حکمران یا آستین کے سانپ؟

92

کہتے ہیں محمد بن عروة جب یمن کے گورنر بن کر شہر میں داخل ہوئے تو لوگ استقبال کے لئے امڈ آئے۔لوگوں کا خیال تھا کہ نیا گورنر لمبی چوڑی تقریر کریں گے،محمد بن عروہ نے صرف ایک جملہ کہا اور اپنی تقریر ختم کر دی وہ جملہ،،لوگوں یہ میری سواری میری ملکیت ہے اس سے زیادہ لیکر میں واپس پلٹا تو مجھے چور سمجھا جائے،،یہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا سنہرا دور تھا۔ محمد بن عروہ نے یمن کو خوشحالی کا مرکز بنایا جس دن وہ اپنی گورنری کے ماہ و سال پورا کرکے واپس پلٹ رہا تھا لوگ ان کے فراق پر آنسو بہا رہے تھے لوگوں کا جم غفیر موجود تھا امید تھی کہ لمبی تقریر کریں گے۔ محمد بن عروہ نے صرف ایک جملہ کہا اور اپنی تقریر ختم کر دی وہ جملہ”لوگوں یہ میری سواری میری ملکیت تھی میں واپس جا رہا ہوں میرے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ہے”حکمران ایسے ہوتے ہیں ہمارے والوں کی طرح نہیں کہ آئے خالی ہاتھ اورجب واپس جانے لگے تو پھر گورنر، وزیراعلیٰ، وزیراعظم ہاؤس اورایوان صدرمیں لگے گلدستے اور بچھے قالین بھی ساتھ لیکرجائے۔ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں آنے والے سارے خالی ہاتھ آتے ہیں لیکن جب واپس جاتے ہیں تو پھر جو کچھ ملتاہے یہ سب اٹھاکرساتھ لے جاتے ہیں۔یہ ملک یوں تباہ نہیں ہوا۔اس کواس مقام تک پہنچانے کے لئے بڑے بڑوں نے ہاتھ صاف کئے۔آپ اس ملک کی تاریخ اٹھاکردیکھیں یہاں جوایک شاپرہاتھ میں اٹھاکرآیاوہ بھی واپس جاتے ہوئے بوریوں پربوریاںبھرکر ساتھ لیکرگیا۔آپ کوئی ایسا گورنر، کوئی ایسا وزیراعظم اور کوئی ایسا صدر بتائیں جو خالی ہاتھ آکرخالی ہاتھ واپس گیاہو۔یہاں تو ناظم، ایم پی اے،ایم این اے، مشیر اورمعمولی گریڈکے افسربھی خالی ہاتھ واپس نہیں جاتے۔اس ملک کو حکمرانوں،سیاستدانوں اوربیوروکریٹس نے جتنا لوٹا ہے اتناکسی اورنے نہیں لوٹاہوگا۔باہرکی دنیامیں لوگ خدمت کے لئے سیاست اورحکومت میں آتے ہیں لیکن ہمارے ہاں لوگ کمانے اورتجوریاں بھرنے کے لئے سیاست کا انتخاب کرتے ہیں۔ قربان جائیں قائدتحریک صوبہ ہزارہ
بابا سردار حیدر زمان مرحوم پر۔ اللہ ان کی قبرپرکروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔کیاخوب بات کہی تھی انہوں نے۔۔ آخری بارجب ان سے میری ملاقات ہوئی توباتوں باتوں میں جب سیاست کے اوراق کھلے توباباکہنے لگے جوزوی سیاست سیاست اس ملک میں کچھ نہیں۔ اب توسیاست کاروبار اور سیاستدان دکانداربن چکے ہیں۔ آج بھی اگرآپ دیکھیں تو وہی باباوالی بات ہے۔ہربندہ سیاست کو کاروبار کے طور پر کر رہا ہے۔ ملک اورقوم کی کسی کوکوئی فکر نہیں۔انتخابات میں جولوگ ایک کروڑلگاتے ہیں وہ پھرایک کی جگہ دس کروڑکماتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ کمانے والے پیسے پھر انہی کے خون پسینے سے نکلتے ہیں جن سے یہ ظالم اور بے حس ووٹ بٹورتے ہیں۔ ہمارے جیسے سادہ لوح لوگ جن کواپنامسیحااورنمائندہ سمجھ کرووٹ دیتے ہیں وہی پھر اژدھا اور سانپ بن کرانہی لوگوں کو کاٹنا اور ڈسناشروع کر دیتے ہیں۔ لوگ سعودی عرب، ابوظہبی، ملائیشیا، کویت، جاپان اور کینیڈاجیسے سات سمندرپارکے ممالک میں محنت مزدوری کرکے سالوں کی پردیس کاٹنے کے بعدبھی اپنے لئے ایک مکان نہیں بناسکتے اوریہ سیاستدان،حکمران اوربیوروکریٹس یہاں بیٹھے بیٹھے نہ صرف دنوں اورہفتوں میں مکانوں پرمکان بنالیتے ہیں بلکہ ساتھ اپنی اگلی نسلوں کے لئے خوبصورت شہروں میں ایڈوانس پلاٹ بھی لے لیتے ہیں۔آپ نے کبھی اس بات پرغورکیاکہ آپ کے خان، نواب، چوہدری، وڈیرے اوررئیس کے پاس اتنے مکان،اتنے پلاٹ اورکروڑوں واربوں کایہ مال کہاں سے آیا۔؟ مانا کہ اشرافیہ میں چند فیصد خاندانی خان، نواب، چوہدری، وڈیرے اور رئیس ہوں گے لیکن اکثریت کواگرآپ دیکھیں تووہ یہی ظالم نکلیں گے جو ستر 75 سالوں سے اس ملک وقوم کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔پہلے شرافت، امانت، دیانت اورسیاست کے نام پر ان کے باپ دادالوگوں کاخون نچوڑتے تھے اب یہ نچوڑرہے ہیں۔ اب خوداندازہ لگائیں جس ملک میں ایسے حکمران، ایسے سیاستدان، ایسے بیوروکریٹس اور ایسے افسران ہوں گے وہ ملک پھرخاک ترقی کرے گا۔ ملک اور قوموں کی ترقی کے لئے ایماندار اور امانت دارحکمران ضروری ہیں۔ جہاں حکمران ہی چور، ڈاکو، لوٹے اور لٹیرے ہوں وہاں پھر ترقی کیسے ہو گی اورخوشحالی کیسے آئے گی۔؟یہ ملک اسی وجہ سے ترقی سے دوررہاکہ یہاں دل میں خداکاخوف رکھنے والے حکمران کبھی نہیں آئے۔اس ملک میں کوئی ایک حکمران بھی اگرعمربن عبدالعزیزیا محمد بن عروة جیسے آتاتوہماری اوراس ملک کی یہ حالت نہ ہوتی۔ آج بھی ہم جس نازک اورمشکل حالات سے گزر رہے ہیں اس کی وجہ بھی حکمرانوں کا نیک اور سیاستدانوں کاایک ہونانہیں۔سچ تویہ ہے کہ یہ ملک اور یہاں کے عوام یہ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے کھاتے میں کبھی شمارہی نہیں ہوئے۔ یہاں ہر سیاستدان اورحکمران ملک وقوم سے پہلے اپنے بارے میں سوچتا ہے،پہلے ہرایک اپنے کام اورالو کو سیدھا کرتا ہے،اپنی ذات ومفادسے اگرکوئی فارغ ہوتوتب پھراس کی نظرکہیں ملک اورقوم پرجاکرلگتی یاپڑتی ہے۔ ملک کے موجودہ حالات کیایہ ان حکمرانوں اور سیاستدانوں کونظرنہیں آرہے ۔؟ملک اگردیوالیہ نہیں ہوا تو دیوالیہ پن کے قریب قریب تو ضرور پہنچا اور اس حقیقت سے سیاستدان کیا۔۔؟ملک کابچہ بچہ واقف ہے لیکن اس کے باوجودہمارے سیاستدان ہیں کہ انہیں اس نازک صورتحال میں بھی سیاسی لڑائیوں، جھگڑوں اورذاتی مفادات کے کھیل سے فرصت نہیں۔ملک معاشی طورپرتباہ ہو چکا، مہنگائی نے عوام کاچین اورسکون غارت کردیاہے،لوگ بھوک، افلاس اور فاقوں سے مر رہے ہیں۔عوام میں اکثریت کے پاس اب کھانے تک کے لئے کچھ نہیں لیکن ادھرسیاستدانوں اورلیڈروں کواس حال میں بھی الیکشن کی پڑی ہوئی ہے۔لوگ تباہ ہو یا برباد، عوام بھوک وافلاس سے مرے یا فاقوں کے سائے تلے تڑپ تڑپ کر جیئے سیاستدانوں اور لیڈروں کا اس سے کیا لینا دینا۔؟ ہر لیڈر اور سیاستدان کو اپنی باری،کرسی اوراقتدارکی فکرہے کہ کسی نہ کسی طرح اقتدارکی مالاان کے ہاتھ لگے تاکہ ملک وقوم کی خدمت کے نام پر یہ اپنی تجوریاں مزید بھر سکیں۔ جب تک ایسے مفادپرست سیاستدانوں اور حکمرانوں سے ہماری جان نہیں چھوٹتی اس وقت تک اس ملک کاکچھ نہیں بنے گا۔ یہاں لوگ اسی طرح مہنگائی، بھوک وافلاس سے بلک کر روتے، چیختے اور چلاتے رہیں گے۔

تبصرے بند ہیں.