ہم کیا کر رہے ہیں ؟

52

ملک کو دیوالیہ پن کا کس قدر خدشہ ہے اس بارے حتمی طور پر کچھ کہنا شاید ممکن نہ ہو مفروضے البتہ اپنی جگہ ہیں مگر یہ بات طے ہے کہ ملک کا اکثریتی سفید پوش طبقہ ضرور دیوالیہ پن کا شکار ہے،غریب کی حالت تو بھکاریوں سے بھی بد تر ہو چکی،بچوں کی تعلیم اورآسائش دینا تو اب عیاشی کے زمرے میںآنے لگا ہے،اگر ہم اپنے قومی رویے پر نگاہ دوڑائیں تو یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ہم ”اخلاقی“ طور پر دیوالیہ ہو چکے ہیں، زندہ معاشرے حال سے زیادہ مستقبل کو سنوارنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں،انفرادی سے زیادہ اجتماعی معاملات کی فکر انہیں دبلا کئے جاتی ہے،مگر ہم شاید روئے زمین کی واحد قوم ہیں جو اپنے ماضی سے سبق لینے کے بجائے اسے فراموش کر کے حال میں مگن ہے،مستقبل ہماری نئی نسل ہے مگر ہر کسی کیلئے اپنی اولاد اہم ہے،ہر کوئی مرنے سے پہلے قارون کے خزانے جمع کرنے کی جستجو میں لگا ہے،ریاست اور معاشرہ ثانوی حیثیت اختیار کر چکا ہے ذاتی،سیاسی گروہی مفادات غالب آچکے ہیں،ریاست ہی نہیںآئین، جمہوریت، نظام، قاعدہ قانون،اصول و ضوابط سب روندے جا رہے ہیں،ریاستی اداروں کی حیثیت اہمیت وقعت سیاسی ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ چکی ہے،سیاسی قیادت کے بیانات،ریاستی اداروں پر تنقید،اہم عہدیداروں پر الزامات کا سلسلہ دراز تر ہو رہا ہے۔
مسلح افواج ریاست کی جغرافیائی سرحدوں ہی کی نہیں نظریاتی سرحدوں کی بھی ضامن ہے،ہر قسم کی ہنگامی حالت میں فوج کے افسر اور اہلکار بروئے کارآتے ہیں،زلزلہ،سیلاب،ٹرین،فضائی یا سڑک حادثہ ہو کوئی انہونی ہو جائے،عمارت گر جائے،یہ ادارہ ہر قسم کے حالات میں ریلیف ریسکیو کیلئے تیار وآمادہ رہتا ہے،دہشت گردی سر اٹھائے تو فوجی افسر اور جوان اپنا سر پیش کر کے قوم کو امن اور تحفظ دیتے ہیں،ملک میں شاید یہ واحد ادارہ ہے جس کی حب الوطنی ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا ہے مگر گزشتہ چند دہائیوں سے یہ ادارہ بھی ہدف تنقید ہے،سیاستدان جمہوریت کا راگ الاپتے اقتدار میںآکر خود سولآمر بن جاتے ہیں مگر فوجی آمروں کے لئے لیتے نہیں تھکتے،ملکی تاریخ پر اچٹتی سی نگاہ دوڑائیں تو معلوم ہو گا فوج نے جب بھی حکومت اور سیاست میں مداخلت کی سیاستدانوں کی غلطیوں کو تاہیوں کی وجہ سے کی،سیاستدانوں کا ایک گروہ فوج کو خوش آمدید کہتا ہے اور بہت سے فوج کے ساتھ شریک اقتدار بھی ہو جاتے ہیں مگر ان کے جاتے ہی جمہوریت کے گن گانے میں مگن ہو جاتے ہیں،اعلیٰ عدلیہ واحد ادارہ ہے جہاں سے مظلوم شہری انصاف کیلئے پر امید ہوتے ہیں لیکن عدلیہ سے اپنے مفاد میں فیصلہ آئے تو واہ واہ اور مخالف فیصلہ آئے تو ٹھا ٹھا شروع ہو جاتی ہے،مریم نوازآج کل گن پوائنٹ پر نواز شریف کی سزا کو غلط قرار دلانے کی کوشش میں ہیں،صبح شام اعلیٰ عدلیہ کے جج صابان پر طعن و طنز کے تیر برسا رہی ہیں،حالانکہ اسی عدلیہ کے فیصلہ کی وجہ سے ان کی سزا معطل کی گئی،اسی عدلیہ نے نواز شریف کو جیل سے لندن بھجوانے میں کردار ادا کیا،مگر پنجاب کے پی کے میں الیکشن کی تاریخ کے کیس میں ایک مرتبہ پھر جج صاحبان تنقید کی زد پر ہیں،پی ڈی ایم کی قیادت لارجر بینچ کے بجائے فل کورٹ کا مطالبہ بھی کر رہی ہے اور دو ججوں جسٹس اعجازالاحسن،جسٹس مظاہر اکبر کو فل کورٹ میں شامل نہ کرنے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے،شہباز