کیا اخبار اور ٹیلی ویژن کا زمانہ رخصت ہوچلا ہے؟

48

ا گلے دن ایک موقر انگریزی روزنامے میں ایک مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ مضمون ایک معروف تحقیقی ادارے کی جدید میڈیاکے بڑھتے استعمال پر ہونے والی ریسرچ کا خلاصہ ہے۔ لب لباب اس ریسرچ کا یہ ہے کہ اخبار اور ٹیلی ویژن کا استعمال (اور اثر انگیزی) نہایت محدود ہو گئی ہے۔جبکہ سوشل میڈیا نے لوگوں کے دل و دماغ پر اپنا قبضہ جمالیا ہے۔ انہوں نے کچھ اعداد و شمار بیان کئے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ۔۔۔” پاکستان میں تھری ۔جی انٹرنیٹ متعارف ہونے کے بعد، پچھلے پانچ برس میں میڈیا کا منظر نامہ تبدیل ہو گیا ہے۔ گیلپ سروے کے مطابق 2018 تک محض 20 فیصد بالغ افراد انٹرنیٹ استعمال کرتے تھے۔2023 میں یہ تعداد بڑھ کر 45 فیصد کے قریب پہنچ چکی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 95 فیصد افراد اپنے موبائل فون پر انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ تحقیق بتاتی ہے کہ سوال پوچھنے پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے بتایا کہ وہ خبروں کے لئے سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔مذکورہ ریسرچ بتاتی ہے کہ ٹی۔وی دیکھنے کا رجحان زوال پذیر ہے۔اعداد و شمار کے مطابق 2004 میں ایک پاکستانی شہری اوسطا240 منٹ ٹی۔وی دیکھتا تھا۔ 2018 میں ٹیلی ویژن دیکھنے کا دورانیہ کم ہو کر 120 منٹ ہو گیا۔ 2022 میں یہ دورانیہ مزید گھٹ کر 80 منٹ رہ گیا ہے۔ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ گزشتہ برسوں میں نیوز یعنی خبروں کے بجائے تفریحی ٹی۔وی چینل دیکھنے کا رجحان بڑھا ہے۔ ۔۔۔۔”۔
یقینا معروف ادارے کی یہ ریسرچ اہمیت کی حامل ہے۔اس تحقیق میں سوشل میڈیا سے متعلق بیان کردہ کچھ حقائق دلچسپ معلوم ہوتے ہیں۔ تاہم یہ کوئی نئی بحث نہیں ہے۔ برسوں سے ہمیں یہ باتیں سننے کو مل رہی ہیںکہ "روائتی میڈیا اپنی موت آپ مر گیا ہے۔ اخبار اور ٹی۔ وی کا زمانہ لد چکا ہے۔ یہ ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل میڈیا کا زمانہ ہے” ۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈیجیٹل میڈیا کی اپنی اہمیت ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہر نئی ایجاد یا دریافت کی اہمیت ہوا کرتی ہے۔ ہر وقت اور زمانے میں یہ ہوتا آیا ہے۔ مثال کے طور سائیکل کے بعدریل گاڑی اور پھر جہاز کی ایجادات۔ سوال یہ ہے کہ کیا موٹر سائیکل کے آنے کے بعد، دنیا میں سائیکل بننا بند ہو گیا ہے؟ ہر گز نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں جائیں تو لوگ آج بھی سائیکل چلاتے ہیں۔ ناروے گئی تو معلوم ہوا کہ سائیکل شہریوں کی سب سے پسندیدہ سواری ہے۔بر سبیل تذکرہ عمران خان صاحب حوالہ دیا کرتے تھے کہ فلاں ملک کا وزیر اعظم سائیکل پر اپنے دفتر جاتا ہے۔ اسی طرح کیا جہاز کی ایجاد کے بعد لوگوں نے ریل گاڑی کا بند کر دیا ؟ بالکل نہیں ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کے آنے کے بعد اخبار اور ٹی۔وی کی موت واقع ہو گئی ہے یا مستقبل قریب میں ہونے والی ہے۔
