جیل بھرو تحریک، ادارے آمنے سامنے

23

ملک میں عدم استحکام، افراتفری اور انتشار بڑھ رہا ہے، کپتان نے شاید اپنا آخری پتہ بھی کھیل لیا ہے، جس کے بعد شیخ رشید کی مخبری کے مطابق خانہ جنگی کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کپتان نے 22 فروری کو جیل بھرو تحریک کی کال دی، آغاز تو اچھا نہیں، انجام خدا جانے، کئی دنوں سے اس تحریک کے لیے تحریک چلائی جا رہی تھی۔ میڈیا پر خبریں آرہی تھیں کہ لیڈروں سمیت 14 ہزار کارکن گرفتاریاں دیں گے۔ جیلیں کم پڑ جائیں گی، تحریک کا آغاز لاہور سے ہوگا۔ جہاں لیڈروں کے ساتھ دو سو کارکن، رضاکارانہ گرفتاری دیں گے۔ شور شرابے کے باوجود ایک کروڑ 60 لاکھ آبادی کے شہر لاہور سے کارکنوں کا جم غفیر چیئرنگ کراس نہ پہنچ سکا، جیلیں تو کیا بھرتیں چیئرنگ کراس نہ بھرسکا۔ شاہ محمود قریشی، اسد عمر، ولید اقبال، اعظم سواتی، ڈاکٹر مراد راس سمیت دس پندرہ کارکن پہلے ہے میں پر زنرز وین میں داخل ہوگئے، ذرائع بتاتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی آخر وقت تک وین میں داخل ہونے سے ہچکچاتے رہے کہ میں تو پارٹی میں نمبر دو ہوں نمبر آنے پر گرفتاری دوں گا لیکن ان کے ساتھ دو نمبری ہوگئی اور کسی نے انہیں وین کے اندر دھکیل دیا۔ کچھ کارکن وین کی چھت پر چڑھ گئے وہ بھی دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر دھر لیے گئے۔ پولیس کے مطابق کل 81 افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔ لیڈروں کا خیال تھا کہ پولیس انہیں سی سی پی او کے دفتر لے جائے گی۔ جہاں دودھ پتی چائے سے ان کی تواضح کی جائے گی۔ مگر پولیس انہیں دور دراز علاقوں کی جیلوں میں چھوڑ آئی۔ اطلاعات کے مطابق شاہ محمود قریشی اٹک جیل، اسد عمر راجن پور، ولید اقبال لیہ اور عمر چیمہ بھکر جیل میں نیا پاکستان بننے اور جہاد کی کامیابی کا انتظار کریں گے۔ کہا گیا تھا کہ ضمانتیں نہیں کرائی جائیں گی مگر شومئی قسمت شاہ محمود کے صاحبزادے زین قریشی نے پہلے ہی دن لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دے ماری کہ میرے والد کسی پراسرار بیماری میں مبتلا ہیں انہیں بازیاب کرایا جائے۔ حکومت نے ایم پی او کے تحت شاہ محمود کو 30 دن کے لیے نظر بند کردیا جس میں ضمانت مشکل ہوتی ہے۔ باقی لیڈروں کے لیے بھی عدالتوں سے رجوع کرلیا گیا۔ لوگ گرفتاریوں پر لطیفے اور حقیقے سناتے رہے ایک پولیس انسپکٹر لاﺅڈ اسپیکر کے ذریعے باقاعدہ اعلان کرتے رہے کہ وین حاضر ہے دروازہ کھلا ہے جسے گرفتاری دینی ہے آجائے اس موقع پر ابرار الحق یاد آگئے مائیک ہاتھ میں لے کر گانا شروع کرتے، کنے کنے جانا اے بلو دے گھر، لائن لگاﺅ ٹکٹ کٹاﺅ جنے جنے جانا اے بلو دے گھر“ تو کارکنوں کی لائنیں لگ جاتیں کہ شاید پولیس والے کسی بلو کے گھر چھوڑ آئیں گے مگر پولیس افسر کے اعلانات کے باوجود کارکنوں نے ممی ڈیدی سے جدائی گوارا نہ کی اور واپسی لوٹ گئے ”جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں“ شنید ہے کہ کارکنوں نے وین کی ہوا نکال دی۔ کسی نے کہا تحریک کی ہوا نکل گئی جیل بھرو تحریک جیل سے چھڑاﺅ تحریک میں تبدیل ہو رہی ہے۔ پشاور سے ایک کارکن نے گرفتاری دی سابق وزیر اعلیٰ محمود خان کی رہائشگاہ کے باہر بھی مائیک کے ذریعے اعلان کیا جاتا رہا کہ گرفتاری کے لیے وین حاضر ہے۔ مگر کسی نے ”واج“ نہ سنی۔ قرآن میں بنی اسرائیل کا ذکر کیا گیا۔ طالوت جالود کے درمیان لڑائی میں جب بنی اسرائیل کو شرکت کے لیے کہا گیا تو بولے موسیٰ علیہ السلام آپ اور آپ کا خدا لڑائی لڑیں تو مال غنیمت کےلئے انتظار کریں گے۔ راولپنڈی میں فیاض الحسن چوہان نے دونوں انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنایا اور وین میں سوار ہوگئے۔ شیخ رشید بجھے چہرے اور بجھے سگار کے ساتھ کمیٹی چوک پہنچے۔ کارکنوں کا لہو گرمایا اور چپکے سے نکل لیے۔ یہاں سو کے قریب کارکن پولیس کے مہمان بنے۔ لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ کپتان جلد ہی جیل بھرو تحریک پر بھی یو ٹرن لے لیں گے۔ عجب ستم ظریفی ہے کہ کپتان نے دس ماہ میں بلا سوچے سمجھے دس تحریکیں شروع کیں سب ناکام ہوئیں۔ سارے بیانئے نا تجربہ کاری کا شاخسانہ، جیل بھرو تحریک کا کیا ہوگا۔ ”پلاﺅ پر نہیں برگر پر فاتحہ ہوگا“ دس تحریکوں سے کیا حاصل ہوا صرف پرویز الٰہی 9 ساتھیوں سمیت گلے سے آلگے۔ کپتان کے سارے گلے جاتے رہے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے بھی یہ سوچ کر کپتان کی بیعت کرلی کہ ”موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں“ کل کلاں پنجاب میں حکومت بننے پر ان کی موجیں ہوں گی۔ پرویز الٰہی کی شمولیت پر بھی سوال اٹھ گئے۔ کل تک جن کے ساتھ تھے ان سے مشورہ کرلیا؟ انہوں نے اجازت دے دی؟ نہیں دی تو مستقبل کیا ہوگا؟ اجازت دی تو کیا مستقبل میں کوئی نیا فارمولا زیر غور ہے؟ کیا پی ٹی آئی کو بھی کنگز پارٹی بنایا جائے گا؟ بھان متی کا کنبہ اسی طرح مکمل ہوگا۔ سوال زیر غور کپتان کو جیل بھرو تحریک کی ضرورت کیوں پڑی؟ دن رات کپتان کی گرفتاری کی خبریں آرہی ہیں۔ نیب کے چیئرمین آفتاب سلطان کے مستعفیٰ ہونے کے بعد ان کے ڈپٹی کو قائم چیئرمین بنادیا گیا۔ ان کے آتے ہی توشہ خانہ کیس میں کپتان اور ان کی اہلیہ کو 9 مارچ کو ریکارڈ سمیت طلب کرلیا گیا جمعہ
اور ہفتہ کی شب نیب کی ٹیم زمان پارک پہنچی اور انہیں طلبی کا نوٹس دیا جو ان کے وکیل نے وصول کیا۔ کام پکا ہو رہا ہے 28 فروری کو فرد جرم عائد ہونے کی خبریں ہیں۔ خاتون جج نے مسلسل عدم پیشی پر درخواست ضمانت مسترد کردی۔ لاہور ہائیکورٹ میں بھی ساڑھے 6 بجے شام تک کپتان کی پیشی کے انتظار کے بعد درخواست ضمانت مسترد ہوئی تاہم جسٹس طارق سلیم شیخ نے 20 فروری کو سماعت کی درخواست منظور کی۔ وکیل کی طرف سے عمران خان کے جعلی دستخط کے ساتھ درخواست کا معاملہ بھی اٹھ گیا۔ فاضل جسٹس نے ذاتی طور پر پیش ہونے کی شرط عائد کی۔ کپتان کی ایک ہی ضد، زخمی ٹانگ کی وجہ سے پیش نہیں ہوسکتا۔ ذرائع کے مطابق اسی دوران کالے شیشوں والی ایک گاڑی زمان پارک پہنچی۔ پولیس نے روک لیا۔ کپتان سے رابطہ کیا گیا انہوں نے گاڑی کو آنے کی اجازت دی۔ گاڑی والے گھر میں داخل ہوئے اور چند لمحوں میں واپس چلے گئے جس کے فوراً بعد کپتان نے عدالت میں پیشی کا اعلان کردیا۔ اللہ کی شان عدالتوں کے کہنے پر 12 پیشیوں پر غیر حاضر رہے لیکن گاڑی والوں کا کہا نہ ٹال سے۔ سہولت کار ابھی تک موجود ہیں۔ رہے نام اللہ کا۔ لاکھوں کارکنوں کو طلب کیا گیا۔ چار کالوں کے بعد دو تین سو کارکن آسکے۔ عدالت میں موجود وکلا نے فاضل جسٹس کو بتایا کہ کپتان آرہے ہیں۔ راستے میں ہیں جبکہ کپتان اس وقت خطاب کر رہے تھے۔ مشاورت کے بعد جلوس زمان پارک سے کس سج دھج سے نکلا، کپتان گلاب کی منوں پتیوں سے ڈھکی گاڑی میں سوار تھے۔ 56 ٹی وی چینلوں کے کیمرہ مین اور رپورٹرز کارکنوں سے زیادہ، چند فرلانگ کا فاصلہ دو گھنٹوں میں طے ہوا۔ لاہور ہائیکورٹ کے گیٹ کھول دیے گئے۔ عالی جاہ کی سواری باد بہاری دیگر گاڑیوں اور دو تین سو فدائین کے ”سمندر“ سمیت عدالت عالیہ کے احاطہ میں داخل ہوگئی۔ اس سے پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ ایک گیٹ بند ہوا ہے۔ باقی کھلے ہیں جن سے بدستور ریلیف مل رہا ہے۔ پھولوں کے شہر لاہور کے منوں تازہ گلاب لیڈر کی سج دھج پر نچھاور کردیے گئے۔ گلوں میں دوبارہ رنگ بھرنے تک گلشن کا کاروبار جانے کیسے چلے گا۔ کپتان ایک گھنٹہ گاڑی میں بیٹھے رہے۔ عدالت عالیہ محو انتظار، کیا ملک میں دو طرح کے قانون رائج ہیں؟ مقصد عدالت عالیہ کو دباﺅ میں لانا تھا کہ مجھے دوبارہ نہ بلانا ورنہ تین چار سو کارکنوں کا ”سمندر“ سارے انتطامات بہا کر لے جائے گا۔ فاضل جسٹس 7 بجے شام تک عدالت میں بیٹھے رہے۔ بے تاج بادشاہ نے پیغام بھیج کر عدالت خالی کرائی۔ پھر پوری بارات سمیت اندر داخل ہوئے جعلی دستخط سے دائر درخواست پر معذرت کی درخواست واپس لے لی گئی۔ پانچ منٹ میں 3 مارچ تک حفاظتی ضمانت مل گئی لیکن ضمانت کا کیا بھروسہ، 3 مارچ کو مسترد کردی گئی تو کیا ہوگا۔ اس کے لیے بندوبست ضروری، نامعلوم سمتوں سے بھی اسی قسم کے بندوبست کیے جا رہے ہیں۔ ریٹائرد جسٹس شائق عثمانی کے بقول چار گھنٹے کے اس ڈرامہ سے بہتر تھا جج صاحبان خود زمان پارک چلے جاتے۔ (خدا وہ وقت نہ لائے) ضمانتوں کے باوجود توشہ خانہ کیس، ٹیریان کیس، ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس، 50 ارب حوالگی کیس اور دیگر مقدمات میں گرفتاری کا خطرہ موجود، دباﺅ ڈالنے کے لیے جیل بھرو تحریک شروع کی گئی۔ اس کے ساتھ ہی عدالتوں میں ہونے والی کارروائیوں سے دوبارہ وزیر اعظم بننے کی خواہش کروٹیں لینے لگی۔ سپریم کورٹ نے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کو بحال کردیا۔ گویا پنجاب میں کپتان کی رٹ بحالی کے آثار نمایاں، قومی اسمبلی کے 70 مستعفیٰ ہونے والے ارکان بحال قومی اسمبلی کے شیڈولڈ انتخابات منسوخ، کپتان کے خط پر صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 57 (۱) کے اختیارات کے تحت پنجاب اور خیبرپختون خوا کے صوبائی الیکشن 9 اپریل کو کرانے کا حکم دے دیا۔ وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ صدر قانون بنانے والے نہ ہی قانون کی تشریح کرنے والے، وہ وزیر اعظم کی سفارشات پر عملدر آمد کے پابند، سابق وزیر اعظم کے حکم پر صوبائی الیکشن کی تاریخ نہیں دے سکتے۔ یہ اختیار صوبائی گورنروں کا ہے۔ یہ تنازع چل رہا تھا کہ سپریم کورٹ کے فاضل چیف جسٹس نے سی سی پی او لاہور کے کیس کے دوران ہی صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کا ذکر چھیڑ دیا۔ اور سو موٹو نوٹس لیتے ہوئے 9 رکنی لارجرز بینچ بنا کر سماعت شروع کردی تاہم حال ہی میں لیک ہونے والی تین چار آڈیوز کے تناظر میں بینچ کے دو فاضل ججوں کی شمولیت پر اعتراضات سامنے آگئے۔ کپتان ان آڈیوز اور مستقبل میں آنے والی نجی اور خطرناک ویڈیوز کی اطلاع پر جلدی گھبرا گئے اور ان کی تحقیقات کے لیے چیف جسٹس کو خط لکھ مارا ساری ویڈیوز ان کے اپنے دور میں حلال تھیں مگر اپنے گھر سے دھواں اٹھنے لگا تو حرام قرار پائیں۔ سوشل میڈیا پر طوفان بپا ہوا تو کھڑاک سپریم کورٹ تک سنا گیا۔ بڑوں کی غیر رسمی بیٹھک میں گونج ضرور سنائی دی ہوا کچھ نہیں بار کونسلز نے 6 ریفرنسز سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کرنے کا اعلان کردیا۔ جو ہو سو ہو بادی النظر میں پورا ملک قانون ساز اداروں کی بجائے آئین کی تشریح کرنے والوں کے دم قدم سے چل رہا ہے۔ کپتان کو اِدھر اُدھر سے تھپکیوں کی ضرورت ہے گزشتہ سالوں سے وہ ان تھپکیوں کے سہارے ہی اپنی سیاست چمکا رہے ہیں، یہ تاثر بجا کہ صرف کپتان کو ہی کیوں ریلیف مل رہا ہے۔ 20 ایف آئی آر پر بھی بندہ محفوظ، اس سے ان کے حوصلے بڑھ گئے ہیں۔ اور وہ اپنے تحفظ کے علاوہ جلد انتخابات کے لیے جیل بھرو تحریک قسم کے بیانیوں سے وفاقی حکومت پر بھی دباﺅ بڑھا رہے ہیں۔ تاہم جیل بھرو تحریک کی بظاہر ناکامی کے بعد ان کی زنبیل میں مزید کھیل تماشے ختم ہوگئے ہیں۔ ایک آخری کال باقی ہے جو سول نافرمانی اور خانہ جنگی کی صورت میں آسکتی ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ وفاقی حکومت نے بھی سائیوں کے آگے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا ہے اور ریورس گیئر کی بجائے پانچواں گیئر لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ادارے آمنے سامنے آتے دکھائی دیتے ہیں۔ باہمی لڑائی کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ مقنہ خم ٹھونک کر سامنے آگئی تو وہ خوفناک رن پڑے گا کہ یار لوگ رات دن خط لکھنے بھول جائیں گے۔ فرد واحد نے ایک ”گیٹ“ بند ہوجانے کے بعد دوسرے دروازے پر دستک دینے کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور وہاں سے سہولت کاری کے جو پھول نچھاور کیے جاتے رہے ہیں اس وارفتگی کی مزاحمت کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ مریم نواز نے پہلا پتھر پھینک دیا۔ نتیجہ کیا ہوگا۔ آئین لپیٹا جائے گا۔ دوبارہ لکھا جائے گا۔ یا اسی آئین پر اسی آئین پرعن وعدن عملدرآمد ہوگا۔ مناظر دھندلے ہیں۔ خوفناک اشارے مل رہے ہیں۔ دھول اڑ رہی ہے۔ دھول بیٹھے گی تو نکھرے چہرے سامنے آئیں گے۔ سیانوں کا کہنا ہے کہ صدر کے حکم پر صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن نہیں ہوں گے بلکہ قومی اسمبلی کے ساتھ اکٹھے ہوں گے۔ کچھ ناخوشگوار ہوا تو مستقبل قریب میں تاریخ پردہ اٹھائے گی کہ ملک میں 5 سال کے دوران کیا ہوتا رہا کچھ لوگ ظالم، کچھ منافق اور کچھ بزدل تھے۔ تینوں نے ملک تباہ کردیا۔ سیف الدین کا شعر یاد آگیا۔ ”بڑے خطرے میں حسن گلستاں ہے ہم نہ کہتے تھے۔
چمن تک آگئی دیوار زنداں ہم نہ کہتے تھے“ اللہ تعالیٰ اپنا کرم کرے۔

تبصرے بند ہیں.