معاشرے میں تبدیلی کئی طرح سے آتی ہے۔ماضی میں جب بادشاہت کا ادارہ مضبوط تھا تو اقتدار میں آنے والے شاہی خاندان اپنے نظام حکومت کو مستحکم کرنے کے لئے امراء کے طبقے کو اپنا ہم نوا بنا کر اُن کی سر پرستی کرتے تھے۔سلطنت کے عہدیداروں کو اُن کی وفاداری کی بنیاد پہ مقرر کیا جاتا تھا۔یہ میں تاریخی بات کر رہی ہوں اب اس بات کو موجودہ دور کے طرز پہ دیکھیں تو اب بھی یہ بات ٹھیک اُسی طرح ہی سے پورا اترتی دکھائی دے رہی ہے۔آج جمہوریت کا بغور مطالعہ اگر ہم گہرائی سے کرتے ہیں تو ہمیں وہی تاریخی نشانات ہی ملتے ہیں۔وہی چند ایک خاندان ہی ہمیں آج بھی حکمرانی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ آج بھی جمہوریت کا طرز عمل وہی ہے کہ جیسے ہی کوئی جماعت برسر اقتدار آتی ہے تو وہی امراء کا ایک خاص طبقہ جو انہی حکمرانوں کا ہم نوا رہا ہے جب انہی خاندانوں میں سے کوئی بھی برسر اقتدار آتا ہے تو انہی اپنے ہم نواؤں کو ہی نوازا جاتا ہے جسکی وجہ سے جمہوریت پھلنے پھولنے کے بجائے اس نے عام لوگوں کوطبقاتی ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے اس جانب نہ تو کسی کی توجہ ہے اور نہ ہی درستی کی جانب کوئی قدم۔ اس طبقاتی تقسیم میں ہم اس قدر بٹ چُکے ہیں کہ ہمارے ملک کی تباہی کسی بیرونی طاقت کے ہاتھوں نہیں لکھی جو بات ہمارے سیاستدان کہتے چلے آرہے ہیں بلکہ اس تباہی کے ذمہ دار یہی حکمران خاندان جو پچھلے دنوں مریم نواز نے بھی کہا تھا کہ وہ حکمران خاندان سے ہے انہی کے ہاتھوں سے لکھی ہے اور اب پاکستان کی اس معاشی تباہی کو صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی ڈسکس کیا جا رہا ہے۔ اس وقت پاکستان کی موجودہ صورتحال کا میں اگر جائزہ لیتی ہوں تو حالات بد سے بدترین کی جانب جا رہے ہیں۔تشویش اس بات کی ہے کہ عام آدمی کو کیسے دو وقت کی روٹی نصیب ہوگی۔کراچی کی اگر بات کریں تو وہاں ناقص گندم فراہم کی گئی جس کے باعث تمام فلور ملز نے بائیکاٹ کر دیا۔اب یہ کام بھی یہی حکمران ہی کر سکتے ہیں جو عام آدمی کو انسان
کم کو کیڑے مکوڑے زیادہ سمجھتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کو معاشی بدحالی سے نکلنے کے لیے ریزرو 40سے 45بلین ڈالر کم از کم چاہئے ہوں گے اور وہ ضرورت پاکستان کی امریکہ پوری کر سکتا ہے نہ ویسٹ، اور نہ ہی عرب ممالک۔ اگر سعودی عرب مدد بھی کرتا ہے اگر وہ ریزرو رکھنے کے لیے بھی دو یا تین بلین دے دیتے ہیں تو بھی پاکستان کو کم از کم 40سے 45بلین ڈالر ایک سال کے لیے چاہیے ہونگے۔ صورتحال جس سمت جا رہی ہے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان کو صومالیہ بنانے کی مکمل تیاری یہ حکمران کر چُکے ہیں۔ کیا اس جانب ہمارے وزیر خزانہ یا حکومتی سطح پہ کوئی پلاننگ ہے یا نہیں؟ جیسے دو روز پہلے وزیر اعظم شہباز شریف نے سب پاکستانیوں کو درخواست کی کہ آپ سب جھولی اُٹھا کے دعا کریں کہ ڈالر 100روپے کا ہو جائے،تو میں وزیر اعظم صاحب کو کہوں گی تمام پاکستانیوں کو اعتکاف پہ بیٹھا دیجئے آگے رمضان بھی آرہا ہے شاید کسی غریب کی دعا سُنی جائے مگر وزیر اعظم صاحب آپ سب اپنے پیسے کی سپلائی باہر کی جانب بھجواتے جائیے۔ حکمرانی یہاں انویسٹمنٹ باہر،علاج باہر،شادیاں باہر،صرف حکمرانی یہاں۔اسحاق ڈار ایک پنکچر مین آدمی کا بیٹا کھربوں پتی کیسے بنا۔