کچھ کتوں کے بارے میں

20

کتوں کی تاریخ کے آثار یقینا ”انسان “ کی تاریخ سے بہت بعد ملتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ کتا پہلاجانور ہے جسے پالتو ہونے کا شرف انسان نے بخشا۔کتے نے ہزاروں سال پہلے بطور چوکیداراپنے آپ کو متعارف کرایا لیکن آہستہ آہستہ” انسان “کمزور اور” کتے“ طاقتور ہوتے چلے گئے ۔اب تو آپ کو شکاری کتوں سے لے کر مداری اور حفاظتی کتوں سے لے کر ریسی کتوں تک ہر فن میں طاق کتے آسانی سے دستیاب ہو جائیں گے۔ انسان صدیوں کے ارتقا کے بعد انسان نہیں رہا لیکن کتے کی یہ اعلیٰ ترین خوبی ہے کہ وہ آج بھی کتا ہی ہے ۔وہ زمانہ تو گزر چکا جب بلھے شاہ کے ”کتے “مالک کادر جوتے کھانے کے بعد بھی نہیں چھوڑتے تھے اور پطرس کے کتے رات گئے بلکہ آثار سحر تک مشاعرہ کیا کرتے تھے ۔ اب تو کتوں نے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے نہ جانے کون کونساروپ دھار لیا ہے کہ کتا ، نیم کتا اور کتا نما میں فرق کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔ یقینا یہ سب کچھ کتوں کے ترقی پسندانہ رجحان کا مرہون منت ہے کیونکہ جنہوں نے کچھ نہ سیکھنے کا تہیہ کر رکھا ہو وہ رجعت پسند ہی رہتے ہیںاور اس حوالے سے دیہاتی کتوںکو بطور ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے۔فیض مرحوم کو بڑی امید تھی کہ اُس کے کتے اپنے مالکوں کی ہڈیاں چبائیں گے لیکن افسوس! صد افسوس کہ وہ ابھی تک ہڈیوں پر ہی پل رہے ہیں۔ کتا جوکبھی صرف کتا تھا اب اپنے ساتھی کتوں کو انسان کی موت مارے جانے کا خوف دلا کر کتوں کی طرح بھاگنے پر مجبور کردیتا ، ایسا ایک کتے کو کراچی میں اپنے ساتھی کتے کو کہتے سنا گیا ہے۔کسی زمانے میں کتے صرف شکار میں مدد کے علاوہ چوکیداری کرنے ،بھونکنے اورکاٹنے کا کام کرتے تھے لیکن اب کتوں نے ایسے ایسے کمال سیکھ لیے ہیں جو انسان کیلئے بھی امر محال ہے ،یقینا ارتقا کا عمل بہت کچھ بدل کر رکھ دیتا ہے۔
ویسے مجھے ہمیشہ اس بات پر حیرت ہوئی کہ افلاطون کتے کے علم کا اس حد تک قائل کیوں تھا کہ وہ اپنے فلسفی بادشاہ میں بھی کتے جیسی خصوصیات کا تمنائی تھا ۔اُس کے خیا ل میں کتے ہر فیصلہ علم کی بنیاد پر کرتے ہیں ۔یعنی کتا جن کو جانتا ہے اُن پر نہیں بھونکتا اور جاننا علم ہے افلاطون اگر آج زندہ ہوتا تو کبھی اپنے فلسفی بادشاہ میں کتے کی اس خوبی کو شامل نہ کرتا کیوں کہ آج کتے جس کو جانتے ہیں اُسی پر بھونکتے ہیں یعنی فیصلہ کتے آج بھی علم کی بنیاد پر ہی کرتے ہیں لیکن نتائج افلاطون کے کتوں سے مختلف فراہم کرتے ہیں ۔میری کبھی کتوں سے دوستی یا دشمنی نہیں رہی کہ ہر دو صورتوں میں یہ کتے ہی ثابت ہوتے ہیں ۔سو میں نے ہمیشہ اِ ن کو دور ہی سے اچھا یا بُرا جاناالبتہ کچھ آوارہ کتوں کو بطور ہمدردی اگر کبھی کچھ ڈال دیا تو یہ واقف کار ضرور بن گئے لیکن آخر کار خمیازہ مجھے ہی بھگتنا پڑا۔چونکہ میں کتوں بارے بہت زیادہ معلومات نہیں رکھتا تھا اور دوسرا جن لوگوں کو کتے پالنے کا شوق ہے وہ بھی حسبی نسبی کتے پالتے ہیں۔ سو آوارہ کتوں بارے اُن کی معلومات بھی انتہائی کم یا ناقص ہی ثابت ہوئیں سو مجھے ان آواہ کتوں سے پیچھا چھڑانے کیلئے خود وہ رستہ بدلنا پڑا ورنہ وہ تو گھر تک چھوڑنے چلے آتے تھے اور اکثر محلے دار میری اس یکطرفہ دوستی کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے اور میں بھی تکلف کا مارا ہمیشہ چپ رہنے میں ہی بھلائی سمجھتا اب کتوں سے دوستی کی تردید یا تصدیق دونوں ہی کوئی قابلِ عزت افعال تو نہیں تھے ۔
میرے لیے یہ بات ہمیشہ حیر ت کا باعث رہی کہ کتوں کو کبھی ابلاغ کا کوئی مسئلہ آپس میں پیش نہیںآیا۔آپ ایشیا کے کتے کو امریکہ لے جائیں یا افریقا کا کتا آسٹریلیا  وہ ایک دوسرے کو دیکھتے ساتھ ہی گفتگو شروع کردیں گے ۔معلو م پڑتا ہے کہ دنیا کے تمام کتوں کا ”فریم آف ریفرنس“ ایک جیسا ہوتا ہے ۔انسان بھانت بھانت کی بولیا ں بولتے ہیں لیکن انسانی ذہن میں گلوبلائزیشن کا تصور آنے سے بھی ہزاروں سال پہلے کتوں کی زبان گلوبلائز ہو چکی تھی۔میرے نزدیک تو کتا ہونا انتہائی بدنصیبی ہے لیکن غریب کتے امیر کتوں کو دیکھ کر انہیں ضرور خوش قسمت تصور کرتے ہوں گے ۔اب ایسا ایک کتا ہی دوسرے کتے کے بارے میں سوچ سکتا ہے ورنہ میں نے زندگی میں لاتعداد ایسے انسان دیکھتے ہیں جو امیر لوگوں کو بدقسمت تصور کرتے ہیں لیکن کتے ایسا نہیں سوچتے ۔شاید کتوں کے پاس صرف جاننے کا علم ہوتا ہے سوچنے کا نہیں !
کتے خرگوش سے لے کر سور تک ہر جانور کا شکار کرتے ہیں بلکہ کتوں کی فیملی سے تعلق رکھنے والے لگڑبھگڑ تو شیر سے بھی اُس کا شکار چھین کر لے جاتے ہیں شاید اسی لیے اُن کو کتوں میں شمار نہیں کیا جاتا یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے چونکہ کسی لگڑبھگڑ کے گلے میں غلامی کا پٹا نہیں ہوتا اس وجہ سے اُسے کتوں سے الگ کردیا گیا ہے۔ میں یہ بات نہیں سمجھ پایا کہ کتوںنے آج تک آزادی کا مطالبہ کیوں نہیں کیا  کہیں ایسا تو نہیں کہ غلام (پالتو)کتے آزاد (آوارہ)کتوں کے فاقے اور میونسپل کمیٹی کے ہاتھوں اُن کی ہلاکتیں دیکھ کر ہی آزادی کے مطالبہ سے دستبردار ہوجاتے ہوں کہ موت کا خوف تو انسانوں کو بڑے بڑے کاموں سے روک دیتا ہے مگر ممکن ہے کہ اگر سب کتے آزاد ہو جائیں تو اُن کو بھوک کا مسئلہ کبھی درپیش نہ آئے کیونکہ اُن کی خوراک پر تو غلام(پالتو)کتوں کا آقا ہی قابض ہے اور یہ غلام (پالتو)کتے ہی تو ہیں جو اپنے آقا کی ہر شے کی حفاظت کرتے ہیں۔پس ثابت ہوا کہ کتوں کی آزادی کے رستے میں بھی کتے ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
آوارہ کتوں کے خلاف ختم ہونے والی ہر مہم کے اعلان کے ساتھ ہی نہ جانے یہ آوارہ کتے کہاں کہاں سے نکل آتے ہیں۔میں نے راتوں کو جاگ کر اس راز کا سراغ لگانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا ۔مگر میرا خیال ہے کہ مہم شروع ہونے سے پہلے ہی انہیں مطلع کرنے کے ساتھ ساتھ محفوظ مقام بھی فراہم کردیا جاتا ہے اور مہم کے خاتمے کی اطلاع بھی سب سے پہلے انہی کو دی جاتی ہے۔