جیل بھرو تحریک اور آپریشن ڈیسٹرائے پاکستان

32

عمران خان کی جیل بھرو تحریک کا شہر لاہور میں بہت شاندار آغاز ہوا۔ پی ٹی آئی والے نہا دھو کر صاف ستھرے کپڑے پہن کر، بن سنور کر اسمبلی ہال کے سامنے مال روڈ پر اکٹھے ہوئے ڈھول ڈھمکے کے ساتھ، لاؤ لشکر سمیت آئے کیمرے کی آنکھ نے ایسے مناظر خوب دکھائے۔ اس دوران ٹریفک جام ہونے کے باعث شہریوں کو جس عذاب سے گزرنا پڑا وہ کہیں نہیں دکھایا گیا۔ ایسے میں حکومت بھی کہیں نظر نہیں آئی۔ نظر آئے تو پی ٹی آئی کے ٹائیگر، عمران خان کے جیالے، ملک میں تبدیلی لانے والے، ریاست مدینہ قائم کرنے والے۔ حکومت وقت کو جیل بھرو تحریک کے ذریعے الیکشن کے انعقاد کی تاریخ کا اعلان کرنے پر مجبور کرنے والے عمرانی جیالے۔ اجتماع بہت خوب تھا رونق ہی رونق تھی۔ سیلفیاں بن رہی تھیں ایسے لگ رہا تھا کہ یہ سب جیل جانے کی مکمل تیاری کر کے آئے ہیں لیکن ایسا نہیں تھا ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ایک رہنما زبیر نیازی سیلفیاں بنوانے کے بعد اپنی گاڑی میں بیٹھنے کے لئے روانہ ہوئے ابھی وہ اپنی سواری تک پہنچ ہی پائے تھے کہ کسی اہلکار نے نشاندہی کر دی پھر انہیں بھاگتے ہوئے پکڑ کر وین میں ڈالا گیا۔ کیمرے کی آنکھ نے یہ بھی دکھایا کہ پولیس میگافون پر اعلان کر رہی ہے کہ آؤ پرزن وین یہاں ہے جو جیل جانا چاہتے ہیں وہ آئیں تاکہ انہیں جیل بھرنے کے لئے لے جایا جائے لیکن نتائج مثبت نہیں نکلے۔ ٹائیگر، بلی بھی ثابت نہیں ہوئے صرف 81 افراد نے اپنے آپ کو جیل جانے کے لئے پیش کیا۔ لاہور جیسے شہر میں جہاں عمران خان ایک عرصے سے چھپے بیٹھے ہیں زمان پارک سیاسی سرگرمیوں کامرکز بنا ہوا ہے یہاں بیٹھ کر عمران خان قومی سیاست کو اپنی مرضی و منشا کے مطابق ترتیب دینے میں مصروف ہیں وہاں بیٹھ کر انہوں نے ہزاروں افراد سے حلف وفاداری بھی لیا۔ جیل بھرو تحریک کے رضاکاروں کی لسٹیں بھی تیار ہوئیں لیکن جب وقت آیا تو پولیس کو اعلان کرنا پڑا کہ صاحبو آؤ تاکہ جلد عازم جیل ہوا جائے۔ 81 ٹائیگر، صرف 81 شیر نکلے اور بس باقی سب کچھ کاغذی اور زبان کلامی ہی ثابت ہوا۔ انتہائی مایوس کن ابتدا ہے جیل بھرو تحریک کی۔ حکومت نے بھی تحریکی بھائیوں کے ساتھ ہتھ کر دیا ہے 81 افراد کو میاں والی، اٹک، رحیم یار خان جیسے دور دراز علاقوں میں منتقل کر دیا ہے۔ 16 ایم پی او کی دفعہ لگا دی ہے جس کی ضمانت ہی مشکل سے ہوتی ہے اس دفعہ کے تحت گرفتار شدگان کو ہرکس و ناکس کے ساتھ ملاقات کی بھی اجازت نہیں ہوتی ہے معاملات مشکل ہو گئے ہیں۔ اگلے روز پشاور میں تو جیل بھرو تحریک کی حد ہی ہو گئی صرف سیلفیوں تک محدود جیل بھرو تحریک مکمل طورپر ناکام دکھائی دی۔ لاہور سے گرفتار ٹائیگرز کے ساتھ جو کچھ ہوا اور انہیں پکڑ کر دور دراز جیلوں تک لے جایا گیا اسے دیکھتے ہوئے پشاوری ٹائیگرز نے صرف سیلفیوں تک جیل بھرنے پر اکتفا کیا۔ تحریک
کے تیسرے مرحلے میں راولپنڈی سے گرفتاریاں ہو رہی ہیں جب یہ کالم چھپے گا تو صورت حال واضح ہو چکی ہو گی۔ امید واثق ہے کہ یہاں بھی ڈرامہ ہی ہو گا ہاں یہاں لاہور اور پشاور کی نسبت بڑا ڈرامہ سٹیج ہو گا کیونکہ یہاں پر شیخ رشید صاحب موجود ہوں گے اور ڈرامے کرنے، کہنے اور سننے سنانے میں انہیں یدِطولیٰ حاصل ہے اس لئے یہاں لاہور اور پشاور کی نسبت بہتر اور اعلیٰ ڈرامہ سٹیج ہو گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے؟ اور کیوں ہو رہا ہے؟ کیا ہو رہا ہے تو اس کا جواب تو ہمارے سامنے ہے عمران خان 10 اپریل 2022 کو اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سے ہنوز ہر شے کو تہہ و بالا کرنے میں مصروف نظر آ رہے ہیں ان کی ایک ایک حرکت، ایک ایک بیان، آتش و آہن کی بارش بن کر برس رہا ہے وہ جاری سسٹم کو ملیامیٹ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کبھی قومی اسمبلی سے مستعفی ہو کر، کبھی استعفیٰ واپس لے کر، کبھی پنجاب و کے پی کے اسمبلیوں کو تحلیل کر کے، کبھی لانگ و شارٹ مارچ کر کے اور اب جیل بھرو تحریک کا ہوا کھڑا کر کے وہ جاری سیاسی نظم و نسق کو تباہ و برباد کرنے پر تلے بیٹھے ہیں کچھ دیدہ قوتیں کسی نادیدہ قوت کے زیراثر انہیں ایک مہان سیاست دان، عوامی لیڈر اور تبدیلی کے استعارے کے طور پر پیش کرتی نظر آ رہی ہیں۔ ایک عرصے سے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ عمران خان عوامی پذیرائی کے عرش بریں تک پہنچے ہوئے ہیں ان کے جیالے ٹائیگر ہر شے کونیست و نابود کر سکتے ہیں۔ حکومت ڈری سہمی ہوئی ہے، نامقبول ہو چکی ہے اس لئے الیکشنوں سے بھاگ رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ عمران خان کی عوامی پذیرائی جھوٹ کا ایک ایسا انبوہ عظیم ثابت ہو چکا ہے جس میں کچھ بھی نہیں ہے عمران خان ماضی قریب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں 9 نشستوں پر خود اکیلے ہی کھڑے ہو گئے تھے۔ ضمنی انتخابات انہی نشستوں پر ہوئے تھے جو تحریک انصاف کے ممبران کے استعفوں سے خالی قرار پائی تھیں۔ پی ٹی آئی اپنی ہی چھوڑی ہوئی نشستوں میں سے دو نشستیں ہار گئی تھی ایک نشست فرزند ملتان شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی ہار گئی اور دوسری کراچی سے پیپلز پارٹی کے امیدوار نے جیت لی۔ ہم نے دیکھا کہ پی ٹی آئی نے اپنی ہی دو نشستیں ہارنے کے باوجود جشن منایا۔ شرمناک جشن۔ پھر 26 نومبر 2022 کو راولپنڈی میں خیمہ بستی بسا کر قیام کرنے کا منصوبہ جس طرح فیل ہوا وہ بھی اپنی ایک تاریخ رکھتا ہے۔ پھر لانگ مارچ کی ناکامی کو وزیر آباد کے قاتلانہ حملے کی آڑ میں چھپانے کی کوشش۔ لبرٹی مارکیٹ اور پھر گورنر ہاؤس کے سامنے ناکام اجتماعات کی ناکامیوں کا تسلسل عمرانی جماعت کی عوامی پذیرائی کے ایسے منہ بولتے نہیں چنگھاڑتے ثبوت ہیں جو عوام کی توجہ چاہتے ہیں۔ رہی سہی کسر جیل بھرو تحریک کے شرمناک آغاز اور جاری انجام نے پوری کردی ہے۔ عمران خان کی کہہ مکرنیاں عوام کے سامنے آ بھی چکی ہیں اور آ بھی رہی ہیں ان کی عوامی پذیرائی کا ہوّا بھی رفوچکر ہوتا نظر آرہا ہے لیکن وہ جھوٹ کے سہارے اپنے مشن میں لگے ہوئے ہیں اور اس میں انہیں کامیابی بھی ہو رہی ہے اوروہ ہے ”مشن ڈیسٹرائے پاکستان“۔ وہ بڑی یکسوئی کے ساتھ اور بڑی کامیابی کے ساتھ اس مشن میں کامیاب ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستانی سیاست کو اس قدر غیرمستحکم کر دیا ہے کہ معیشت اس کے بوجھ تلے دبی کراہ رہی ہے قومی معاشرت تو ایک عرصے سے ان کی طرز سیاست کا شکار ہو چکی ہے دشنام اور گالم گلوچ کا کلچر فروغ پا چکا ہے۔ عدم برداشت، جھوٹ اور مکر کی دیوانی ایک نسل تیار ہو چکی ہے عمران خان کو جس مشن کے لئے نادیدہ قوتوں نے 1995 میں لانچ کیا تھا وہ بڑے احسن طریقے سے اس کی کامیابی کے لئے جُتے ہوئے ہیں۔ وہ چاہے ایوان اقتدار میں ہوں یا باہر، بنی گالا میں ہوں یا زمان پارک میں، انہوں نے ایک لمحے کے لئے بھی اپنی نظریں اس مشن سے نہیں ہٹائی ہیں۔ دوسری طرف حکمران اتحاد ہے جب یہ لوگ اقتدار سے باہر تھے تو فیض حمید اور ہمنواؤں کی چالوں کے باعث کچھ نہ کرنے کی قسم اٹھائے بیٹھے تھے اور آج یہ اپنی ناکامیوں کے باعث کچھ بھی کرنے میں کامیاب نظر نہیں آ رہے ہیں پاکستان کی تباہی کا مشن جاری لگ رہا ہے۔ باقی حقیقت تو اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کو ہی پتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.