میں ایک عجیب بے ہنگم اور بے سروپا معاشرے کا رہنے والا ہوں ،اس میں انسانی نفسیات ہی الٹ ہو چکی ہیں، جس میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ میری سڑکیں، میرے بازار، میرے سکول اور میرے ہسپتال ہر جگہ بدنظمی ہے۔ اگر میں وزیراعلیٰ ہوتا تو سب سے پہلے اپنی سڑکوں اور بازاروں کو درست کرتا کہ یہ کسی بھی شہر اور علاقے کا چہرہ ہوتے ہیں۔ میں کسی بھی بازار میں جاتا ہوں تو مجھے تجاوزات ہی تجاوزات ملتی ہیں اوراگر انہیں ہٹانے کی بات کی جائے تو کہا جاتا ہے کہ غریب بے روزگار ہوجائے گا۔ میں دیکھتا ہوں کہ مصروف ترین بازاروں میں ہمارے دکانداروں نے اپنی دکانیں خالی چھوڑی ہوئی ہیں اور پانچ سے بیس، پچیس فٹ باہر تک اپنا سامان سجا رکھا ہے۔میں وزیراعلیٰ ہوتا تو سب سے پہلے حکم دیتا کہ کاروبار صرف اور صرف دکان کے اندر ہو گا۔ دکان کے باہر رکھی اور پڑی ہوئی کوئی بھی شے بحق سرکار ضبط کر لی جائے گی۔ جن دکانوں کے سامنے سٹال لگانے کی گنجائش ہوگی اس کی نشاندہی لوکل گورنمنٹ کرے گی اوراس کا کرایہ مکمل طور پر دکاندار نہیں لے گا ۔ ہر بازارمیں پارکنگ کی جگہ ہوگی اور ہر وہ بازار جس کی چوڑائی بیس فٹ سے کم ہو گی اس میں گاڑیوں یا موٹرسائیکلوں کا داخلہ منع ہو گا۔ ہربازار میں لازمی طو رپر مردوں اور خواتین کے لئے ٹوائلٹس ہوں گے۔ بیٹھنے کے لئے بینچ ہوں گے اور نماز پڑھنے کے لئے جگہ مختص ہوگی۔
اب سوال یہ ہے کہ حکومتی مشینری تو محدود ہے وہ ہربازار میں ان تمام چیزوں کو کیسے ممکن بنائے گی تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر وہ مارکیٹ یا بازار جس میں دکانوں کی تعداد پچیس کے لگ بھگ ہوگی اس کی لازمی طو ر پر ایک ایڈمنسٹریٹو باڈی ہو گی جو منتخب انجمن تاجران کی صورت میں ہوسکتی ہے۔ قانون کے تحت ہر بازار میں یونین کے انتخابات لازمی ہوں گے جن میں ہر دکان کے مالک کا خود کاروبار کرنے کی صورت یا کرائے دار کا ایک ووٹ ہو گا۔ یہ منتخب ایڈمنسٹریٹو باڈی بازار کے اندر سکیورٹی اور صفائی کی بھی ذمے دار ہوگی یعنی جب آپ دکان کھول رہے ہیں، پیسہ لگا رہے ہیں تو پھر آپ اپنی جگہ کو صاف اور محفوظ بھی رکھیں کہ یہ آپ کے اپنے مفاد میں ہے۔ ان تمام یونینوں کے انتخابات لازمی ہوں گے اور کوئی بازار ایڈمنسٹریٹو باڈی کے بغیر کاروبار نہیں کر سکے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ ان سب اخراجات کو پورا کہاں سے کیا جائے گا تو ہر دکاندار کے لئے لازم ہوگا کہ وہ اپنی یونین کے معاملات چلانے کے لئے فنڈز دے دوسرے کسی بھی بازار میں جگہ دستیاب ہونے پر جتنے بھی سٹال لگیں گے اس کے کرائے کے تین حصے ہوںگے۔ ایک اس دکان والے کوملے گا جس کے فرنٹ پر سٹال ہوگا۔ دوسرا یونین کو ملے گا تاکہ وہ صفائی اور سکیورٹی کے اخراجات کر سکے اور تیسرا حصہ حکومت کے خزانے میں ٹیکس کی صورت جمع ہوگا۔ اسی طرح کسی بھی بازار کی پارکنگ کے ٹھیکے میں بھی ایک تہائی فنڈزاس مارکیٹ اور علاقے کی بہتری کے لئے وہاں کی منتخب ایڈمنسٹریٹو باڈی کے پاس جائیں گے، اس پارکنگ کی نگرانی اس شہر کی بلدیہ یا پارکنگ کمپنی کرے گی ، وہی ٹھیکے دے گی مگر اس کی نچلے لیول پر مینجمنٹ یونین کے پاس ہی ہوگی۔ بڑے بازاروں میں پرائیویٹ گاڑیوں کے داخلے کی پابندی کے ساتھ چھوٹی پبلک ٹرانسپورٹ ہو گی جو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا سکے گی ۔ یہ قانون ہوگا کہ ان تمام دکانوں کے فرنٹ اور بورڈز ایک جیسے ہوں جیسے کینٹ کی مارکیٹس میں ہوتے ہیں۔ ان تمام مارکیٹوں میں انتطامات اور سہولیات کے باقاعدہ نمبر ہوں گے اور جس مارکیٹ کے تاجرمقررہ نمبر حاصل کرنے میں ناکام رہیں گے ان پر جرمانے عائد ہوں گے یا وہ مارکیٹیں بطور سزا اس وقت تک بند کر دی جائیں گی جب تک وہ اپنے معاملات درست نہ کرلیں۔
