پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات پر از خود نوٹس کیس،حکومت نے جسٹس اعجاز اور جسٹس مظاہر پر اعتراض کردیا

36

 

اسلام آباد: پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کی تاریخ نہ دینے کے تنازع پر سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی  ہے۔

 

چیف جسٹس کی سربراہی میں بننے والے نو رکنی لارجر بینچ  نے کیس کی سماعت کی جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔

 

سماعت شروع ہوئی تو پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے پیپلز پارٹی ، ن لیگ اور جے یوآئی کا مشترکہ نوٹ پڑھ کر سنایا۔نوٹ میں  جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر پر اعتراض اٹھا یا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہدایات ہیں کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن بینچ سے علیحدہ ہوجائیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ججز کے معاملے پر آپ کو پیر کو سنیں گے۔

 

چیف جسٹس نے کہا کہ سوموٹو نوٹس لینے میرا اختیار ہے۔ 16 فروری کو فیصلہ 22 کو از خود نوٹس لیا۔ کیس کی سماعت پیر ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر رہے ہیں۔

 

گزشہ روز سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ انھیں اس از خود نوٹس پر تحفظات ہیں۔ یہ از خود نوٹس بعد میں لیا گیا مگر اس سے قبل دو اسمبلیوں (پنجاب، خیبرپختونخوا) کے سپیکروں کی درخواستیں دائر ہو چکی تھیں۔

 

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ چیف جسٹس نے یہ ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے نوٹ پر لیا جبکہ اس کیس میں چیف الیکشن کمشنر کو بھی بلایا گیا ہے جو کہ فریق نہیں ہیں۔

 

اُنہوں نے ریمارکس دے کہ ان حالات میں اُن کی رائے میں یہ کیس 184(3) کا نہیں بنتا۔ گذشتہ دنوں کچھ آڈیوز سامنے آئی ہیں جن میں سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری سپریم کورٹ کے کچھ ججز کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔

 

انہوں نے کہا کہ اس بینچ میں شامل دو ججز پہلے ہی اس معاملے پر اپنی رائے قائم کر چکے ہیں اور اس ازخود نوٹس کو لیتے ہوئے 10 (a) جو کے فری ٹرائل کے متعلقہ ہے کو نظر انداز کیا گیا۔

 

چیف جسٹس آف پاکستان نے اس موقع پر جسٹس مندوخیل کو کہا کہ یہ آپ کا نوٹ ہے ۔ تاہم بینچ کے سربراہ نے ان اعتراضات پر مزید کوئی بات نہیں کی۔

 

از خود نوٹس کی سماعت کے دوران بینچ میں موجود جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ آئین میں اسمبلیوں کی مدت پانچ سال ہے اور لوگوں نے اپنے نمائندوں کو پانچ سال کے لیے منتخب کیا ہے۔

 

انہوں نے کہا کہ عدالت نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ آیا وزیر اعلیٰ نے اسمبلی آئین میں رہتے ہوئے توڑی یا کسی سیاسی شخصیات کے کہنے پر توڑی۔

 

انہوں نے کہا کہ اگر عدالت سماعت کے دوران اس نتیجے پر پہنچے کہ اسمبلی توڑنے کے لیے آئینی تقاضے پورے نہیں کیے گئے تو ان اسمبلیوں کو بحال بھی کیا جا سکتا ہے۔

 

بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ‏آرٹیکل 224 کہتا ہے کہ 90 روز میں انتخابات ہوں گے۔

 

انہوں نے کہا کہ وقت جلدی سے گزر رہا ہے اور ہائیکورٹ میں معاملہ زیر التوا تھا مگر کوئی فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ انھوں نے کہا کہ عدالت کسی طور پر بھی آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی۔

 

اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے پہلا سوال یہ ہو گا کہ آیا اسمبلی آئین کے تحت تحلیل ہوئی بھی ہے یا نہیں۔

 

 

تبصرے بند ہیں.