مائنس ٹو!

22

ہمارے ملک کی سیاست بھی عجیب ہے اس میں ہر سیاستدان کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ سیاسی مخالفین پر زمین اس قدر تنگ کر دی جائے ان کے لیے کوئی آپشن ہی نہ بچے۔مجھے اپنے کالج کے دور کا ایک جذباتی دوست یاد ہے جواکثر اوقات کسی نہ کسی سے جھگڑ کر آ جاتا تھا اور پھر پلاننگ یہ بناتا تھا کہ وہ کون سا طریقہ ہو سکتا ہے جس کے تحت میں اس شخص کو جان سے مار دوں جس سے جھگڑا ہو ا ہے پر لوگوں کو اس بات کا پتہ نہ چلے۔لیکن ہوتایہ تھا کہ اس سے پہلے کہ اس خطرناک منصوبے کو عملی جامہ پہنچایا جائے موصوف کی اس شخص سے صلح ہو جاتی تھی اور یہ منصوبہ اس شخص پر منتقل ہو جاتا تھا جس سے موصوف کی نئی لڑائی ہوئی ہوتی تھی۔ایک لمبا عرصہ ان کی حرکتیں نوٹ کرنے اور ان کی شخصیت کو جانچنے کے بعد میں نے یہ نتیجہ اخذکیا کہ در حقیقت موصوف میں ایک مکھی مارنے کی بھی ہمت نہیں ہے لیکن وہ دوستوں میں بیٹھ کر اس قسم کی بڑھک بازی صرف اس لیے کرتے تھے کہ دوستوں پر ان کی شخصیت کا ایک رعب رہے۔ شائد وہ اپنی اس حکمت عملی میں کامیاب بھی رہتے اگر وہ اتنے تواتر سے جھگڑے اور قتل کی منصوبہ بندیاں نہ کرتے۔
اپنے سیاستدانوں کی حرکتیں دیکھ کر مجھے اپنے اس کالج کے دور کے دوست کی یاد آ جاتی ہے۔کیونکہ اسمبلی، ٹی وی ٹاک شوز اور اخبارات میں شائع ہونے بیانات سے تو یہی لگتا ہے کہ اگر ان کو موقع مل جائے تو شائد یہ ایک دوسرے کی گردن ہی کاٹ ڈالیں،لیکن یہ سب کس قدرڈرامہ ہوتا ہے اس کا اندازہ شائد عام آدمی کوتو نہ ہولیکن وہ دوست جو اسمبلی میں آتے جاتے ہیں یا ٹی وی پروگرام ہوسٹ کرتے ہیں یا پھر ان لوگوں کی ذاتی زندگی کوجانتے ہیں وہ اس ڈامے کو بخوبی سمجھتے ہیں۔
سیاسی قلابازیاں لگانا بھی کوئی ہمارے سیاستدانوں سے سیکھے۔ نوے کی دہائی میں ایک دوسرے پر بدترین الزامات لگانے والے جناب نواز شریف اور محترمہ بےنظیر بھٹو کچھ ہی وقت میں بہن بھائی بن گئے اور جو کارکن ان کے پیچھے لگ کر نقصان اٹھاتے رہے وہ منہ ہی دیکھتے رہ گئے۔ ہردل عزیر رہنما عمران خان کچھ عرصہ پہلے تک جسے اپنا چپڑاسی تک رکھنے کے لیے تیار نہ تھے اور اسے شیدا ٹلی اور جانے کن کن القابات سے نوازتے تھے آج وہ ان کے قریب ترین لوگوں میں سے ہے اور تمام سیاسی معاملات اسی کی مشاورت سے طے پاتے ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی کے معاملات تو شیخ
رشید سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں ۔جنہوں نے پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو سے ایک دوست اور پھر پارٹی کا صدر ہونے کا سفر انتہائی کم وقت میں طے کیا ہے۔ ہمارے نوجوان لیڈر بلاول زرداری کی قلابازیاں بھی کچھ کم نہیں۔ کل تک نواز شریف صاحب کو سکیورٹی رسک ، مودی کا یار اور جانے کیا کیا کہتے تھے لیکن آج وہ ان تمام باتوں کو بھول کر کہتے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف بات کرنے کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتے اور آج ایک دوسرے سے شیر و شکر ہوئے شہباز شریف صاحب اور آصف علی زرداری صاحب جو ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑنے اور انہیں سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں کیا کرتے تھے وہ بھی ابھی تک ہمارے ذہنوں میں تازہ ہیں۔