ہو نہ ہو یہ کام میونسپل کمیٹی کی کتا مار مہم میں موجود کتوں کے مخبر سرانجام دیتے ہوں گے کیونکہ ان کتوں کی موجودگی سے اُن کا رزق وابستہ ہے ۔کسی زمانے میں کتوں کو کچلا دے کر ہلاک کیا جاتا تھا لیکن اب کچھ دہائیوں سے ہمارے معاشرے میں شدت پسندی اوردہشت گردی میں اضافے کی وجہ سے یہ کام بھی بارودی گولی سے لیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود آوارہ کتے ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتے لیکن اس سے تو یہ نتیجہ بھی نکالا جا سکتا ہے کہ گولی اور بندوق سے تو کتوں کو بھی ختم نہیں کیا جا سکتا ۔

اک زمانہ تھا کہ کتے اور قصائی کا آپس میں گہرا تعلق تھا لیکن بُری معیشت نے صدیوں پرانے اس رشتے کو بھی ختم کردیا ہے ۔اب آوارہ کتے قصائی کی دکان کے اردگرد اور پھٹے کے نیچے دکھائی نہیں دیتے جو کبھی اُ ن کا مستقل مسکن ہوا کرتا تھا لیکن اکادکا صابر کتا اب بھی نظرآ جاتا ہے لیکن اُن کے پیش ِ نظر شاید اپنا رزق نہیں پرانے رشتے کی لاج رکھنا ہوتا ہے ورنہ اب تو چھیچھڑے اور ہڈیاں ”انسانوں“کو بھی کھانے اورچبانے کیلئے دستیاب نہیں رہیں ۔قصائی او ر کتے کے ختم ہوتے ہوئے اس رشتے نے اُس ندی کو بھی ختم کردیا ہے جس کے پل پر چوراور لالچی کتوں کو اپنے کیے کی سزا مل جایا کرتی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف میں میرے ایک انتہائی محترم دوست نے تقریر کرتے ہوئے ایک بار کہاتھا کہ کسی دانشور کا قول ہے کہ ”کتوں کا ریوڑ نہیں ہوتا“۔ میں نے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ ”کتو ں کا ریوڑ ہوتا ہے جناب“کہ وہ مجھ سے ناراض ہو گئے اس کی وجہ میں ابھی تک نہیں سمجھ پایا کہ اس میں ناراض ہونے وائی کونسی بات تھی؟ اگر وہ مجھ سے بات کر لیتے تومیں دنیا کے جن ممالک میں کتوں کے ریو ڑ ہوتے ہیں  اُنکے حوالے دے کر اپنی بات سمجھا سکتا تھا لیکن انہوں نے سمجھنا نہیں چاہا اورمیں نے بھی سوچا اب کتوں کے بارے میں کیا سمجھاﺅںکہ میں بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتا کہ کتوں کے ریوڑ ہوتے ہیں  صرف دیکھنے والی آنکھ ہونی چاہیے۔
بزرگوں سے سنا تھا کہ کتا جہاں بیٹھتا ہے پہلے جگہ کو صاف کرتا ہے لیکن میں نے اپنی ہوش میں ایسے لاتعداد کتے دیکھے ہیں جو جگہ کوصاف کیے بغیر ہی بیٹھ جاتے ہیں ۔البتہ اُن کی ”صفائی “ کے قصے لوگوں کی زبانی ضرورسن چکا ہوں۔ یورپ میں اکثر کتوں کی وجہ سے خواتین خاوند سے طلاق لے لیتی ہیں  اُس ترقی یافتہ معاشرے کی یہ خوبی میری سمجھ میں نہیں آئی لیکن میں اسے سمجھنا چاہتا ضرورہوں۔آج کل تحریک انصاف کے دوست فیس بک پر دوتصاویر جوڑ کر لگا رہے ہیں۔ ایک میں جنا ب قائد اعظم محمد علی جناح اپنے پالتو کتوں کے ساتھ تشریف فرما ہیں جبکہ دوسری تصویر میں ”یونانی دیوتاﺅں“ جیسا عمران اپنے پسندیدہ کتے کے ساتھ کسی سوئمنگ پول کے پاس بیٹھا ہے۔یقینا دوست لوگ اس سے قائد اعظم اور عمران خان کے مشترکہ شوق کو نمایاں کرنا چاہتے ہو ں گے لیکن میں صرف یہ عرض کردوں کہ بڑے لوگوں کو ہمیشہ ”کتے “پالنے کا شوق ہوتا ہے اس میں یکسانیت نہیں مشترکہ شوق کی بات ہے ۔

تبصرے بند ہیں.