وفاقی حکومت کی کفایت شعاری پالیسی!!

21

مہنگائی کا طوفان کسی طور تھمنے میں نہیں آ رہا ہے۔ حکومت اس قدر بے بس و لاچار ہے کہ آئی ۔ ایم۔ ایف کی شرائط کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ عمومی طور پر آئی۔ ایم ۔ ایف کی شرائط کا بوجھ عوام الناس کے کمزور کاندھوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اس صورتحال پر اکثر تبصرہ کیا جاتا ہے کہ نازک ملکی معیشت کی وجہ سے حکومت کو جو مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں، ان کا بوجھ غریب آ دمی پر ڈالنے کے بجائے اشرافیہ اور حکمران طبقے پرمنتقل ہوناچاہیے۔ یہ بات قابل جوا ز ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ حکومت کی طرف سے عوام الناس کو توکفایت شعاری کا درس دیا جاتا ہے، لیکن وزیروں، مشیروں، سرکاری افسروں اور دیگر اعلیٰ عہدیداران کی مراعات اور سہولیات اسی طرح جاری رہتی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہ صورتحال عام آدمی کے لئے تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔ عام شہری اپنے آپ کو قربانی کا بکرا محسوس کرنے لگتا ہے۔ اصولی طور پر ہونا یہ چاہیے کہ عام آدمی پر بوجھ ڈالنے کے ساتھ ساتھ مراعات یافتہ طبقہ بھی نازک معیشت کا بوجھ اٹھائے۔ بالکل اسی طرح بچت اور کفایت شعاری کی شروعات وزیروں، مشیروں، افسران اور دیگر حکومتی اراکین سے ہونی چاہیے۔اس سے عام شہری کو یہ پیغام جائے گا کہ حکمران طبقہ بھی اس مشکل میں ان کے ہم قدم ہے۔ چند دن پہلے وزیر اعظم شہباز شریف نے ایسا ہی ایک اعلان کیا تھا۔ کابینہ کی میٹنگ کے بعد یہ بات سننے میں آئی تھی کہ حکومتی سطح پر کفایت شعاری کو یقینی بنانے کے لئے ایک بڑا منصوبہ زیر غور ہے۔ دو دن پہلے وزیر اعظم شہباز شریف نے اس پلان کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے۔ وزیر اعظم نے اطلاع دی ہے کہ حکومتی سطح پر سادگی اور کفایت شعاری کی پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اس فیصلے کی روشنی میں سرکاری اداروں کے بجٹ میں کمی کی جائے گی۔ سرکاری ملازمین، کابینہ اور ارکان پارلیمان کی مراعات اور سہولیات میں بھی کٹوتی کا فیصلہ ہوا ہے۔قیمتی لگثری گاڑیوں اور پروٹوکول میں نمایاں کمی کی جائے گی۔کفایت شعاری مہم کے تحت تجویز ہوا ہے کہ سرکاری تقریبات میں ون ڈش کی پابندی ہو گی۔ غیر ملکی دوروں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ بجلی کے استعمال میں کمی لانے اور سیکیورٹی گاڑیاں واپس لینے کا فیصلہ بھی ہوا ہے۔یہ اعلان بھی ہوا ہے کہ وزراءتنخواہیں اور مراعات نہیں لیں گے۔ مہنگی گاڑیاں واپس کریں گے اور اپنے یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی اپنی جیب سے کریں گے۔بزنس کلاس میں سفر کرنے اور پنج ستارہ ہوٹل میں ٹھہرنے پر پابندی عائد ہو گی۔ وزیر اعظم کے دفتر کی طرف سے دفتر خارجہ کو ایک مراسلہ جاری کیا گیا ہے۔ مراسلے میں تجاویز مانگی گئی ہیں کہ کس طرح بیرون ملک مشنز کے اخراجات کو کم کر کے کفایت شعاری کی راہ اپنائی جا سکتی ہے۔ قومی کفایت شعاری کمیٹی نے بیرون ملک پاکستانی مشنز کے اخراجات میں 15 فیصد کٹوتی کی تجویز دی ہے۔بتایا گیا ہے کہ اس طرح 200 ارب روپے کی بچت ہو سکے گی۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان،چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے بھی درخواست کی جائے گی کہ عدلیہ کے اخراجات میں کمی کر کے اس کفایت شعاری مہم میں اپنا حصہ ڈالیں۔ اس ضمن میں وزارت دفاع اور وزارت خزانہ بھی سفارشات پیش کریں گی کہ کس طرح غیر جنگی نوعیت کے بجٹ میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
یہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔ اگر اس کفایت شعاری پلان پر واقعتا عمل ہوتا ہے تو یہ قابل تحسین اقدام ہوگا۔یوں بھی حکومتی وزیروں، سرکاری افسران اور اراکین پارلیمان کا پروٹوکول اکثر و بیشتر میڈیا پر زیر بحث رہتا ہے۔ ایک وزیریا افسر کے پیچھے درجنوں گاڑیوں کا قافلہ چلتا ہے۔ پولیس کی گاڑیاں بھی اس قافلے میں شامل ہوتی ہیں۔ اس طرح سینکڑوں لٹر تیل ضائع ہوتا ہے۔ پولیس جسے امن عامہ کی صورتحال بہتر بنانے کی ذمہ داری نبھانی ہوتی ہے، وہ اس کے بجائے حکومتی اراکین اور افسران کے پروٹوکول کی ذمہ داری نبھانے میں مصروف رہتی ہے۔ ٹی وی پر ایسے مناظر دیکھ کر عام آدمی کا دل جلتا ہے۔ اس کفایت شعاری مہم سے پروٹوکول اور لگثری گاڑیوں کے استعمال پر زد پڑتی ہے تو یہ اچھی بات ہے۔ نہایت ضروری ہے کہ وزیر اعظم کے اعلانات محض زبانی جمع خرچ تک محدود نہ رہیں۔ جو اعلانات ہوئے ہیں، ان پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔ اس سے دو سو ارب روپے کی بچت تو ہو گی ہی، علامتی طور پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ عوام میں حکومت کا اچھا تاثر ابھرے گا۔
شہباز شریف جب پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے ، تب بھی ان کے قریبی حلقوں میں ان کی کفایت شعاری کا تذکرہ ہوتا تھا۔ سنتے تھے کہ اپنے پانچ سالہ دور میں انہوں نے جتنے بھی سرکاری غیر ملکی دورے کئے ان کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کئے۔ ان کے وفد میں شامل افراد کو بھی یہی ہدایت تھی۔ وزیر اعظم پاکستان بننے کے بعد 2022 میں انہوں نے امریکہ کا سرکاری دورہ کیا۔ اس کے اخراجات بھی اپنی جیب دے ادا کئے۔ان سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ کفایت شعاری کے اس فیصلے کو یقینی بنائیں گے۔تاہم بہت اچھا ہوتا اگر وزیر اعظم شہباز شریف اپنی بھاری بھرکم کابینہ کے حجم پر ایک نظر ڈالتے اور اسے کم کرنے کی تدبیر کرتے۔ لیکن ہر دورمیں اتحادی حکومتوں کا یہی المیہ رہا ہے کہ اتحاد میں شامل ہر جماعت کو کابینہ میں حصہ دینا پڑتا ہے۔کاش اس اتحاد میں شامل دیگر جماعتیں ہی دل بڑا کریں اور اپنے وزیروں، مشیروں، معاونین وغیرہ کی تعداد میں رضاکارانہ طور پر کمی لائیں۔ اس بات کا انتظار بھی رہے گا کہ عدلیہ اور دفاعی ادارے اس مہم میں کیا حصہ ڈالتے ہیں۔ ان اداروں کا بھاری بجٹ بھی اکثر میڈیا پر زیر بحث آتا ہے۔ مراعات اور سہولیات کا ذکر بھی ہوتا ہے۔امید کی جا سکتی ہے اس ضمن میں بھی جلد اعلانات سامنے آئیں گے۔
یقینا حکومت نے اخلاص نیت سے یہ فیصلہ کیا ہے۔ لیکن اس میں ایک توازن بھی برقرار رہنا چاہیے۔ ہم اکثر سنتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک کے اعلیٰ حکومتی عہدیداروں اورافسران کے آگے پیچھے اس قدر پروٹوکول نہیں ہوتا۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وہاں کے ملکی حالات ہم سے کافی مختلف ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں امن عامہ کے سنگین مسائل موجود ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ کسی
وزیر ، مشیر ، سرکاری افسر کو واقعتا سیکیورٹی کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ہمارے ہاں حفاظتی حصار کو بھی پروٹول سمجھ کر اس پر تنقید کی جاتی ہے۔بالکل اسی طرح بہت سے غیر ملکی دورے بھی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔یہ دورے اہم قومی معاہدوں کی خاطرکئے جاتے ہیں۔ بہرحال امید ہے کہ اس مہم میں اعتدال کی راہ اختیار کی جائے گی۔
کفایت شعاری کی مہم اور دو سو ارب روپے کی بچت علامتی طور پر اچھا فیصلہ سہی ، لیکن عام آدمی کی زندگی پر اس کا کچھ خاص اثر نہیں پڑے گا۔ عام آدمی کی زندگی بہتر بنانے کے لئے قومی معیشت کی ڈوبتی کشتی کو درست سمت گامزن کرنا ہوگا۔عام آدمی کی زندگی تب آسان ہو گی جب ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نجات ملے گی۔جب روپے کی قدر بہتر ہو گی۔جب کاروبار چلتے رہیں گے اور درآمدات میں اضافہ ہوگا۔ جب سرکاری دفاتر اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے۔ یہ اور اس طرح کے دیگر معاملات میں بہتری آئے گی تو اس کے اثرات عام آدمی پر مرتب ہوں گےاور اسے ریلیف ملے گا۔ اس سب کے لئے لازم ہے کہ ملک میں موجود سیاسی بے یقینی کا خاتمہ کیا جائے۔ جب تک ملک سیاسی انتشار کا شکار رہے گا۔ تب تک یہ بے یقینی قائم رہے گی۔ سیاسی بے یقینی کی موجودگی میں معاشی صورتحال کی بہتری کسی صورت ممکن نہیں۔

 

تبصرے بند ہیں.