جب بھی مجھے یہ نقطہ نظر سننے یا پڑھنے کو ملتا ہے۔ مجھے یہ کچھ غیر حقیقی ار مبالغہ آمیز معلوم ہوتا ہے۔ اس کی کچھ وجوہات ہیں۔ چند سال پہلے جب ٹی۔ وی چینلوں کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔تب بھی یہ باتیں سننے کو ملا کرتی تھیں کہ اخبارات ت کا زمانہ لد چکا ہے۔ لیکن اخبار آج بھی زندہ و تابندہ ہیں۔ گزرے زمانے میں جب نامور صحافی ٹی۔ وی چینلوں پر پروگرام کر کے لاکھوں روپے کمایا کرتے تھے، اخبار میں اپنے کالم کی جگہ چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے تھے۔ آج بھی معروف اینکر اخبار میں باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ انٹرنیٹ، تھری ۔جی، یا جدید ٹیکنالوجی آنے کے بعد اخبار کی اشاعت میں شاید کمی آئی ہو گی، لیکن ان کی الیکڑانک اشاعت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ اب اخبار نے e.paper کا روپ اختیار کر لیا ہے۔ مجھ جیسے کئی جو گھر پر ایک یا دو اخبار منگوایا کرتے تھے، انٹرنیٹ کی وجہ سے نصف درجن سے زائد اخبار روزانہ پڑھنے لگے۔ قومی اخبارات کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کے اخبارات بھی ہمارے زیر مطالعہ آنے لگے۔چند ماہ پہلے جیو ٹی۔ وی کے ایم ۔ڈی سرمد علی صاحب جامعہ پنجاب میں تشریف لائے تھے۔ انہوں نے ایک معروف عالمی ادارے کی تحقیق کا حوالہ دیا اور بتایا کہ دنیا بھر میں آج بھی اخبار کی خبر کو سب سے زیادہ قابل بھروسہ سمجھا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کی خبر پر بھروسہ کرنے والوں کی تعداد سب سے کم ہے۔ ۔۔کیا ہم نہیں جانتے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں اور پروپیگنڈا کا ایک بازار گرم رہتاہے۔ کچھ عرصہ پہلے معروف صحافی مجیب الرحمن شامی صاحب نے تو سوشل میڈیا کو "پبلک ٹائیلٹ” کا خطاب دیا تھا۔
بالکل ایسے ہی ٹی۔ وی کی بھی اپنی ایک اہمیت ہے۔ آج بھی ٹی۔ وی کے نامور اینکر کئی ملین تنخواہیں لے کر پروگرام کرتے ہیں۔ اگر ٹی۔ وی اتنی ہی بے کار اور بے اثر شے ہو تو کون انہیں کئی کئی لاکھ روپے ماہانہ تنخواہیں دے ؟ تحریک انصاف کی حکومت میں بہت سے غیر جانبدار صحافیوں کے ٹی۔ وی پروگرام بند کروائے گئے۔ بہت سوں کو نوکریوں سے نکلوایا گیا۔ اس کی وجہ ٹی۔ وی کی اثر انگیزی ہی تھی۔ مذکورہ تحقیق میں جو اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں ، وہ یقینا درست ہوں گے۔ بات یہ ہے کہ اب لوگ ٹی۔ وی چینل اپنے ٹی۔ وہ سیٹ پر نہیں دیکھتے ۔ ہم سب اپنے موبائل فون پر اپنے پسندیدہ ٹی۔ وی چینل، ان پر نشر ہونے والے ڈرامے اور حالات حاضرہ کے پروگرام دیکھتے ہیں۔میری ناقص رائے اور مشاہدہ یہ ہے کہ اب موبائل فون نے ٹی۔ وی سیٹ کی جگہ لے لی ہے۔ گھنٹوں ہم اس پر مختلف پروگرامز دیکھتے ہیں ۔ ریڈیو کا بھی ذکر سنیے۔ دنیا بھر میں ریڈیو کا خاص مقام ہے۔ ہمارے نہایت معروف پاکستانی ٹی۔ وی چینلوں کے مالکان، جو اربوں روپے سالانہ کا بزنس کرتے ہیں، پیمرا سے لائسنس حاصل کرنے کے بعد اپنے ایف۔ ایم چینل کھول چکے ہیں۔ میں نے چند برس پیمرا میں بطور ممبر کام کیا ہے۔ پیمرا کے پاس ریڈیو اور ٹی۔ وی کا لائسنس لینے والوں کا ہجوم لگا رہتا ہے۔ لوگ کروڑوں روپے فیس بھر کر یہ لائئسنس لینا چاہتے ہیں۔ یہی حال اخبارات کے ڈیکلیریشن لینے والوں کا ہے۔ چند دن پہلے پیمرا کے ڈی ۔ جی اکرام برکت صاحب سے ایک سیمینار میں تشریف لائے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک سال میں ایف ۔ ایم ریڈیوز نے ایک ارب اور کئی کروڑ کا ریویو اکھٹا کیا ہے۔ اس سے آپ ریڈیو سامعین کی تعداد کا اندازہ لگائیے اور ریڈیو کی اثر انگیزی کا بھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دیجیٹل میڈیا اور سوشل میڈیا نہایت اہم ہو چلے ہیں۔ جب اخبار اور ٹی وی پر کسی کو سنسر شپ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یا کسی کی آواز دبانے کی کوشش ہوتی ہے تو وہ سوشل میڈیا کا رخ کرتا ہے۔ لیکن یہ بھی دیکھیے کہ میں اور آپ سوشل میڈیا کے استعمال اور ساکھ کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ سوشل میڈیا کی آوارہ خوانی میرے کئی گھنٹے کھا جاتی ہے۔ مجھے وقت ضائع کرنے کے بجائے ، کتاب پڑھنے یا لکھنے لکھانے پر زیادہ وقت صرف کرنا چاہیے۔ میرے کئی شاگرد سی۔ ایس ۔ ایس کا امتحان پاس کر کے مختلف عہدوں پر فائز ہیں۔ جب بھی کوئی شاگرد مقابلے کا امتحان پاس کرتا ہے، میںاپنی معلومات کے لئے اس سے اس کے معمولات معلوم کرتی ہوں۔ یقین جانیے ہر ایک یہی بتاتا ہے کہ اس نے کئی مہینوں یا سالوں تک سوشل میڈیا کا استعمال نہیں کیا۔ انہوں نے اچھی کتابیں اور اچھے اخبارات پڑھنے کا معمول اپنایا اور کامیابی حاصل کی۔ آج بھی وہ شاگرد جو سی۔ ایس۔ ایس کرنا چاہتے ہیں، بیرون ملک سکالر شپ لینا چاہتے ہیں یا اچھے صحافی بننا چاہتے ہیں، بطور استاد میں انہیں اچھے اخبارات اور اچھی کتابیں پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ وہ الگ بات کہ یہ اخبار یا کتاب وہ ای۔ پیپر یا ای۔ بک کی فام میں پڑھیں یا کسی دوسری شکل میں ۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک استاد طالب علموں کو کتاب کے بجائے سوشل میڈیا سے رجوع کرنے کا مشورہ دے۔ مختصر یہ کہ ڈیجیٹل میڈیا ، سوشل میڈیاکی تمام تر اہمیت تسلیم ، لیکن اخبارات اور ٹی۔وی کی اہمیت آج بھی قائم ہے اور میری ناقص رائے میں یہ ہمیشہ قائم و دائم رہے گی۔

تبصرے بند ہیں.