زندگی بھی جوئے کی بازی ہے لیکن یہ بازی انسان سب سے آخر میں کھیلنے کے لیے بچا کے رکھتا ہے۔ جب رشتے ناتے آرام و سکون اور مال و دولت اور با عزت زندہ رہنے کی امید سارا کچھ ختم ہو جائے تو آخر میں جو کچھ بچ رہتا ہے وہ انسان کی اپنی جان ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ انسان اچھے دنوں کی امید پر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ لیتا ہے کہ یا آر یاپار۔ اگر بچ گئے تو عزت سے جئیں گے اور اگر مر گئے تو ذلت کی زندگی سے جان چھوٹ جائے گی۔ اٹلی کے ساحل سمندر پر پڑی 65 لاشیں اس کا ثبوت ہے یہ سارے وہ لوگ تھے جو اپنے اپنے وطن میں اپنا سب کچھ کھونے کے بعد خوشحال زندگی کیلئے یورپ پہنچ کر نئے دور کا آغاز کرنے کے متمنی تھے جس میں پاکستان افغانستان ایران جیسے ممالک کے تارکین وطن شامل تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کو غیر قانونی طور پر اٹلی کے ساحل پر اتارنے کیلئے جو کشتی بان تھے وہ دونوں پاکستانی تھے جنہوں نے فی کس 8 ہزار ڈالر یعنی 12-13 لاکھ روپے وصول کیے تھے۔ یہ روٹ زیادہ تر پاکستانی استعمال کرتے ہیں جو پنجاب سے کوئٹہ کے راستے ایران میں داخل ہوتے ہیں۔ ایران سے ترکی جاتے ہیں اور استنبول سے آگے لانچوں میں اندھیرے میں سفر کرتے ہیں۔
مگر وطن عزیز میں اس طرح کے واقعات کے سدباب سوچنے کا وقت کس کے پاس ہے یقینا یہی کہا جائے گا کہ یہ لوگ غیر قانونی طور پر بغیر ویزا اور سفری دستاویزات کے کیوں سفر کر رہے تھے اس کی سماجی و معاشی وجوہات کو کوئی نہیں دیکھتا۔ ملک اس وقت ایک نہیں کئی بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو چکے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان سے جنگ بندی معاہدہ کے خاتمے کے بعد ملک میں دہشت گردی کارروائیوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو چکا ہے۔ مہنگائی اور افراط زر نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے ملک میں اس وقت بہت بڑے آئینی بحران کی کیفیت ہے اور یہ سلسلہ گزشتہ ایک سال سے جاری ہے کہ ملک کے حکمران اور اپوزیشن دونوں نے نظام کو نہ چلنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ عدلیہ کے پاس اس وقت زیر التواءمقدمات سننے کی فرصت نہیں اس کا سارے کاسارا وقت سیاسی اور آئینی مقدمات کی سماعت میں ضائع ہو رہا ہے۔
میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ مریض کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو جتنا تاخیر سے علاج ہو گا بیماری اتنی ہی بڑھ چکی ہو گی اور علاج اتنا ہی مشکل ہو گا اور کامیابی کے امکانات اتنے ہی کم ہوں گے۔ یہ بات صرف صحت تک محدود نہیں ملکی معیشت کا بھی یہی اصول ہے کہ Delays are dangerous یعنی تاخیر خطرناک ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کووڈ 2019ءاور پھر اس کے بعد 2022ءکو روس یوکرائن جنگ کے نتیجے میں دنیا بھر کی معیشتوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ جس میں سری لنکا کو دیوالیہ ہونا پڑا اس کی وجہ یہ تھی کہ سری لنکا کی معیشت میں سیاحت سے ہونے والی آمدنی رک گئی اور ملک کے پاس پٹرول خریدنے کے پیسے نہیں تھے ایشیا میں سری لنکا بنگلہ دیش اور پاکستان تین ایسے ملک تھے جن کو آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا۔
