حیلے بہانے

13

جمہوری ادوار کا اگر ہم گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ہر دور میں خواہ کوئی بھی سیاسی جماعت برسر اقتدار ہو مختلف طرح سے حیلے بہانے کرتے ہی دکھائی دیتی ہے۔اپنی شاہ خرچیاں اور زندگی گزارنے کا ڈھنگ کبھی نہیں بدلا اگر بدلا کچھ تو عوام کے ہی طور طریقے یہ اپنے کپڑے بیچنے کی بات کرتے ہیں یہ تو اتنے بے حس ہیں ان کے اختیار میں نہیں کہ یہ عوام کی چمڑی اور ہڈیاں تک بیچ ڈالیں۔یہ سب ان کی باتیں اور حیلے بہانے ہر دور میں رہے ہیں مگر چھری ہمیشہ عوام کی گردن پہ ہی چلی ہے۔
اسی بات سے ایک مثال یاد آتی ہے جو موجودہ صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔ ہمارے سیاستدان کیسے عوام پہ چھری چلانے کے حیلے بہانے تلاش کرتے ہیں بالکل ٹھیک اُسی طرح جس طرح ایک شخص نے ایک مرغا پالا تھا،مالک نے مرغے کو ذبح کرنے کا بہانہ سوچا اور مرغے سے کہا کہ کل سے تم نے اذان نہیں دینی ورنہ ذبح کر دونگا۔مرغے نے کہا ٹھیک ہے آقا جو آپ کی مرضی!صبح جونہی مرغے کی اذان کا وقت ہوا تو مالک نے دیکھا مرغے نے اذان تو نہیں دی لیکن حسب عادت اپنے پروں کو زور زور سے پھڑ پھڑایا، مالک نے اگلا فرمان جاری کیاکہ کل سے تم نے پر بھی نہیں مارنے ورنہ ذبح کر دوں گا،اگلے روز مرغے نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پر بھی نہیں ہلائے لیکن عادت سے مجبوری کے تحت گردن کو لمبا کرکے اوپر اُٹھایا،مالک نے اگلا حکم دیا کہ کل سے گردن کو لمبا کرکے اوپر بھی نہیں اُٹھاؤ گے، اگلے دن مرغا بالکل مرغی بن کے دبک کر بیٹھ گیا، مالک نے سوچا یہ تو بات نہیں بنی اب کیوں نا کوئی نیا حربہ سوچا جائے،مالک نے مرغے کو حکم دیا کہ کل سے تم نے مجھے انڈہ دینا ہے،ورنہ ذبح کر دونگا،اب مرغے کو اپنی موت صاف دکھائی دینے لگی اور وہ زارو قطار رونے لگا،مالک نے پوچھا کیوں موت سے ڈر رہے ہو؟
مرغے کا جواب بڑا ہی باکمال اور با معنی تھا کہنے لگا نہیں،میں اس بات پہ رو رہا ہوں کہ انڈے سے بہتر تھا میں اذان دے کر مرتا، ہمارے سیاستدانوں کی صورتحال اُس مرغے کے مالک جیسی ہے اور عوام کی صورتحال مرغے جیسی ہے جو بعد میں سوچتے ہیں کہ کاش ہم ایسا کر لیتے مگر
سیاستدان بھی کھلاڑی ہیں وہ عوام پہ چھری چلانے کے بہانے آخر ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔اگر عوام ان تمام سیاسی جماعتوں کے خلاف متحد ہو جائیں اور ہر مہنگی چیز سے بائیکاٹ کر دیں تو ان کی عقل خودبخود ٹھکانے آجائے گی۔
یہ وزیر مشیر عوام کو تو کفایت شعاری کا درس دیتے ہیں مگر خود اپنی ذات کو ان تمام چیزوں سے بالا تر سمجھتے ہیں۔
قومی اسمبلی سے 170 ارب روپے کی منظوری کے بعد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی قسط اجرا کی راہ ہموار ہو چُکی ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس منظوری کے وقت کیا اُن لوگوں کے بارے میں سوچا گیا جو ماہانہ،15سے 20ہزار کماتے ہیں اُن کا گزر بسر کیسے ہوگا۔گیس کے نرخوں میں اضافے کے بعد جو بل آئے عوام کے چارو طبق روشن کر دئیے،اور اب گیس کے یونٹ میں مزید اضافہ فی یونٹ 14 روپے ہو جائے گااب اس اضافے کے بعد گرمیوں میں پنکھوں کے بل اے سی کے بلوں کے مترادف ہونگے جو کبھی ایک سال پہلے اے سی کا بل آیا کرتا تھا مگر اب پنکھے کا وہ بل آئے گا لوڈشیڈنگ کا الگ سے سامنا رہے گا، انرجی کرائسس کا ایک فیکٹر یہ بھی ہے کہ ہم تین ہزار ارب روپے کی بجلی بناتے ہیں لیکن صرف 1550ارب روپے کو اکٹھا کر پاتے ہیں۔
