تاریخ کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے قومیں جب خطرے کی گھنٹی کو نظر انداز کرتی ہیں تباہ ہو جاتی ہیں ۔ 1789ءکے انقلاب فرانس کی سب سے بڑی وجہ معاشی بدحالی تھی۔ ملک بری طرح قرضوں میں جکڑا جا چکا تھا ان قرضوں کی وجہ حکمران طبقہ کے غلط فیصلے تھے کیونکہ فرانس نے قومی خزانے کے سارے وسائل امریکی جنگ آزادی میں جھونک دیئے تھے۔ جس سے فرانس کے اپنے لوگ فاقہ کشی کا شکار تھے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب عام آدمی کو ووٹ کا حق نہیں تھا بادشاہ کی منتخب کردہ پارلیمنٹ قوانین بناتی تھی یہ ایک چھوٹا سا طاقتور طبقہ تھا جن کے قبضے میں فرانسیسی دولت کا بڑا حصہ تھا جب قانون سازی کی نوبت آتی تو یہ کمال مکاری سے ایسے قوانین وضع کرتے کہ ٹیکسوں کا سارا بوجھ امیر آدمی کے بجائے غریبوں پر بانٹ دیا جاتا تھا یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے پاکستان کا محکمہ واپڈا بجلی چوری سے ہونے والے نقصان کو صارفین پر تقسیم کر کے وصولی کر لیتا ہے۔ اس سے فرانس میں غربت اور بے چینی آخری درجے کو چھو رہی تھی اور صاف نظر آرہا تھا کہ یہ نظام زیادہ دیر تک ایسے نہیں چل سکے گا۔
اسی اثنا میں فرانسیسی پارلیمنٹ کا اجلاس منعقد ہوا اس پارلیمنٹ میں جتنے Noteubles تھے۔ یہ سارے کے سارے اشرافیہ اور مقتدر طبقے سے تعلق رکھتے تھے کوئی بھی عام شہری یا غریب نہیں تھا اس اجلاس میں ملک چلانے اور حکومتی اخراجات پورا کرنے اور قرضوں سے نجات کی بات ہو رہی تھی اس موقع پر فرانس کے ڈائریکٹر جنرل فنانس جن کا عہدہ پاکستان کے موجودہ وزیر خزانہ کے برابر تھا ان کا نام Jackues Neclear تھا انہوں نے تجویز پیش کی قرضوں سے نجات کیلئے قانون بنا دیا جائے کہ ہر شخص اپنی مجموعی آمدنی کا ایک چوتھائی حب الوطنی ٹیکس (Patriotic Tax) کے نام پر سرکار کو ادا کرے گا۔ عملاً فرانس کی اشرافیہ جو قانون سازی کرتی تھی ۔اس کا اطلاق بذات خود ان پر نہیں ہوتا تھا۔ ایسے حالات میں جب وہاں لوگ روٹی کے حصول کیلئے قطاریں بنا رہے ہوں۔ان سے یہ کہا جائے کہ تم اپنی دیہاڑی کے معاوضے کا چوتھاحصہ ریاست کو دیدو تاکہ قرضہ اتارا جا سکے یہ کسی حد تک منصفانہ ہے۔
اس موقع پر ایک ممبر پارلیمنٹ Mirabeau کا ضمیر اچانک زندہ ہو گیا وہ خود بھی اس مراعات یا فتہ طبقے حصہ سے تعلق رکھتا تھا مگر وہ طاقتور کی طرف سے کمزور کا خون نچوڑنے والی قانون سازی اور ظالمانہ طرز حکومت کے خلاف تھا جس کی وجہ سے
تاریخ میں آگے چل کر اس کا نام انقلاب فرانس کے بانیوں میں آگیا۔ اس نے فرانس کے وزیر خزانہ کی جانب سے 25 فیصد ٹیکس کے موضوع پر پارلیمنٹ میں جو تقریر کی اس تقریر نے راتوں رات Mirabeau کو امراءکے نمائندوں کی صف سے نکال کر اسے غریبوں اور کمزوروں کا ترجمان بتا دیا ۔
2 فروری 1789ءکو Mirabeau کی فرانسیسی پارلیمنٹ میں کی جانے والی تقریر انقلاب فرانس کے تاریخی باب میں آج بھی نمایاں اہمیت رکھتی ہے وہ جب تقریر کرنے کیلئے اپنی نشست پر کھڑے ہوئے تو ان کے ہاتھ میں فرانس کے امیر ترین طبقے کے 2000 افراد کی ایک لسٹ تھی جسے وہ بار بار لہرا رہے تھے ان کا کہنا تھا کہ صدیوں کی تباہی و بربادی نے فرانس میں ایک بہت بڑی گہری کھائی کھود دی ہے اور اس وقت ملک اس کھائی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اب ہمیں اس خوفناک کھائی کو پر کرنا ہے بجائے اس کے کہ ہم پورے فرانس کو آگ میں جھونک دیں یہ زیادہ بہتر ہوگا کہ ہم فرانس کے امیر ترین طبقے کے 2000 افراد سے ان کی دولت لے کر ملک کا قرضہ اتار دیں اور فرانس کو بچا لیں اس سے عوام تباہی سے بچ جائیں گے۔