اب سوال یہ ہے کہ جہاں مال آجاتا ہے وہاں کرپشن آجاتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب دکاندار، یونین اور حکومت تین فریق ہوں گے تو کرپشن کے امکانات بہت کم رہ جائیں گے اور تیسرے اس تمام کمائی اور اخراجات پرمقامی کونسلر، ایم پی اے اور متعلقہ محکموں کے افسران کی کمیٹی آڈٹ کروا کے رپورٹ جمع کروانے کی پابند ہوگی۔ بات صرف مقامی بازاروں کی نہیں ہے بلکہ آپ اپنی سبزی اور فروٹ منڈی میں چلے جائیں وہاںآج بھی مافیاز کا راج ہے۔ بندوقوں کے ساتھ مسلح افراد جگہوں کو بیچتے ہیں۔ مثال کے طور پر بادامی باغ کی پھل اور سبزی منڈی کو دیکھ لیا جائے تو وہاں سے سالانہ اتنے روپے جمع ہوتے ہیں کہ آپ پوری کی پوری منڈی ہر سال سنگ مرمر سے بنوا سکتے ہیں مگر وہاں کوڑے کے ڈھیر ہیں، وہاں سکیورٹی اور صارفین کو سہولت نام کی کوئی شے نہیں ہے اور وہاں سے جمع ہونے والے سالانہ کروڑوں اور اربوں روپوں سے سیاسی اور تجارتی مافیاز محل تعمیر کر لیتے ہیں۔میںمانتا ہوں کہ تعلیم سے صحت تک ہر جگہ ہمارے مسائل گھمبیر ہیں لیکن اگر ہم سڑکوں اور بازاروں میں بدنظمی کو کنٹرول کر لیں تو ہمارا ایک بڑا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ ہمیں پارکنگ کے مسائل کو حل کرنے اور اس سے آمدن کرنے پر بھی پوری توجہ دینی چاہئے اگر ہم تمام بازاروں کے باہر مکینیکل پارکنگ کی مشینیں لگوا دیں تو اس سے ایک کی جگہ دس گاڑیاں بھی پارک ہوجائیں گی اورروزگار بھی جنریٹ ہو گا۔اس پر بعد میں تفصیل سے لکھوں گا۔
ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ سے بھاگتے ہیں اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی سے بھی۔ جیسے ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ تمام کام انہوں نے ہی کرنے ہیں حالانکہ ان کے پاس نہ افرادی قوت ہوتی ہے اور نہ ہی وہ کمٹ منٹ جو مقامی سطح پر لوگوں کی ہو سکتی ہے لیکن دوسری طرف جب مقامی سطح پر افراد خود ہی سب کچھ مینیج کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ مقامی مافیا بن جاتے ہیں اور لوٹ مار شروع کر دیتے ہیں لہٰذا ایسا نظام ہونا چاہئے جس میں مقامی حکومتی ادارے اور عوام ( یعنی سٹیک ہولڈرز ) کی آپس میں پارٹنر شپ ہو اور دونوں عوامی سہولت کے ٹارگٹ کے ساتھ کام کریں۔ یہ ایک دوسرے کے معاون بھی ہوں اور ایک دوسرے پر تھانے دار بھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس فارمولے کے تحت ہم اپنے گلی محلوں کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں اورہمارے بلدیاتی ادارے اور نمائندے اس میں کلیدی کردارادا کرسکتے ہیں مگر افسوس کا مقام ہے جو بھی حکومت آتی ہے وہ بلدیاتی اداروں کی دشمن ہوتی ہے چاہے وہ خود کو جمہوری اور عوامی حکومت ہی کیوں نہ کہہ رہی ہو۔ ہم ہسپتالوں سے سکولوں تک میں انقلاب چیک اینڈ بیلنس کے نظام کے ساتھ انقلاب برپا کرسکتے ہیں ۔ میں اس سے اگلے کالم میں ہاوسنگ کے ایشو پر بات کروں گاکیونکہ ڈویلپرز مافیا نے ہماری زرعی زمینوں کو کھانا شروع کر دیا ہے۔ اب نہ کوئی انڈسٹری لگاتا ہے اور نہ روزگار فراہم کرتا ہے مگر ہر طرف ہاوسنگ سوسائیٹیاں بنتی چلی جا رہی ہیں جن میں قوم کا قیمتی سرمایہ پلاٹوں کی صورت میں ’ ڈمپ‘ ہو رہا ہے۔ ( جاری ہے )
Prev Post
تبصرے بند ہیں.