یہاں عوام بھوکوں مر رہی ہے جبکہ ان کے بیٹے مہنگے داموں پینٹنگ خریدتے ہیں احتساب کی فائلیں کھلتی ہیں تو دوڑیں باہر لگتی ہیں۔ پاکستان میں ہمارے حکمرانوں کی انہی حرکتوں کی وجہ سے طبقاتی نظام کو فروغ ملا اور یہ دن بہ دن بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے،شہری آبادیوں کا بڑھنا،دیہاتوں میں بے روزگاری اور معاشی محرومیوں کی وجہ سی نوجوانوں کی بڑی تعداد ملازمت اور اچھے و سنہرے مستقبل کی تلاش میں شہروں کا رخ کرتی ہے۔شہروں میں آنے کے بعد دیہات کی زندگی کا تضاد اچانک انہیں ششدر کرکے رکھ دیتا ہے۔لوگوں کا بڑھتا جم غفیر،بڑھتے مسائل بے روزگاری، بھوک، بیماری، غربت، جس کی وجہ سے لوگوں کا بڑھتا ہوا خو ف و ہراس،لوگوں کی اس وقت حالت کچھ ایسی ہے کہ جیسے ڈوبتا ہوا شخص سہارے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہو۔ پاکستان کو حاصل کرنے کا تو اصل مقصد ہی یہی تھا جہاں بنیاد پرستی نہ ہو،مساوات ہو،اور لوگ ایک دوسرے کے دکھ کو محسوس کرتے ہوئے ایک دوسرے کے لیے جان بھی قربان کرنے سے گریز نہ کریں مگر یہاں دن بہ دن جو صورتحال ہوتی جا رہی ہے یہاں پہلے جاگیر دار پھر اُن کی جگہ سرمایہ داروں نے لی اور سب سے بالا طبقہ سیاستدانوں کا ہے۔ یہاں ہر کوئی مسائل کی بھی بات کرتا ہے، معیشت کی بھی بات ہوتی ہے،عام آدمی انقلاب کے انتظار میں ہے کہ شاید اُن کے لیے کوئی دن سکھ کا آجائے۔جس انقلاب کو پانے کے لیے یہ پی ڈی ایم نکلی ہے یا پی ٹی آئی نکلی ہے تو ان کا نکلنا انقلاب نہیں ہے یہ تو سب اپنے اپنے مفادات کی جنگ کے لیے نکلے ہیں یہ عام آدمی یا اُن کے مسائل کے حل کے لیے نہیں نکلے۔ انقلاب ہمیشہ نیچے سے اوپر کی جانب آتا ہے ہمارے پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں غریب کی پالیسی امیر بناتا ہے،زراعت کی پالیسی ایک صنعتکار بناتا ہے، جس کی وجہ سے ہم بہتری کا تصور نہیں کر پا رہے، جب تک ہم متعلقہ سیکٹر کے لوگوں کو آگے نہیں لائیں گے تبدیلی ممکن نہیں۔ چائنا جو ہم سے بعد میں آزاد ہوا اور آج پوری دنیا میں تیزی سے اپنی اہمیت بنا رہا ہے۔ طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے کے لیے ایک تو چائنا نے اپنی انڈسٹری پہ بے انتہا توجہ دی،دوسرا جو انقلاب آیا چائنا میں جس میں کسانوں کی شرکت تھی،ماؤزے تنگ اور چین کی کمیونسٹ پارٹی نے کسانوں کی تربیت کرکے اُن کو انقلاب کے لیے تیار کیا،گاؤں اور دیہاتوں میں حکومت کے عہدے داروں کو نکال کر قابض شدہ علاقوں میں عوامی حکمرانی قائم کی،جاپانیوں سے جنگیں لڑیں اور آخر میں قوم پرستوں کو شکست دے کر عوامی جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ جس طرح ہمارے ملک میں ایک خاص ٹولہ انقلاب لانے کے لیے نکلتا ہے جو خود عوامی مسائل کو نہیں جانتے اور چند لوگوں کے ریوڑ کو لے کر اپنی سیاسی جاہ و جلال کو دکھانے کے لیے آئے روز سڑکوں پہ آتے ہیں ایسے قومیں بنتی ہیں نہ تو ایسے مسائل حل ہوتے ہیں اور نہ ہی سیاسی استحکام آتا ہے، اور نہ ہی معیشت کی بہتری ہوتی ہے۔ یہ تو بس اپنے اپنے مفادات کی جنگ ہے جس کی آڑ میں معاشی بدحالی اور طبقاتی تقسیم میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔یہ مسائل تبھی حل ہو سکتے ہیں جب عام آدمی جو حقیقی جمہوریت کی پاسداری کرتے ہوئے اہم عہدوں پہ فائز ہو۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.