انصاف کا قتل

133

اگلے روز مرتضیٰ سولنگی کا پروگرام دیکھ رہا تھا جس میں انہوں نے ایک جملے میں عدالتی تاریخ کو بند کر دیا ”پاکستان میں انصاف کا جو سب سے زیادہ قتل ہوا ہے وہ عدالتوں کے کمرے میں ہوا ہے۔ بدقسمتی سے ماضی قریب کی جو مثالیں ہیں وہ اسی بات کو ثابت کرتی ہیں۔ حکومت ایک ذمہ دار ادارہ ہے اگر حکومت کے پاس کوئی ثبوت ہے تو تقریریں نہ کرے، سیدھا سیدھا آرٹیکل 209 کے تحت ریفرنس دائر کرے“۔ وطن عزیز کے عوام، ملک اور قوم یوں تو ہمیشہ ہی نازک دور سے گزرے ہیں مگر ایسا نازک اور ذلت بھرا دور پہلے دیکھنے میں نہ آیا۔ لوگوں میں غیر جانبداری، آنکھ میں قدرے حیا اور اقدار کا پاس تھا مگر چلتے لمحے میں سب کچھ ڈھیر ہو گیا۔ آج کا المیہ ہے کہ لوگوں کو کسی پر بھروسہ نہیں رہا۔ کسی ادارہ کی، کسی سٹیک ہولڈر کی عزت محفوظ نہیں رہی۔ بدعنوانوں کی بات اور ہے، آج لوگ اپنے فرائض منصبی محض اس لیے انجام نہیں دے پا رہے کہ ایک رنگ باز سیاسی شعبدہ باز نے ٹوئٹر کے ذریعے اور جھوٹ کے بل بوتے پر سب کچھ ملیا میٹ کر رکھا ہے۔ 1977 ہے، مقبول ترین رہنما ہائی کورٹ میں پیش ہوتے جناب ذوالفقار علی بھٹو مال روڈ کے دونوں اطراف خود بخود آئے ہوئے لوگ اپنے محبوب قائد کو دیکھنے کھڑے ہیں۔ مارشل لا کا خوف، موت سے بدتر جگہ جگہ خفیہ والے۔ زبان خاموش اور ہر نظر اس گاڑی کی طرف جس میں ان کا محبوب قائد ہے مگر فریب دینے کے لیے حکومت کی قیمتی گاڑیاں دو چار گزرتی ہیں لوگ سمجھتے ہیں اشارے کرتے ہیں اس میں بھٹو صاحب ہیں مگر وہ فوکسی کار (فوکس وین) جس کے شیشے سے دکھائی نہیں دیتا، میں لائے جاتے ہیں۔ ایک منظر اب دیکھا خود کو مقبول اور بہادر کہنے والا 8 پیشیوں پر نہیں آتا۔ ساری مال روڈ بلاک ہے کہ اس کی سواری 5/10 منٹ میں ہائی کورٹ پہنچ جائے مگر یہ اذیت رساں خود ساختہ مقبول اپنے موٹر سائیکل سواروں کو آگے چیونٹی کی رفتار سے چلاتا ہے، شہر کا نظام درہم برہم کرتا ہے۔ عدالت پہنچ کر دو گھنٹے باہر کھڑا رہتا ہے اور بہانہ کرتا ہے کہ ایک جھٹکا لگا تو پھر 3 مہینے مزید لگ جائیں گے۔ جیسے کانچ کی ٹانگ ہے۔ چھرا
بھی پتہ نہیں لگا کہ نہیں، جعلی زخمی اور عدالت کے بھی قربان جائیں۔ عام حالات میں حفاظتی ضمانت یا ضمانت قبل از گرفتاری والا آواز پڑنے پر ایک منٹ لیٹ ہو جائے اس کی درخواست ماضی بن چکی ہوتی ہے۔ مگر نیازی صاحب تو اشتہاری ہو کر بھی سپریم کورٹ میں وزیراعظم میاں نوازشریف کے خلاف پیش ہو کر ان کو نا اہل کرا گئے۔ عدالت نے فیصلہ سنانے سے بہت پہلے ریمارکس دیئے کہ ایسا فیصلہ دیں گے لوگ 20 سال یاد رکھیں گے۔ میاں صاحب وزیراعظم ہو کر بھی 18 ویں سکیل کے ملازمین کے سامنے پیش ہوتے رہے، سارا خاندان پیش ہوتا رہا، نااہل ہوئے، گرفتار ہوئے، قید ہوئے، لندن سے آ کر جیل چلے گئے اور بڑے بڑے نو دولتیے اینکر اور دانشور سیاست کار مطالبہ کرتے ہیں کہ میاں صاحب لندن سے واپس آ کر جیل جائیں اور نیازی صاحب ہیں کہ زمان پارک سے عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔ اپنی ٹانگ کا ایک عدد ڈاکٹری معائنہ سرکاری ہسپتال سے کرا لیں۔ اللہ دنوں کو انسانوں میں پھیرتا رہتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ نیازی صاحب کی اداروں میں حمایت اداروں کے لیے عوام کی نظروں میں کوئی زیادہ تشویش کا سبب نہ تھی مگر پھر وقت آیا کہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنی ساکھ بچانے کے لیے غیر جانبدار ہونا پڑا اور جنرل باجوہ طاقت کی جگہ طعنہ بن گئے۔ وہی جنرل باجوہ جن کے بارے میں نیازی صاحب کہتے تھے کہ پاکستان کی تاریخ کے بہترین جرنیل ہیں، تیسرے مہینے ہی الیکشن کا فیصلہ کر لیا تھا پھر عمر بھر کی ایکسٹینشن کی بات بھی کی۔ آج وہی باجوہ ہی تمام برائیوں اور ناکامیوں کا سبب لگنے لگے ہیں۔ وہی مسئلہ اب عدلیہ کے ساتھ ہے جو نیازی صاحب کی حمایت میں آئے اس کو عمران دار کہا جانے لگا کیونکہ اللہ کریم حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ عدلیہ کے بعض ججز حد سے گزر گئے، صد افسوس کہ میڈیا ہاؤسز، ٹی وی چینلز، کالم نگاروں، اینکرز اور تجزیہ کاروں کی طرح لوگ اعلیٰ عدلیہ کا بنچ اور جج دیکھ کر فیصلہ سمجھ جاتے ہیں۔ یقین کریں مجھے انتہائی دکھ ہے کہ ہمارے ملک، تاریخ اور سرزمین نے قاضی فائز عیسیٰ جیسے جج کو اپنے ساتھی ججوں کے کٹہرے میں دیکھا، وہ بھی اپنی فیملی کے ساتھ۔ ایک ضرب المثل جسٹس کیانی، دراب پٹیل اور کارنیلیئس کے سلسلے کی کڑی جو قوم کو آٹے میں نمک برابر نصیب ہوئے کو جب کٹہرے اور ایف بی آر جیسے ”اعلیٰ شہرت یافتہ“ ادارے کی پوسٹنگ پر زبح ہو جانے والے افسروں کے رحم و کرم پر دیکھا تو یقین ہو گیا کہ انصاف نام کی چیز اس سر زمین پر نہیں رہی۔ جسٹس منیر کے لیٹ جانے کے بعد جو ملک دولخت ہونے کا سبب بنا، قوم کو پھانسی تو 4 اپریل 1979 کو دے ہی چکے تھے مگر اس کے بعد گاہے گاہے دفناتے رہتے ہیں۔ آج بھروسے اور اعتماد کا قحط ہے، غیر جانبداری اور انصاف کا قحط ہے۔
نیازی صاحب کہتے ہیں شہبازشریف یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، آپ کی تمام باتیں ریکارڈ ہو رہی ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ کہہ کون رہا ہے؟ جس کی اپنی تقریریں دعوے اور وعدے ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں، جو جھوٹ کا استعارہ بن چکا۔ نیازی صاحب سے کسی نے سوال کیا کہ آپ کی بھی کردار کہانی سامنے لائی جا سکتی ہے۔ وہ کہنے لگے ریحام خان کی کتاب سے زیادہ کیا ہو گا اور واقعی پھر کیا ہوا کہ آڈیوز آ گئیں تو لوگوں کے گناہوں پر پردہ پوشی یاد آ گئی۔ آج پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو سب سے بڑا سیاسی سرمایہ بن گیا۔ مختصر یہ کہ نیازی صاحب کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ بقول ان کے ریحام خان کی کتاب سے بڑھ کر کیا ہو گا؟ مگر لوگوں میں سٹیک ہولڈر میں اپنے اور اپنے خاندان کی عزت کی فکر باقی ہے جو عمران نیازی کا نامعلوم گالیاں بکنے والا گروہ لوگوں کی عزت تار تار کرتا رہتا ہے۔ میرا دعویٰ ہے جس دن کسی نے نیازی صاحب کو جلسہ میں گالی دے دی، آئینہ دکھا دیا۔ پیرنی کی زندگی دہرا دی، دیگر معاملات اچھال دیئے، ٹوئٹر پر بقول مبشر لقمان کے بھونکنے والوں کی پروا نہ کی عمران نیازی کسی کو اس دن کے بعد گالی نہیں دیں گے جیسے انیق ناجی اوریا مقبول جان کو اوریا کذاب کہتا ہے (جو تہذیب کے خلاف ہے) لیکن اوریا مقبول جان بھی ادھر منہ نہیں کرتا جدھر سے ایسے القابات آتے ہیں۔ بہر حال قتل عام جاری روایات، انصاف، بھروسے، اعتماد کا جو ایک بار چلا جائے تو پھر بحالی مشکل ہی نہیں نا ممکن ہوا کرتی ہے لہٰذا عدلیہ کو اپنے وقار کی خاطر انتظامی امور اور پارلیمانی اختیار میں مداخلت سے دور رہنا ہو گا۔ اپنا ہی ریکارڈ ہر دور میں اپنے ہی کارناموں سے توڑنے کا اداروں میں رجحان تشویش ناک ہے۔

تبصرے بند ہیں.