شریف نے تو واضح کہا کہ جو جج ان کیخلاف فیصلہ دیتے ہیں ان کو ہمارے کیس ریفر نہ کئے جائیں،عام شہری حیران ہے کہ دو جج فل کورٹ کا حصہ نہ بنے تو فل کورٹ کیسے تشکیل پائے گا،دراصل پی ڈی ایم ان دو ججوں کو فل کورٹ سے الگ رکھنا چاہتی ہے کہ اس کا گمان ہے یہ دونوں جج مخالف رائے دیں گے،شاید ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ پر حملہ کی تاریخ دہرانے کی تیاری ہے،مگر اب کی بار اس کے نتائج بہت بھیانک برآمد ہوں گے۔
ریاستی معاملات کو چلانے کیلئے مقدس ترین دستاویزآئین ہے اس کی درگت یہ بنائی جا رہی ہے کہ آئینی شقوں کی من مرضی کی تعبیر تلاش کی جاتی ہے حالانکہ یہ سپریم کورٹ کا مینڈیٹ اور ڈومین ہے، جوآئینی دفعات موافق نہیں ان پر عملدرآمد سے دانستہ گریز کیا جاتا ہے بلکہ ان میں ذاتی مفاد میں ترمیم سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا،اگر چہ حکومت نے فوج اور عدلیہ کے خلاف سوشل میڈیا یا کسی اور ذریعے سے مہم چلانے والوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے دونوں اداروں پر تنقید کرنے والوں کیلئے سخت سزا کا قانون تیار کرلیا،حکومت کی جانب سے پاکستان پینل کوڈ اور ضابطہ فوجداری میں ترمیم کی جائے گی، جس کے تحت جو بھی پاک فوج یا عدلیہ کی تضحیک کرے گا اسے پانچ سال تک قید کی سزا دی جا سکے گی، اس مقصد کے لئے وزارت قانون نے مجوزہ ترمیمی مسودہ وزارت داخلہ کو بھجوادیا ہے جہاں سے یہ مسودہ جلد وزیر اعظم اور کابینہ کو ارسال کردیا جائے گا،رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فوجداری قوانین (ترمیمی) ایکٹ 2023ءکے عنوان سے بل پی پی سی 1860 میں سیکشن 500 کے بعد ایک نیا سیکشن 500A شامل کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ جو بھی عدلیہ، مسلح افواج یا ان کے کسی رکن کی تضحیک یا سکینڈلائز کرنے کے ارادے سے کسی بھی ذریعے سے کوئی بیان، شائع، گردش یا معلومات پھیلاتا ہے تو وہ جرم کا مرتکب ہوگا، مجوزہ ترمیم کے تحت اس جرم کی سزا ایک مدت کے لیے سادہ قید ہوگی جس کی توسیع 5 سال تک ہو سکتی ہے یا جرمانہ جو کہ 10 لاکھ روپے تک ہو سکتا ہے یا دونوں سزائیں ایک ساتھ بھی دی جا سکتی ہیں، تنقید کرنے والے کو بغیر وارنٹ گرفتار کیا جاسکے گا اور یہ جرم ناقابل ضمانت ہوگا جسے صرف سیشن کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔،سمری میں کہا گیا ہے کہ حال ہی میں ملک میں عدلیہ اور مسلح افواج سمیت ریاست کے بعض اداروں پر توہین آمیز، تضحیک آمیز اور شیطانی حملوں کا سلسلہ دیکھنے میںآیا، چند لوگوں نے جان بوجھ کر سائبر مہم شروع کی جس کا مقصد اہم ریاستی اداروں اور ان کے اہلکاروں کے خلاف نفرت کو ہوا دینا اور پروان چڑھانا ہے، اس طرح کے حملے ملک کے ریاستی اداروں کی سالمیت، استحکام اورآزادی کو نقصان پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں، مگر اس کا کیا ،کیا جائے کہ اس مہم میں آج بھی پی ڈی ایم کی قیادت سب سے آگے ہے، تحریک انصاف کی قیادت بھی اس حوالے سے پیچھے نہیں،دونوں کا طرز عمل قابل قبول نہیں۔
کنفیوشش کہتا ہے”اچھے کا یقین ہو تو کسی ایسے کام کو بھی مسلسل کرتے جاؤ جو بظاہر غلط دکھائی دے،نتیجہ اچھا نکلنے کی امید نہ توڑو مگر کسی سے زیادتی نہ ہو“لہٰذا جمہوریت میں اگر خامیاں بھی ہیں تو اس نظام کا تسلسل قائم رہنا چاہئے خس و خاشاک آہستہ آہستہ الگ ہوتے جائیں گے۔

تبصرے بند ہیں.