موجودہ حکومت اپنے سیاسی و آئینی مسائل میں اس قدر گھر چکی ہے کہ وہ ہر حال میں الیکشن کروانے کے آئینی فریضے سے فرار چاہتی ہے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ گزشتہ ایک سال میں ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ملکی معیشت اور عوام کی حالت زار اس درجے پر پہنچ چکی ہے کہ عوام کسی صورت انہیں دوبارہ منتخب نہیں کریں گے۔اس لیے حکومت الیکشن روکنے کا ہر حربہ استعمال کررہی ہے اس اثنا ءمیں راجن پور کے ضمنی الیکشن میں حکومتی امیدوار کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ قومی سطح پر عوامی رائے کا تاثر تقریباً راجن پور والا ہی ہے، لیکن حکومت کے حالات کی سنگینی میں عمران خان والی غلطی کی جس کا نقصان پاکستان کو ہوا۔ اگر آئی ایم ایف سے سٹاف لیول معاہدے میں اتنی تاخیر نہ ہوتی تو شاید نومبر سے اب تک حالات میں کچھ بہتری آجاتی۔ پی ڈی ایم نے گزشتہ گیارہ ماہ کے اندر سوائے اپنی حکومت بچانے کی تگ و دو کے کچھ نہیں کیا۔
ہم گزشتہ تیس سال سے ملک میںStructural Reform کا شور سن رہے ہیں کہ ملک کے معاشی ڈھانچے کو از سر نو تعمیر کیا جائے لیکن آج تک اس کی پہلی اینٹ بھی نہیں رکھی گئی ہر حکومت اپنا ٹائم پاس کرنے کے علاوہ کسی چیز میں سنجیدہ نہیں اس گناہ میں تمام سیاسی جماعتوں کی حکومتیں شامل ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک کو بچانے کے لیے اگر آپ بنیادی ڈھانچہ میں تبدیل نہیں کرسکتے جو ایک مشکل کام ہے تو کم از کم موجودہ سیٹ اپ کے اندر 2-3شعبوں کو بھی درست کرلیں تو ملک تباہی سے بچ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر سب سے پہلے زرعی شعبے پر توجہ دیں یہ وہ شعبہ ہے جو گندم ایکسپورٹ کیا کرتا تھا اس کی حالت پر توجہ دی جائے تو خوراک کی قلت اور Food inflationسے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ زرعی شعبے کی بحالی سے ہماری انڈسٹری کو خام مال حاصل ہوتا ہے جب زراعت بہتر ہوگی تو ٹیکسٹائل کا شعبہ خود بخود ترقی کرلے گاجو ہماری ایکسپورٹ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اسی طرح اوورسیز پاکستانی کمیونٹی ہمارے لئے زرمبادلہ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور زراعت اور انڈسٹری کی طرح ان کی ترسیلات زر میں بھی کمی نظر آ رہی ہے اس طبقے کو اعتماد میں لیا جائے اور انہیں اپنی بچت وطن بھیجنے کی ترغیب دی جائے تو بحران میں کمی آسکتی ہے۔
اس وقت ایک حکومتی وزیر خواجہ آصف کی اسمبلی کے فلور پر تقریر سب کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ خواجہ صاحب نے فرمایا کہ انہیں چودھری پرویز الٰہی نے بتایا کہ وہ ایک سینئر بیورو کریٹ کی بیٹی کی شادی میں شرکت کیلئے گئے تو جو بندہ شادی کی سلامیاں اکٹھی کررہا تھا وہ ان کا جاننے والا تھا وہ ایک تھیلا لے کر آتا تھا جب تھیلا بھر جاتا تھا تو نیا تھیلا لایا جاتا تھا ۔ پرویز الٰہی نے بتایا کہ انہوں نے سلامی کی رقم اکٹھی کرنے والے سے پوچھا کہ کتنے پیسے اکٹھے ہوئے ہیں تو اس نے جواب دیا کہ اب تک 72کروڑ جمع ہوچکا ہے اور تقریب ابھی جاری ہے اس موقع پر خواجہ آصف نے بتایا کہ گزشتہ سال اسی بیوروکریٹ کے بیٹے کی شادی پر ایک ارب 20کروڑ روپے اکٹھے ہوئے تھے۔
ترکی میں زلزلے کے موقع پر صدر طیب اردگان نے اپنے تمام کے تمام اثاثے متاثرین کو عطیہ کردیئے ہیں جو کہ قربانی کی ایک بہترین مثال ہے مگر پاکستان میں اس طرح کی مثالیں ڈھونڈ نا مشکل کام ہے۔ ان باتوں پر غور کریں تو ہم سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ پاکستان ایسے ہی ڈیفالٹ نہیں ہورہا اس کے پیچھے کئی دہائیوں کی لوٹ مار شامل ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.