وزیر ثقافت، مجلس ترقی ادب اور قاسم علی شاہ

31

نگران حکومت نے آتے ہے پہلا اچھا کام تو یہ کیا کہ پرویز الٰہی حکومت کی طرف سے اداروں پر مسلط کی گئی جبری تقرریوں کو ڈی نوٹیفائی کر دیا۔ جس کا منصور آفاق اس لیے شکار ہو گیا کہ اسے پرویز الٰہی نے مجلس ترقی ادب کی ڈائریکٹر شپ سے ہٹا کر ایک نسبتاً کم فعال ادارے بزم اقبال کا ڈائریکٹر لگا دیا تھا اور یہ بھی کہا کہ میں اسے دیوار سے لگا دوں گا پھر جب وزیراعلیٰ محسن نقوی نے پرویز الٰہی کی تقرریوں کو ڈی نوٹیفائی کیا تو منصور آفاق کی بزم اقبال سے بھی چھٹی ہو گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پرویز الٰہی نے میرٹ دیکھے بغیر اپنے قریبی لوگوں کو نوازا تھا جس میں مجلس ترقی ادب میں بطور صدر نشیں تعینات کیے گئے کالم نگار اصغر عبداللہ کی تقرری بھی تھی حالانکہ اصغر عبداللہ کا ادب سے تعلق اتنا ہی تھا کہ اس نے کسی زمانے میں کچھ ادیبوں کے انٹرویو کیے تھے۔ یہ خالص ایک ادبی و علمی ادارہ ہے جس پر کسی غیر ادیب حتیٰ کہ کمتر ادیب کی تعیناتی بھی معاشرے کی علمی و ادبی بقا پر قاتلانہ حملے کے مترادف ہے۔ پرویز الٰہی نے مجلس ِ ترقی ادب پر قاتلانہ حملہ کیا۔ ایسے ادارے کسی گروہ بندی کا شکار ہونے کے متحمل بھی نہیں ہو سکتے نہ اشرافیہ کے قبضے میں دیئے جا سکتے ہیں ورنہ ان کا حشر بھی کراچی آرٹس کونسل اور فیض امن میلے جیسے فیسٹیولز ہی جیسا ہی ہو گا۔ دنیا بھر کے ادب کی تاریخ پڑھ لیں بڑا ادب ہمیشہ عام آدمی تخلیق کرتا ہے۔ اشرافیہ سے کبھی بڑا ادیب پیدا نہیں ہوا۔ آج کل تو ویسے بھی سوشل چینج کے نام پر پاکستان کے ادب و ثقافت کو تباہ و برباد کر دینے کی خواہش رکھنے والے گروہ ملک میں پوری طاقت سے متحرک نظر آتے ہیں۔
نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی سے لاکھ اختلاف سہی لیکن ایک بات سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس نے جتنے وزرا لگائے ہیں وہ سبھی اپنے اپنے شعبے کے نیک نام ماہرین ہیں۔ انہی نیک نام اور اپنے شعبے کے پروفیشنل، تعلیم یافتہ اور ماہر وزرا میں سے ایک وزیر عامر میر ہیں۔ بلکہ مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی جھجھک نہیں کہ حامد میر پاکستان کا نمبر ون جرنلسٹ ہے۔ اور بطور خالص صحافی حامد میر کسی بڑے سے بڑے اور طاقتور ترین لیڈر کی ناراضی بھی مول لینے کی ہمت اور حوصلہ رکھتا ہے۔ حامد میر نے جس طرح ملک میں ہمیشہ صحافیوں کی جنگ لڑی ہے اور ان کے حق آزادی ِ صحافت کے لیے آواز اُٹھائی ہے یہ بھی ایک مثال ہے۔
عامر میر نے جب سے بطور وزیر اطلاعات و ثقافت چارج سنبھالا ہے دن رات کچھ نہ کچھ بہتر کر دکھانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ وزارت ثقافت پنجاب کی خوش نصیبی ہے کہ اس وقت صوبائی سیکرٹری ملک علی نواز، ایڈیشنل سیکرٹری نازیہ جبین اور ڈپٹی سیکرٹری صدف بہزاد یہ ساری کی ساری ٹیم نہ صرف خود علمی و ادبی ذوق سے مالامال ہے بلکہ یہ سب لوگ ہر وقت ادیبوں اور فنکاروں کو عزت اور تکریم دینے کا کلچر پیدا کرنے کی سرتوڑ کوشش میں لگے ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں اس ٹیم نے مجلس ترقی ادب اور بزم اقبال کا وزٹ کیا، بریفنگ لی، مسائل پوچھے اور بہتری کے اقدامات کے لیے فوری آرڈرز جاری کیے۔ مجھے خوشی ہوئی کہ بریفنگ مجلس ترقی ادب کے اس میٹنگ روم میں ہوئی جس کی تعمیر کا سہرا منصور آفاق کے سر سجتا ہے۔ منصور آفاق نے مجلس ترقی ادب کا چائے خانہ اپنے دوستوں سے چندہ اکٹھا کر کے بنایا اور دو سال میں ساٹھ کتابیں شائع کیں۔ ملک گیر مشاعرے کرائے اور ہفتہ وار شام شاعری کا اجرا کیا۔
