ہم آئے دن سنتے رہے ہیں کہ اب بڑے لوگ نہیں رہے۔ یا کسی بھی شعبے خصوصاً شعر و ادب میں اب عظیم شاعر ادیب پیدا ہونا بند ہو گئے ہیں لیکن میری سوچ اس حوالے سے بہت مختلف ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فطرت اپنا کام جاری رکھتی ہے۔ دنیا میں ایک کے بعد ایک عظیم انسان پیدا ہوا ہے۔ ہم نے میر تقی میر کے بعد بریک لگائی اور سوچا کہ اب اس کے بعد کوئی تخلیقی نابغہ نہیں پیدا ہونے لگا۔
پھر غالب پیدا ہوا اور کہا جانے لگا کہ اب غالب کے بعد کوئی عظیم شاعر پیدا نہیں ہو گا۔ ناقدین نے غالب تک آ کے پھر بریک لگا دی۔ لیکن نظام قدرت انسانوں کی مرضی سے چلے تو پھر وہ نظام قدرت نہیں کہلا سکتا۔ اقبال نے جنم لیا تو دنیا آج تک اس شاعر کی عظمت کے گن گا رہی ہے۔ البتہ ہر دور میں چھوٹے لوگوں کا ایک پورا طبقہ موجود ہوتا ہے جو بڑے لوگوں کو دانستہ نظر انداز کرنے، ان کی نفی کرنے اور انہیں ملیا میٹ کرنے پر تُلا رہتا ہے۔ یہ طبقہ منکرین کئی دفعہ وقتی طور پر کامیاب بھی ہو جاتا ہے اور حقیقی بڑے لوگوں کو دیوار سے لگا کر غیر حقیقی اور جعلی بڑے لوگوں کی ٹانگوں کو ایلفی لگا کر انہیں عظیم بنانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔
یہ ساری تمہید باندھنے کا مقصد عہد حاضر کے عظیم ادیب، شاعر اور سکالر شفیق احمد خان کو نظر انداز کرنے والے رویے کی نشاندہی کرنا اور اس کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ شفیق احمد خان ایک غیر معمولی انسان ہے جو لاہور میں پیدا ہوا۔ سب سے پہلی صفت جو خدا نے اس کے والد اور والدہ دونوں کی طرف سے عطا کی وہ کتابوں سے محبت اور مطالعے کا جنون اور علم کی دولت تھی۔ شفیق احمد خان کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ وہ گزشتہ پچاس برس سے مسلسل مطالعہ کر رہا ہے اور یہ کہ اس نے ہزاروں کتابوں کا مطالعہ کر رکھا ہے تو ہرگز ہرگز مبالغہ نہیں ہو
گا۔ اس پہ طرہ یہ کہ خدا نے اسے کمال حافظے سے نوازا ہے۔ اسے برسوں پہلے پڑھی ہوئی کتابوں کے مندرجات تک یاد رہتے ہیں اور وہ انہیں پوری صحت سے کوٹ کرتا ہے۔ وہ تاریخ، فلسفہ، نفسیات اور ادب کا خاص طور پر شیدائی ہے۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ادب کے موضوع پر اتنا وسیع المطالعہ انسان ہمارے پورے ملک میں کوئی دوسرا نہیں اور صرف بے مثال شاعر اور ادیب شفیق احمد خان ہی ہے جو اس مرتبے پر فائز ہے۔ درجن بھر شعری مجموعوں کا خالق یہ شاعر ہر طرف سے نظر انداز کیے جانے کے باوجود ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا کے مصداق اپنے تخلیقی سفر پر گامزن ہے۔ پچھلے پینتیس سال سے لاہور کی ادب گاہوں کے در و دیوار شفیق احمد خان کی دانش، تنقیدی بصیرت، دو ٹوک رائے اور بے لاگ اظہار کے گواہ ہیں لیکن حرام ہے جو کبھی کسی شاعر افسر یا افسر شاعر نے اس کی شعری اور علمی سچائیوں کا اعتراف عملی سطح پر کیا ہو۔ لے دے کے صرف منصور آفاق ہی کا نام تاریخ میں لکھا جائے گا جو شفیق احمد خان کو زبردستی مجلس ترقی ادب میں کھینچ لایا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ مجلس ترقی ادب میں دنیا کے کسی بھی علاقے سے وزٹ پہ آیا ہوا کوئی ادیب شاعر یا عالم شفیق خان سے مل کر جب واپس جاتا ہے تو اس کی نظروں میں نہ صرف مجلس ترقی ادب کی عزت بڑھ جاتی ہے بلکہ لاہور اور پاکستان کا امیج بدل جاتا ہے اور وہ اعتراف کر کے جاتا ہے کہ اس سرزمین پر پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں ورنہ خود کو شاعر ادیب بنا کر پیش کرنے والی خواتین و حضرات ہر سطح پر اپنے سُوجے ہوئے مکار منہ اٹھائے ہر بڑے مشاعرے اور کانفرنس میں شامل ہونے کے لیے تضحیک کی تاروں سے لٹک لٹک کر مرے جاتے ہیں۔ ادبی تقریبات کے مداری منتظمین بھی انہیں چاپلوس بوزنوں کی چرب زبانی اور خاطر خدمت کے رسیا مشاعرہ کار خواتین و حضرات شفیق احمد خان جیسے کسی درویش منش عظیم ادیب کی طرف مڑ کے دیکھنے کے بھی روادار نہیں اور معاشرے میں معزز انسان بنے رہنے کی اداکاری کرتے تھکتے نہیں۔ اوپر سے نیچے تک آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ستم یہ کہ یہ مفاد پرست لوگ شاعر ادیب اور پی ایچ ڈی سکالر بن کر اداروں پر قبضہ کرنے اور کروڑوں کی کرپشن کر کے ڈکار مارنے جیسی مسلسل بربریت میں ہمہ وقت مصروف ہیں اور انہیں نے بیوروکریسی میں نیک مزاج ادب دوست شخصیات کو پوری طرح شیشے میں اتار رکھا ہے۔ جس معاشرے میں ادب کُش اور ادب دشمن ادب کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہوں وہاں شفیق احمد خان جیسے ادیبوں کی زندگی کن مشکلات سے گزرتی ہے یہ وہی جان سکتا ہے جس پر بیتا ہو۔ میں چیف سیکرٹری پنجاب اور سیکرٹری انفارمیشن و کلچر پنجاب کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ شفیق احمد خان جیسے نابغوں کی تکریم اور ان سے علمی فوائد حاصل کرنا ہمارے افسران اور حکمرانوں کا فرض ہے۔ کیونکہ افسران کے ارد گرد پھرنے والے لے دے کے وہی چند بہروپیے ہی ہوتے ہیں جو جنازوں سے لے کر فیسٹولز تک صرف اپنا اور اپنے لواحقین کے ہی نام پیش کرتے ہیں۔ یہاں ایک ایک بہروپیا سو سو جینوئن ادیب کا راستہ روکتا ہے۔ ہماری معاشرتی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم سب مل کے اپنے بڑے تخلیق کاروں کو خود آگے بڑھ کے عزت دیں۔ کیونکہ عزت والا ہی کسی دوسرے کو عزت دے سکتا ہے۔ آخر میں شفیق احمد خان کا ایک شعر پڑھ لیجئے جو مجھے بے حد پسند ہے۔
میں جب سے پیدا ہوا ہوں اداس پھرتا ہوں
کسی نے کان میں دی تھی اذاں اداسی کی
Next Post
تبصرے بند ہیں.