پاور سیکٹر کو بجلی چوری اور لائن لاسز جیسے مسائل کا سامنا ہے۔اس صورتحال میں حکومت کو آئی ایم ایف کا سالانہ ہدف پورا کرنے کیلئے وصولیاتی کا نظام بہتر بنانے اور کفایت شعاری سمیت کئی اقدامات پر خاص توجہ دینا ہوگی کیونکہ عام آدمی کے لیے پہلے ہی مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ پہلے ہی جان لیوا ہو چکا ہے۔وزیر اعظم کا بچت پلان عوام کو لالی پاپ کے سوا کچھ نہیں جو بے سود ثابت ہوگا،کیونکہ نا تو یہ لگژری گاڑیوں کے بنا رہ سکتے ہیں اور نہ ہی پروٹوکول کے بنا۔
اسی طرح ہمارے قرضوں کا حجم مجموعی ملکی پیداوار کے 90%سے تجاوز کر چُکا ہے۔ قرضوں کے اس بوجھ نے ہمیں اُن ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا ہے جنہیں حالیہ کچھ عرصہ سے اپنے واجبات کی ادائیگی کے شدید مسائل کا سامنا ہے مثال کے طور پہ سری لنکا، ارجنٹائن اور کئی افریقی ممالک شامل ہیں۔اس بحران سے نکلنے کے لیے قومی سطح پہ بچت ضروری ہے اور ساتھ پلاننگ کی بھی ضرورت ہے کیونکہ ہر بار ملک قرضوں سے نہیں چلے گا۔
قرض لینے کی شرح اتنی ہی تیز رہی تو وہ وقت زیادہ دور نہیں کہ ملک میں خانہ جنگی شروع ہو جائے۔خانہ جنگی کے لیے کسی بارود،یا توپ کے گولے کی ضرورت نہیں اُس کے لیے بھوک ہی کافی ہے، یہ بھاگ بھاگ کے آئی ایم ایف کے پاس تو جاتے ہیں میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ ان کے گھروں کی تلاشی لی جائے،اربوں ڈالر ان کے گھروں سے ان کے بیڈ کے نیچے سے ہی برآمد ہونگے ان کے بینک لاکرز کی تلاشی لی جائے وہاں سے بہت کچھ ملے گا۔
ملک و قوم سے اتنی ہی ہمدردی ہے ان لوگوں کو تو وہ چھپایا ہوا مال نکالیں۔ شریف فیملی لندن جا کر پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کر سکتی ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں کر سکتی، بند کریں یہ پروٹوکول،ایک ایک وزیر مشیر اور بیوروکریٹس کے ہاں دس،دس گاڑیاں کھڑی ہیں کیوں یہ رولنگ کلاس ملک کے لیے قربانی نہیں دے سکتے۔
ہمارے ملک کی اصل وجہ ناکامی یہ ہے کہ ہماری زراعت کی پالیسی کاروباری یا صنعتکار بناتا ہے اور غریب کی پالیسی امیر لوگ بناتے ہیں جس نے کبھی غربت نہیں دیکھی ہوتی جو سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوتے ہیں،پھر کاہے کی درستگی،کاہے کی تبدیلی اور کیسا غریب کا درد، یہ صرف اور صرف گفتگو کا موضوع ہیں۔مگر اس کے باوجود روز بہ روز مہنگائی اپنے عروج پہ ہے۔کابینہ کا غیر معمولی حجم بھی اپنی جگہ قائم و دائم ہے۔ عوام کا ہمارے وزیراعظم کو اتنا خیال ہے تو سب سے پہلے کابینہ چھوٹی کرتے،آج ہم معاشی تنگی کا شکار ہیں بلکہ کفایت شعاری کو ایک مستقل قومی رویہ بنانے کی ضرورت ہے کفایت شعاری کی موسمی مہموں سے صرف وقتی افاقہ ہی ممکن ہے جبکہ ہمیں اسراف اور قومی دولت کے زیاں کا دیرینہ عارضہ لاحق ہے۔ سیاسی اشرافیہ اور ذمہ داران کو ملک کی عزت کا بھی خیال ہوتا تو یہ اپنے چھپائے ہوئے ڈالر اور اپنے غیر ملکی اثاثے ہی واپس لے آتے تو کبھی ہمیں آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑتا۔
آخری بات یہ کہ آئی ایم ایف سے پیسے لینے کے بعد بھی کسی درست جگہ پہ خرچ نہیں ہونگے نوبت پھر جوں کی توں ہی رہے گی،رقم کا تیسرا حصہ خرچ ہوگا باقی سارا خرد برد ہوگا ایسا ہوتا رہا ہے اور ہوتا ہی رہے گا۔

تبصرے بند ہیں.