دھونس دھاندلی کی بنیاد پر ہی الیکشن لڑیں گی۔
پاکستان تحریک انصاف کو اگرچہ گزشتہ چند برس میں بھرپور انداز حکومت کرنے کا موقع فراہم کیا گیا تھا اور انہیں ہر سطح پے ہر ممکن سپورٹ بھی فراہم کی گئی لیکن اس کے باوجود ان کی کارکردگی زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ پائی۔ اور اس بات میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ آج بھی عمران خان صاحب اپنی جیب میں متروک قسم کے کھوٹے سکے لیے گھوم رہے ہیں جنہوں نے نہ ماضی میں کچھ کیا اور نہ ہی آئندہ ان سے کوئی توقع کی جا سکتی ہے۔
اس سیاسی ہلچل میں مزے کی بات تو یہ ہے کہ آج کل بڑے بڑے سرکاری افسران اور کاروباری طبقہ سے لے کر ریڑھی بان اور خاک روب تک ہر کوئی سیاسی تجزیہ کار بنا ہوا ہے اور گھروں، دفتروں، تفریحی مقامات، ہوٹلوں اور چائے خانوں غرض ہر جگہ پر صرف سیاست ہی پر گفتگو اور بحث ہو رہی ہے۔ سیاست میں عوام کی یہ دلچسپی خوش آئند ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ لوگ اپنے حقوق کو بھی سمجھیں اور سیاستدانوں کی جانب سے کیے گئے وعدوں کا حساب بھی لیں۔
ابھی توخیر الیکشن میں کچھ وقت ہے تمام ہی سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی سیاسی حکمت عملی بنا رہی ہیں اور اپنی صفیں درست کر رہی ہیں لیکن اس سارے کھیل میں پیپلزپارٹی کا گیم پلان کچھ نرالہ ہی نظر آتا ہے۔ ان کی انتخابی مہم تو ابھی تک صرف اور صرف فیصل میر صاحب کی حد تک ہی محدود ہے۔ لاہور شہر جسے کبھی پیپلز پارٹی کا گڑھ کہا جاتا تھا وہاں اب کی صورتحال یہ ہے کہ ابھی تک کوئی دوسرا امیدوار تک میدان میں نظر نہیں آ رہا۔
عمران خان ، نواز شریف ، آصف زرداری، بلاول زرداری اور شہباز شریف کا بھی فل الحال اس مجوزہ الیکشن مہم میں سرگرمی سے حصہ لینے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا۔ لیکن اگر ایسا ہو بھی تب بھی بلا خوف تردید یہ پیش گوئی تو کی جا سکتی ہے کہ الیکشن ہونے کی صورت میں کوئی بھی پارٹی واضع اکثریت لینے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی اور آنے والے سالوں میںبھی سیاسی استحکام کے بجائے الزام تراشی اور توڑ پھوڑ کی سیاست برقرار رہے گی۔ اور اگر یہی سب کچھ ہوتے رہنا ہے تو ہمارے ٹیکس کے پیسوں میں سے اربوں روپے خرچ کر کے الیکشن جیسا سٹنٹ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بہتر تو یہی ہو گا کہ کچھ تراش خراش کر کے اور کچھ نوک پلک درست کر کے کچھ عرصہ تک موجودہ نظام میں ہی رہتے ہوئے ملک کی اقتصادیات کو بہتر بنانے پر توجہ دی جائے۔

تبصرے بند ہیں.