وزیر ثقافت عامر میر نے جب مجلس ترقی ادب کا عجائب خانہ وزٹ کیا تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔ ان کے پوچھنے پر میں نے انہیں بتایا کہ یہ آئیڈیا اور اس آئیڈیا کو عملی جامہ پہنانے تک سارا کردار منصور آفاق کا ہے جسے پرویز الٰہی نے صرف اپنا بندہ فِٹ کرنے کے لیے اس ذمہ داری سے ہٹا دیا تھا اور کہا تھا میں منصور آفاق کا نام تک سننا گوارا نہیں کرتا۔ عامر میر نے عجائب گھر کی بہت تعریف کی اور خوشی کا اظہار کیا۔ پھر میں انہیں بزم اقبال میں لے گیا جہاں انہوں نے دیکھا کہ علامہ اقبال کی فکر اور فلسفے کی ترویج کے لیے کام کرنے والا ادارہ سوا کمرے پر مشتمل ہے اور مدیر مجلہ ”سہ ماہی اقبال“ چائے خانے کے ایک کونے میں دفتر لگائے فائبر کی پتلی چھت کے نیچے بیٹھتے ہیں تو وزیر ثقافت کے چہرے پر گہرے دکھ اور صدمے کے آثار نمایاں ہو گئے اور کیوں نہ ہوتے وہ وارث میر کے بیٹے اور حامد میر کے بھائی ہیں علم و ادب کی گُھٹی انہیں اپنے گھر سے ملی ہے۔
انہوں نے فوری طور پر بزم اقبال کی نئی عمارت کے لیے معاملات سیدھے کرنے کے احکامات صادر کیے اور مجھے حوصلہ دیا کہ ہم سے جو کچھ ہو سکے گا، کریں گے۔ عامر میر نے ہنستے ہوئے مجھے یہ آفر بھی دی کہ کیوں نہ ایڈیٹر سہ ماہی اقبال کی کرسی عجائب خانہ میں لگوا دی جائے۔ میں سن کے گھبرا گیا اور تصور میں خود کو حنوط ہوتا ہوا محسوس کیا۔ میری گھبراہٹ دیکھ کر انہوں نے مجھے حوصلہ دیا کہ فکر نہ کریں ہم فرحت عباس شاہ کو ممی میں تبدیل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
ایسا نہیں کہ پاکستان میں کچھ اچھا کر دکھانے کی آرزو رکھنے والوں کی کمی ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ اداروں میں گھس بیٹھیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے اور وہ امور ِ فنون ِ نوکری بچاؤ میں اتنے مشاق ہیں کہ افسران کی آنکھوں میں دھول جھونک جھونک کر قابل لوگوں کو پیچھے دھکیل کے دیوار سے لگانے میں ایک لمحہ ضائع نہیں کرتے۔ یہ روزانہ کی بنیاد پر افسروں سے ملتے ہیں، لمحہ بہ لمحہ ان کے آگے پیچھے پھرتے ہیں اور ان کو ہر وقت یہی بتاتے ہیں کہ ان جیسا قابل اور مخلص انسان دنیا میں موجود ہی نہیں۔ یہ نوکری اور افسری پرست افراد ہمیشہ قابل آدمی سے خوفزدہ رہتے ہیں۔
موجودہ کیئرٹیکر حکومت نے قاسم علی شاہ کو چیئرمین الحمرا آرٹس کونسل کیا لگایا کہ گُھس بیٹھیوں کے غول کے غول چیختے کُرلاتے شہر میں ماتم کرتے پھرتے نظر آئے۔ میں قاسم علی شاہ کو گزشتہ پچیس سال سے جانتا ہوں۔ اس قاسم علی شاہ کو جس نے دن رات کی محنت سے علم کی دولت اور خیر کی آرزو کمائی ہے۔ اس نے اپنی پوری زندگی میں اپنے دشمنوں کو بھی کبھی نقصان نہیں پہنچایا۔ علم والوں کی عزت کرنا کوئی قاسم علی شاہ سے سیکھے۔ قاسم علی شاہ سے پہلے بنائے گئے چیئرمینوں کے کچے چٹھے جتنے میں جانتا ہوں اگر کبھی بیان کر دئیے تو بڑی روح فرسا کہانیاں سامنے آئیں گی۔ قاسم علی شاہ نے معاشرے میں مثبت سوچ کو اجاگر کرنے میں جو کردار ادا کیا ہے بڑے بڑے نامی گرامی واعظ نہیں کر پائے۔ قاسم علی شاہ نے مایوس ہو کر اور زندگی سے دل اچاٹ کر کے بیٹھ جانے والی نئی نسل کے دلوں میں جینے اور کامیابی سے جینے کی امنگ پیدا کی ہے۔ نوجوانوں کی ہمت بڑھا کر ان کو ملک و قوم کے لیے مثبت کردار ادا کرنے کے راستے پر گامزن کیا ہے۔ میں بطور ایک شاعر اور صحافی کے پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ شاعروں، ادیبوں، مصوروں اور فنکاروں کی جتنی تکریم و تعظیم اور فلاح قاسم علی شاہ کے دور میں ہو گی پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہوئی ہو گی۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ قاسم علی شاہ کی ٹیم میں ثمن رائے جیسے گھاگ افسران کو شامل نہ کیا جائے۔ ورنہ الحمرا کا بھی وہی حال ہو گا جو آج کل مجلس ترقی ادب کا ہے۔

تبصرے بند ہیں.