مذہبی رہنماﺅں کا ایک دوسرے کو کافرقرار دینا اور سیاسی راہنماوں کا ایک دوسرے کوسکیورٹی رسک اور جانے کیا کیا قراردینا ایک روایت بن چکی ہے۔ اس کو تڑکا اس وقت لگتاہے جب ہمارے یہ سیاسی راہنما مائنس ون جیسے فارمولے پیش کرنے لگتے ہیں۔ ہمارے ملک کی سیاست توشخصیات کے گرد گھومتی ہے لہٰذا اس میں اگرنوازشریف، شہباز شریف ،آصف زرداری ، عمران خان اور مولانا فضل الرحمن وغیرہ میں سے کسی کومائنس کر کے دیکھا جائے تو ان کی پارٹی کا وجود ہی متزلزل نظرآتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی کارکردگی تو کبھی کسی دوسری سیاسی پارٹی سے بہتر تو کیا اس کے برابر بھی نہیں رہی لیکن یقینا یہ عمران خان کی شخصیت کا سحرہے کہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں مجمع ضرور لگالیتے ہیں۔
اپنی اس صلاحیت کو طاقت بنا کرکبھی وہ اداروں کو دباﺅ میں لانے کی کوشش کرتے ہیںتو کبھی تھرڈامپائر کا سہارا لے کر اور کبھی سول نافرمانی کی کال دے دیتے ہیں۔قومی اسمبلی کو تو خیر انہوں نے کبھی کسی کھیل کے میدان سے زیادہ کچھ سمجھا ہی نہیں۔ کبھی اس کو گالیاں دیتے ہیں اور اس پر لعنت بھیجتے ہیں اور کبھی اسی کے توسط سے وزیر اعظم کے سنگھاسن تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔کبھی یہاں سے باجماعت مستعفی ہو جاتے ہیں تو کبھی انہی استعفوں کے منظور کیے جانے پر عدالتوں سے رجو ع کر لیتے ہیں اور انہی سیٹوں پر ضمنی انتخاب بھی لڑتے ہیں جن سے مستعفی ہوئے تھے۔
اپنی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد قائم ہونے والی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی تمام تر کوششوں کی ناکامی خان صاحب نے ایک نئی شُرلی چھوڑ دی ہے اور پاکستان مسلم لیگ(نواز) کو مائنس نواز شریف اور پاکستان پیپلزپارٹی کو مائنس آصف زرداری فارمولاپیش کر دیا ہے ۔
خان صاحب کے ارد گرد اتنے سمجھدار لوگ موجود رہتے ہیں کسی نے تو انہیں یہ بتایا ہوتا کہ اگراس فارمولے کے تحت نوازشریف اور آصف زرداری آﺅٹ ہو بھی جائیں تب بھی اب تو ان کی باری آنے کا کوئی امکان نہیں۔ اوردوسری بات یہ ہے کہ اگر دیگر سیاسی جماعتیں اسی قسم کامائنس ون فارمولا پاکستان تحریک انصاف کے لیے تجویز کریں تو کیسا رہے گا؟خان صاحب کو اس بات سے بھی خبردار رہنے کی ضرورت ہے اگر اس قسم کا کوئی مطالبہ آتا ہے تو ان کی اپنی پارٹی کے اندر موجود وزارت عظمیٰ کے امیدواروں (پرویز الٰہی ، اسد عمر اور شاہ محمود قریشی)کا ردعمل کیا ہو گا۔
خان صاحب کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ سیاست بڑی بے رحم اور سفاک چیز ہے اور حکومت کے حصول کے لیے تو لوگ اپنے سگے بھائیوں کو قتل کرا دیتے ہیں اور باپ کو جیل کی کال کوٹھری میں پہنچا دیتے ہیں ۔ جو لوگ کئی سیاسی پارٹیاں تبدیل کرنے کے بعد آج خان صاحب کے دائیں بائیں کھڑے نظر آتے ہیں کیاامر مانع ہے کہ کل یہ لوگ اپنے مفاد کی خاطر انہیں دھوکا نہیں دیں گے۔ابھی بہت پرانی بات نہیں کہ میں نے ایک کالم میں تحریر کیا تھا کہ وہ وقت دور نہیں جب مونس الٰہی صاحب پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ ہوں گے ۔ میرا یقین ہے کہ اس منصوبہ پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہے ۔ شاہ صاحب تو اب تک توبہت صبر سے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے لیکن شاید اب انہیں یہ انتظار ختم کر دینا چاہیے۔ چوہدری پرویز الہی نام کے جس اونٹ کو عمران خان صاحب نے اپنے خیمہ میں صرف ناک گھسانے کی اجازت دے دی ہے یقینا یہ اونٹ بہت جلد پورے کا پورا خیمہ کے اندر ہو گا ۔ یعنی جو شخص دوسری پارٹیوں کے لیے مائنس ون کی سوچ رکھتا تھا آج اس کی اپنی پارٹی میں مائنس ٹو کے فارمولہ پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہے۔

تبصرے بند ہیں.