ویسے تو ملک میں عام انتخابات کا مطالبہ کوئی نئی چیز نہیں ۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ابھی عام انتخابات کا مرحلہ مکمل بھی نہیں ہوا ہوتا اور الیکشن میں دھاندلی اور نئے انتخابات کا واہ ویلا شروع ہو جاتا ہے ۔ مزے کی بات ہے کہ الیکشن کا مطالبہ صرف وہ سیاسی پارٹیاں کرتی ہیں جو حکومت میں نہ ہوں اور حکومتی پارٹیاں اس سے الٹ موقف اپنائے ہوئے ہوتی ہیں ۔
جیسا کہ ہم نے اپنے ملک کی گزشتہ کچھ ماہ کی سیاست میں دیکھا کہ پہلے پی ڈی ایم اور پاکستان پیپلز پارٹی والے بہت زور و شور سے اس وقت کی حکومت کی ناکامی کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے اور فوری طور پر نئے انتخابات کروانے کا مطالبہ کر تے رہے اور اس وقت کی پاکستان تحریک انصاف حکومت ڈٹ کر اس موقف کی مخالفت کر تی رہی ۔ لیکن جوں ہی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد حکومت بدلی سیاسی پارٹیوں کی پوزیشن اور موقف بھی بدل گئے ۔ اور اب صورتحال یہ ہے کہ چند ماہ پہلے جو فوری طور پر انتخابات کروانے کا مطالبہ کر رہے تھے وہ اب اس کے انعقاد سے فرار کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں اور دوسری پارٹی کبھی احتجاجی تحریکوں کے ذریعے اور کبھی عدالتوں کے ذریعے اپنے تبدیل شدہ موقف پر عملدارآمد کروانے کے لیے کوشاں ہے ۔
سیاسی پارٹیوں کی جادو گریاں تو خیر چلتی ہی رہتی ہیں لیکن دو صوبائی اسمبلیوں ( پنجاب اور خیبر پختونخواہ)کی تحلیل کے بعد ان صوبوں میں باقی ملک سے علیحدہ شیڈول کے تحت انتخابات کروانے کا عمل بطاہر کافی پیچیدہ اور مہنگا معلوم ہوتا ہے ۔ اگرچہ اب تو اس پر عدالت عظمیٰ کے احکامات بھی آ گئے ہیں لیکن پھر بھی وفاقی حکومت، الیکشن کمشن آف پاکستان، صوبائی نگران حکومتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادرے اس معاملہ میں متذبذب نظر آتے ہیں ۔
ویسے اگر تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو شائد دو صوبائی اسمبلیوں کا علیحدہ سے انتخاب نہ صرف ملک میں جاری جمہوری عمل کے تسلسل میں رکاوٹ پیدا کرے بلکہ بعد ازاں انہی علاقوں میں قومی اسمبلی کے انتخابات کے موقع پر شدید قسم کی پیچیدگی بھی پیدا کرے ۔ اگرچہ بعض سیاسی حلقوں اور قانونی ماہرین کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے تقسیم
شدہ فیصلہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اعلان شدہ فیصلہ کے مطابق تین ججوں کا فیصلہ ایک تھا جبکہ دو ججوں نے اس فیصلہ سے اختلاف کیا ۔ لیکن اس کا مطلب یہ تو ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ احکامات کی حکم عدولی ہو ۔ ہاں البتہ نظر ثانی کی اپیل میں اپنے موقف پر اصرار ضرور کیا جا سکتا ہے ۔ ملک میں الیکشن کب ہونے ہیں اور کس فارمولہ کے تحت ہونے ہیں اس کا فیصلہ تو بلاشبہ حکومتیں ، ادارے اور سیاسی پارٹیاں ہی کریں گی لیکن جن باتوں پر فکر مندی اور تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے وہ ان انتخابات پر اٹھنے والے بے پناہ اخراجات اور ملک میں جاری امن و اماں کی صورتحال ہے ۔ ایک ملک جو پہلے ہی دیوالیہ ہونے کی نہج پر ہو اور بہانے بہانے سے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھایا جا رہا ہو ۔ ضمنی بجٹ پیش کر کے حکومتی معاملات کو رواں رکھا گیا ہو وہاں الیکشن پر اربوں روپے کے اخراجات کرنا اس لیے عجیب بات لگتی ہے کہ جس قسم کا ہمارا سیاسی سیٹ اپ ہے اس میں کسی بھی ایک پارٹی کا واضع اکثریت لے لینا تو تقریباً ناممکن سی بات لگتی ہے ۔ اور اگر وہی منقسم مینڈیٹ کے ساتھ سیاسی پارٹیوں کی اقتدار کے لیے کھینچا تانی کے تماشے ہی دیکھنے ہیں تو پھر اس فضول ایکسرسائز کا فائدہ ہی کیا ہے ۔
اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان صاحب کا واضع موقف ہے کہ ملک میں جاری بدترین معاشی بحران کا واحد حل یہ ہے کہ ملک میں فوری طور پر عام انتخابات کروائے جائیں تاکہ نئی منتخب ہونے والی حکومت معیشت کی بحالی اور امن وامان کے قیام کے لیے موثر انداز میں کام کر سکے ۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ یہ تو صرف اسی صورت میں ممکن ہے اگر عمران خان صاحب کی پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے ۔ اگر کسی بھی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا تو پھر یقینی طور پر جوتیوں میں دال بٹنے کا سلسلہ جاری رہے گا ۔ اس کے علاوہ اب تک کی صورتحال کے مطابق خان صاحب اس بات پر تو یقین کیے بیٹھے ہیں کہ اگلی حکومت ان کی ہی بنے گی لیکن اپنی سیاسی روایات کے مطابق کسی بھی قسم کا کوئی سیاسی یا اقتصادی پروگرام دینے سے قاصر ہیں ۔ ماضی میں بھی ہم نے دیکھا کی ان کو ہر طرح کے مواقع اور سیاسی سہولیات بہم پہنچائی گئیں لیکن وہ سوائے مخالفین پر تنقید کرنے اور دھمکیاں دینے کے عوام کی بہبود کے لیے کچھ بھی نہ کر سکے ۔
کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وطن عزیز اس وقت جس سطح کے معاشی و مالی مسائل میں گھر چکا ہے اس میں سے نکلنے کے لیے اب کسی فرد یا کسی ایک سیاسی پارٹی کی صلاحیت کافی نہیں ۔ اس کے لیے اپنے چھوٹے چھوٹے سیاسی مفادات کو پس پشت ڈال کر قومی سطح پر یکجا ہونے کی ضرورت ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر تمام ہی سیاسی پارٹیوں میں سے ذہین ترین اور محب وطن افراد کے علاوہ ملک بھر سے بہترین ٹیکنو کریٹس کو چن کر ایک قومی حکومت تشکیل دی جائے جو ملک کو ایک طویل المدتی اقتصادی پالیسی دے تاکہ اسے موجودہ بحران سے نکلا جا سکے ۔ اس کے علاوہ احتساب کا ایک ایسا شفاف لیکن بے رحم نظام پیش کیا جائے جو تمام ہی سیاسی پارٹیوں کے لیے قابل قبول ہو، تاکہ اگر ماضی کی لوٹ مار کا حساب نہیں بھی ہونا تو کم از کم آنے والے دنوں میں ایک کرپشن فری معاشرہ قائم ہو سکے ۔
تبصرے بند ہیں.