جاری نظام ناکام ہو چکا؟

20

شہباز شریف کے بارے میں تاثر پایا جاتا تھا کہ وہ بہترین ایڈمنسٹریٹر ہیں۔ منصوبہ سازی کرنے اور پھر اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ تعمیراتی منصوبوں کی تشکیل اور تکمیل کے حوالے سے انہوں نے نیک نامی کمائی پنجاب کو پیرس بنانے کا عزم رکھتے تھے۔ لاہور بہرحال پاکستان کا پیرس بنا کر دکھا دیا۔ تعمیراتی عوامی منصوبوں کی ایک فہرست تھے جو ان کی کامیابیوں کی دلیل ہے بیوروکریسی پر گرفت اور انہیں چلانے کے حوالے سے بھی شہباز شریف اچھی شہرت رکھتے تھے کارآمد و محنتی افسران کے چناؤ اور ان سے کام لینے کے حوالے سے شہباز شریف نے نام بنایا حتیٰ کہ چینی حکام ”شہباز سپیڈ“ کا تذکرہ کرنے لگے۔ شہباز شریف تعمیراتی کاموں کو سرعت کے ساتھ بروقت مکمل کرنے کے حوالے سے خاص شہرت رکھتے تھے۔ انہوں نے پنجاب کے وزیراعلیٰ کے طور پر سی پیک منصوبوں کو جس انداز میں مکمل کرایا وہ انہی کا کارنامہ ہے۔ شہباز شریف کے دور حکمرانی میں حکومت کا وجود محسوس بھی ہوتا تھا اور نظربھی آتا تھا اب تو قذافی سٹیڈیم میں میچ کے باعث پورے شہر کی ٹریفک گڑبڑ ہو جاتی ہے عوام ایک عذاب کا شکار ہو جاتے ہیں کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ شہباز شریف کے دور حکمرانی میں معاملات ایسے نہیں تھے۔ سکیورٹی بھی ہوتی تھی، ٹریفک رواں دواں بھی ہوتی تھی، میچ بھی ہوتا تھا اور عامتہ الناس کے معمولات بھی جاری رہتے تھے۔ لوڈشیڈنگ بھی قابو میں تھی کم از کم عوام کو یہ ضرور پتا ہوتا تھا کہ بجلی کب جائے گی اور کب آئے گی، گیس کب نہیں ہو گی اور کب پریشر پورا ہو گا۔ عوام کو محسوس ہوتا تھا کہ حکومت ہے ان کی دادرسی کے لئے ادارے موجود ہیں۔ لیکن اپریل 2022 سے لے کر اب تک 10 ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ شہباز شریف کہیں نظر نہیں آ رہا ہے بیانات کی حد تک بھی شہباز شریف کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ عوام پر مہنگائی کا سونامی چڑھا ہوا ہے۔ روٹی، نان، سبزی، دال، گوشت، دودھ، دہی، گھی، آٹا، چینی اور دیگر اشیا ضروریہ کی قیمتیں کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ ذخیرہ اندوز خوب نفع اندوزی کر رہے ہیں۔ ریڑھی والے سے لے کر عام پرچون فروش اور بڑے دکاندار تک ہر ایک مافیا کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ صبح قیمتیں اور ہوتی ہیں دوپہر کو کچھ اور اور شام کو نئی قیمتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ حکومتی ادارے، پرائس مجسٹریٹ کہیں دور دور تک کام کرتے نظر نہیں آتے ہیں۔ وہ مارکیٹوں کا چکر لگاتے ہیں لیکن صرف رشوت کا مال و اسباب جمع کرنے کے لئے۔ ایک طرف مہنگائی کا عفریت عوام پر حملہ آور ہے دوسری طرف کرپٹ اہلکار ظالمانہ نظام کی آبیاری کرتے پائے جاتے ہیں۔
عوام کی کہیں شنوائی نہیں ہے لوگ شہباز شریف کے دور گزشتہ کو یاد کرتے ہیں، دہائی دیتے ہیں لیکن شہباز شریف کہیں نظر نہیں آتا ہے۔
اکنامک مینجمنٹ کے حوالے سے اسحاق ڈار ایک مثبت شہرت رکھتے تھے۔ انہوں نے ن لیگی ادوار حکومت میں معیشت کو مثبت انداز میں چلا کر دکھایا۔ عوامی فلاح و بہبود کے بہت سے منصوبے مکمل ہوئے۔ مہنگائی پر بھی قابو رہا، روزگار کے مواقع بھی میسر تھے، ڈالر بھی قابو میں تھا، صنعت و حرفت کا پہیہ مناسب رفتار پر چل رہا تھا۔ اسحاق ڈار عالمی اداروں کے ساتھ بھی معاملات احسن طریقے سے چلاتے تھے، قرضہ بھی لیا جا رہا تھا، امداد بھی مل رہی تھی، اسحاق ڈار کی کارکردگی قابل ستائش تھی۔ اب بھی جب معاشی معاملات دگرگوں ہو رہے تھے۔ عمران خان نے قومی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا تھا اور پی ڈی ایم کی حکومت کے مفتاح اسماعیل معاشی معاملات کی نگرانی پر مامور تھے تو اسحاق ڈار کو تُرپ کے پتے کے طور پر یہاں لایا گیا، ان کے ماضی کے کردار اور کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یہ امید کی جا رہی تھی کہ وہ قومی معیشت کی ڈوبتی نبضوں کو سہارا دیں گے لیکن وہ بھی ٹھس ہو چکے ہیں۔ معاشی معاملات دن بدن بگڑتے ہی چلے جا رہے ہیں۔قدر زر میں گراوٹ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ڈالر ہمارے اعصاب پر سوار ہے ہمارا توازن تجارت ہمارے قابو میں نہیں ہے۔ درآمدات پر روک لگاتے ہیں تو ہماری صنعت مشکلات کا شکار ہونے لگتی ہے۔ برآمدی سیکٹر کی بہتری کا سوچتے ہیں تو ڈالر کے ذخائر خطرناک حد تک گر جاتے ہیں۔ ڈالر کی قیمت 300 روپے تک پہنچنے والی ہے یہ خطرناک بلکہ بہت خطرناک بات ہے۔ شرح سود 20 فیصد تک کر دی گئی ہے سرمایہ کاری صفر ہو چکی ہے اقتصادی نمو کہیں کھو چکی ہے۔ اسحاق ڈار کا وہ جادو جو کبھی سر چڑھ کر بولتا تھا صفر ہو چکا ہے۔ معیشت دیوالیہ ہو چکی ہے۔
ویسے غور کیا جائے تو ایک بات بڑی واضح ہو کر سامنے آتی ہے یہ شہباز شریف یا اسحاق ڈار کی ناکامی کا قصہ نہیں ہے یہاں تو حکومت و ریاست ہی ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے۔ معاشی، سیاسی اور ریاستی نظام مکمل طور پر ناکامی کا شکار ہو چکا ہے ہم یہ طے نہیں کر سکتے ہیں کہ الیکشن کی تاریخ دینا کس ادارے کا کام ہے 90 دنوں میں انتخابات کرانے کے بارے میں آئینی حکم کا ذکر تو بہت سنا جا رہا ہے لیکن عوام نے جن اسمبلیوں کو 5 سال کے لئے منتخب کیا تھا انہیں قبل از وقت توڑنے کے بارے میں کہیں کچھ نہیں کہا سنا جا رہا ہے۔ ہمارا نظام، ہمارا آئین، ہماری ریاست عوام کے اس حق پر ڈاکہ ڈالنے والے اقدام کے بارے میں خاموش کیوں ہے؟ آئینی ادارے بشمول ایوانِ صدر، الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ اور پارلیمان آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ پتا ہی نہیں چل رہا کہ کس ادارے کی کیا حدود ہیں، کسی بھی نظام کو چلانے کے لئے جس نظم و ضبط کی ضرورت ہوتی ہے وہ کہیں گم ہوتا نظر آ رہا ہے بلکہ گم ہو چکا ہے۔ ریاست اپنی عزت بچانے کے لئے کہیں چھپی بیٹھی ہے۔ ریاست کوناکام بنانے والے دندناتے پھر رہے ہیں کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کون کیا کر رہا ہے لیکن ایک بات بڑی وضاحت کے ساتھ سمجھ آ رہی ہے اور وہ ہے نظام کی ناکامی اور ناکارکردگی۔ ہمارا حکومتی و ریاستی نظام ایسے لگتا ہے کہ مکمل طور پر ناکام ہو گیا۔ یہ نظام اشرافیہ کے ہاتھوں میں بازیچہ اطفال بن چکا ہے۔ یہ انہی کے مفادات کے لئے کام کر رہا ہے۔ انہیں فائدہ پہنچانے پر مامور ہے۔ اس نظام کی بہتری ممکن نہیں ہے کیونکہ جنہوں نے بہتری کی سبیل کرنی ہے وہ خود نہیں چاہتے کہ اس میں بہتری آئے وہ تو اس سے ویسے ہی فائدے اٹھا رہے ہیں۔ تبدیلی اور بہتری کی کوئی راہ نظر نہیں آ رہی ہے۔ ہر مثبت شے اپنا وجود کھو چکی ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہو گا اور کیسے ہو گا؟
تاریخی اعتبار سے ایسے حالات میں انارکی اور لاقانونیت ہوتی ہے، خانہ جنگی بھی ہو سکتی ہے، ملک کسی بڑے حادثے یا سانحے کا شکار بھی ہو سکتا ہے کیونکہ جاری نظام کسی طور بھی ڈلیور کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ عوام کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوا چاہتا ہے۔ باقی غیب کا علم تو اللہ کے پاس ہے۔

تبصرے بند ہیں.