پیشہ نہیں زندگی سے پیار کریں

8

ملک میں جاری معاشی اور انرجی بحران کے پیش نظر حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ دکانیں رات ساڑھے آٹھ بجے بند کر دی جائیں۔ میں نے دل ہی دل میں اس فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ لیکن ہماری تاجر برادری اس فیصلے سے ناخوش ہے۔ وہ کسی صورت بھی رات 11 بجے سے پہلے دکانیں بند کر نے کو تیار نہیں۔ حکومتی فیصلے اور تاجروں کی ضد نے ایک عجیب صورتحال پیدا کردی ہے۔ اس دوران میرے ذہن میں شیخ صاحب کا خیال جانے کہاں سے آگیا۔ شیخ صاحب میرے بہت پرانے واقف ہیں۔ میں انھیں گزشتہ 25 برس سے جانتا ہوں۔ان کی لنک روڈ پر کپڑے کی بہت بڑی دکان ہے۔ میں ہمیشہ اپنے اور اپنے بچوں کے کپڑوں کی خریداری انھی سے کرتا ہوں۔ اگر کبھی کچھ نیا کپڑا آئے تو شیخ صاحب مجھے فو ن کردیتے ہیں کہ آپ کے مطلب کی چیز آئی ہے۔ شیخ صاحب ہمیشہ ایک دائمی مسکراہٹ کے ساتھ ملتے ۔ سردیوں میں چائے اور گرمیوں میں ٹھنڈی بوتل کے بنا نہیں جانے دیتے۔ پچھلے دنوں اچانک کچھ کپڑوں کی خریداری کرنے جانا ہوا تو پہلی بار ایسا ہوں کہ شیخ صاحب موجود نہیں تھے۔ پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ شیخ صاحب شدید بیمار ہیں۔ میں ان کے ملازموں سے ایڈریس لے کر ان سے ملنا چلا گیا۔ میں شیخ صاحب سے ملنے گھر پہنچا تو انھیں بستر سے لگا پایا۔ چہرے سے رونق ختم ہو چکی تھی۔ بہت کمزور اور نحیف۔ میں نے شیخ صاحب سے پوچھا کہ آپ نے ساری زندگی محنت کی۔اتنا بڑا کاروبار بنایا۔ یہ اچانک کیا ہو گیا آپ کو۔ شیخ صاحب کی آنکھ سے آنسو کاایک قطرہ نکلا۔ مجھے لگا کہ میں نے کچھ غلط پوچھ لیا ہے میں صبح سے پہلے دکان پر آتا اور سب سے آخر میں دکان بند کرتا۔ اتوار کو بھی دکان کھول لیتا چلو کچھ اور پیسے کما لوں۔ میں کیش کاؤنٹر پر خود بیٹھتا تھا۔ یہاں تک کہ حاجت کے لئے بھی مشکل سے جاتا۔ بیٹھ بیٹھ کر پتہ نہیں چلا میں گردوں کا مریض بن گیا، موٹاپے سمیت کئی بیماریوں نے گھیر لیا۔ ڈاکٹر نے آرام کرنے کا کہا میں نے نہ سنا۔ آج گردوں نے کا م کرنا چھوڑ دیا تو میں
بستر سے آلگا ہوں۔ شیخ صاحب نے کہا کہ مجھے اب احساس ہو رہا ہے کہ میں نے اپنے بچوں کو وقت نہیں دیا۔ ان کا بچپن اور جوانی نہیں دیکھی۔ میں دن رات کاروبار میں لگا رہا۔ مجھے اب شدت سے احساس ہو رہا ہے۔ میں ان کے ساتھ کھیل نہیں سکا۔ ان کی تربیت نہیں کر سکا۔ بیٹی نے پسند کی شادی کی آج واپس گھر آچکی ہے۔ بیٹا بری صحبت میں پڑ کر نشے کا عادی بن گیا ہے۔ میں نے زندگی کے سب سے قیمتی لمحے پیسہ کمانے کے چکر میں ضائع کر دیئے۔ جس اولاد کے سکھ کے لئے شیخ صاحب نے پوری زندگی داو¿ پر لگا دی۔ وہ اسے سنوار نہ سکے۔ پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ شیخ صاحب بولتے گئے میں سنتا گیا۔میں اپنے بوڑھے والدین کو وقت نہ دے سکا۔ میرے والد بیمار تھے ان کی خواہش رہتی تھی کہ میں زیادہ دیر ان کے پاس بیٹھوں۔ یہ کہہ کر شیخ صاحب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ آنکھیں پونچھ کر بولے میں نے اپنے گھر کے خوبصورت لان کو اس بیماری کے دوران شیشے کی کھڑکی سے دیکھا ہے۔ میرے باتھ روم میں سٹیمر لگا ہوا ہے لیکن میں اس کو کبھی انجوائے نہیں کر سکا۔ پیسہ ہونے کے باوجود میں کبھی پاکستان کے شمالی علاقوں کا حسن نہیں دیکھ سکا۔ بیوی کی کوششوں سے صرف ایک بار حج کرنے گیا۔ زندگی گھر اور دکان کے درمیان گزار دی۔ شیخ صاحب نے میرا ہاتھ تھاما اوربولے زندگی پیسے کے پیچھے دوڑنے میں ضائع نہ کریں ۔اپنوں کو وقت دیں ورنہ میری طرح پچھتائیں گے۔ یہ پیسہ کام نہیں آئے گا۔ شیخ صاحب کی آنکھوں میں حسرتوں کا دریا بہہ رہا تھا۔کچھ دنوں بعد پتہ چلا کہ شیخ صاحب فوت ہو گئے ہیں ،دل بہت دکھی ہوا۔میں کئی سال پہلے آسٹریلیا گیا تو وہاں میں نے دیکھا کہ دکانیں شام پانچ بجے ہی بند ہو جاتی ہیں۔ وہاں میرے میزبان چوہدری خالد کا بھائی آسٹریلیا میں ایک سٹور چلاتا تھا۔ وہ شام 5 بجے سٹور بند کرتے اور ٹھیک 6 بجے گھر آجاتے۔ گھر آکر پوتوں کے ساتھ فٹ بال کھیلنا ، بیڈمنٹن کے ایک باری لگانا۔ میرے میزبان چوہدری خالد صاحب کی عمر تقریباً 75 سال تھی لیکن دیکھنے میں 50 یا 55 سے زیادہ کے نہیں لگتے تھے۔ میں نے ان کی عمدہ صحت کی وجہ پوچھی تو بولے یہاں کا لائف سٹائل آپ کو بوڑھا نہیں ہونے دیتا۔ ہم شام کا وقت اپنی فیملی ، واک اورخوش گپیوں میں گزارتے ہیں۔ امریکہ، یورپ ، برطانیہ ، آسٹریلیا ہم سے کیوں آگے ہیں۔ وہ زندگی کی قدر کرنا جانتے ہیں۔ زندگی صرف پیسہ کمانے کا نام نہیں بلکہ زندگی جینے کا نام ہے۔ سوچوں کے دائرے گھما کر پھر اپنے ماحول کی جانب لے آئے۔ میں سوچ رہا تھا کہ کہ یہ تاجر تنظیمیں شام کو جلدی دکانیں بند کرنے پر کیوں اعتراض کر رہی ہیں۔ انھیں تو خوش ہونا چاہئے۔ انھیں اپنی فیملی کے ساتھ کوالٹی ٹائم گزار نے کا موقع ملے گا۔ ہم یہ کیوں کہتے ہیں کہ ہمارا گاہک صرف رات کو ہی آتا ہے۔ ہم کیوں16 گھنٹے بیٹھ کر گاہک کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اگر ہم وہی آٹھ گھنٹے کے لئے کاروبار کھولیں تو کسٹمر نے اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے آنا ہی آنا ہے۔ اگر دکانیں شام کو 4 بجے بھی بند کر دیں تو جس کو جو چاہئے وہ ضرور خریدے گا۔ اگر ایک ٹائم پر دکانیں کھلیں اورایک وقت پر بند ہوں تو گاہک اپنی خریداری کا ٹائم خود بنا لے گا۔ میں دعوے سے کہتا ہوں آپ کی سیلز میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن آپ کو شکر ادا کرنا چاہیے کہ دکانیں جلدی بند کرنے کے حکومتی فیصلے سے آپ کو زندگی کی طرف لوٹنے کا موقع ملا ہے۔ وقت پر کھانا کھائیں۔ واک کریں۔ بچوں سے روزانہ گپ لگائیں۔ دوستوں اور رشتہ داروں سے ملیں۔آپ دیکھیں گے آپ ہر طرح کے ڈپریشن سے باہر آجا ئیں گے۔ مجھے کئی بار چائنہ جانے کا اتفاق ہوا ہے۔میں نے وہاں شام کو پارک بھرے دیکھے۔ بچے بڑے بوڑھے سب کھیل کود میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ہم نے اپنی زندگیوں کو خود جہنم بنا دیا ہے۔ ہمارے پارک خالی اور ہسپتال بھرے ہوئے ہیں۔ حکومت کو چاہئے تمام تاجر تنظیموں کو اعتماد میں لے کر دن کی روشنی کا زیادہ استعمال کرے۔ شام کو مستقل طور پر دکانیں اور ہر طرح کے کاروبار جلدی بند کرنے کو یقینی بنائے۔ آپ دیکھیں گے کہ ہماری معیشت اور لائف سٹائل دونوں تندرست و توانا ہو جائیں گے۔ یاد رکھیں سفر کا مزا لینا ہو تو سامان کم رکھیں اور زندگی کا مزا لینا ہے تو اثاثے کم رکھیں۔

تبصرے بند ہیں.