Mirabeau نے کہا کہ اس فہرست میں اوپر سے شروع ہو جائیں اور ان سب کو چن چن کر ان کی دولت لے کر ملک کو بحران سے نکالیں۔ اس نے سوال کیا کہ کیوں نہ ہم لاکھوں افراد کو بچانے کیلئے ان 2000 کی دولت کی قربانی دے دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ 2000 افراد کے ملکیت میں اتنی وافر دولت موجود ہے کہ اس سے ملک کو بچایا جاسکے اور فرانس میں امن اور خوشحالی کا دور واپسی لایا جا سکتا ہے۔
ان بد بختوں کو ان کی پیدا کردہ کھائی میں ڈال کر اس کھائی کو بند کر دیا جائے تو ملک پٹڑی پر واپسی آ جائے گا۔ Mirabeau کا کہنا تھا کہ فرانس کو دیوالیہ قرار دینے کی قرار داد پاس کرناایک نا قابل معافی جرم ہوگا یہ ایک ناقابل فہم اور ناقابل بیان جرم ہے۔ البتہ یہ خوفناک قربانی یعنی 2000 امیر ترین افراد سے ان کی دولت سے محرومی سے ملک کا مالیاتی خسارہ ختم ہو جائے گا۔ اس نے ان امراءکو مخاطب کرتے ہوئے کہا جن میں سے زیادہ تر اسی پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اگر آپ ادائیگی سے انکار کریں گے تو یاد رکھیں آپ اپنی ملکیت سے محروم ہو جائیں گے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ لاکھوں افراد کو ان کی یومیہ اجرت سے محروم کرنے کیلئے آپ جو قانون سازی کرنے جارہے ہیں اس کے بعد وہ لوگ آپ کو اپنے اس جرم سے لطف اندوز ہونے کیلئے آزاد چھوڑ دیں گے ؟ یہ قانون سازی ظلم و جبر کی ایک ناقابل بیان برائی اور تباہی کو اہل فرانس پر مسلط کردے گی ۔
Mirabeau نے اپنی اس طویل تقریر میں کہا کہ جو انا پرست یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے قوانین کے بعد یہ ناامیدی اور مایوسی کا سلسلہ ایسے ہی گزر جائے گا تو ایسا سوچنے والے تشد اور افراتفری کے پیرو کار ہیں کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جن لاکھوں افراد سے آپ روٹی چھین رہے میں وہ آپ کو اپنی دولت سے لطف اندوز ہونے کے لیے کھلا چھوڑ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح توآپ سب تباہ ہو جائیں گے۔ لہٰذا خبردار ہو جاو¿ کہ ہم کس سمت چل رہے ہیں۔ میں سن رہا ہوں کہ آپ حب الوطنی اور ملک اور فرانس کی بات کرتے ہیں میں کہتا ہوں کہ حب الوطنی اور ملک جیسے الفاظ مقدس ہیں جو آپ کی زبان پر زیب نہیں دیتے ان الفاظ کا مذاق نہ اڑائیں۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ سادہ سا حساب کتاب یہ ہے کہ اپنی دولت کے انبار بچانے کی خاطر اس کا کچھ حصہ خرچ کر دیں تو سب بچ جائیں گے ورنہ پھر کوئی بھی نہیں بچے گا۔ یہ انتہائی عام فہم اور سادہ سا الجبرا اورریاضی ہے۔ ان کی تقریر کا آخری جملہ یہ تھا کہ تباہی ہمارے گھر کے دروازے پر پہنچ چکی ہے اور ہم ابھی تک بحث مباحثے میں مشغول ہیں۔
ان کی اس تقریر کے بعدفرانس میں خانہ جنگی اور خونریزی کی جو داستان عوام کے خون سے لکھی گئی اشرافیہ اور شاہی خاندان بھی اس کا ایندھن بن گئے آج انقلاب فرانس کو بغاوت کا ایک استعارہ سمجھا جاتا ہے ۔ Mirabeau کی مندرجہ بالا تقریر کا متن اگر سیاق و سباق اور وقت اور مقام سے ہٹ کر دیکھیں اور ایک لمحے کیلئے غور کریں تو اس وقت پاکستان 1789ءوالے فرانس کا منظر پیش کر رہا ہے یہ الگ بات کہ بیچ میں تاریخ اور جغرافیے کا واضح فاصلہ موجود ہے مگر بنیادی حقائق سارے کے سارے ہو بہو وہی تصویر پیش کر رہے ہیں یہ تو تاریخ دان ہی بتا سکتے ہیں کہ پاکستان اس صورتحال سے کیسے باہر نکلے گا جس میں آج سے 200 سال پہلے فرانس گرفتار ہوا تھا۔ لیکن انقلاب فرانس کا روشن پہلو یہ ہے کہ اس کے بعد فرانس نے زیادہ ترقی کی ہے شہری حقوق اور طبقاتی امتیاز کا خاتمہ ہوا اور عوام کی معاشی و سماجی زندگی میں انقلاب آیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فرانس جو قرضوں میں جکڑا ہوا تھا اب دوسرے ملکوں کو قرضہ دیتا ہے۔ بقول پروین شاکر
اے مادر گیتی تیری حیرت بھی بجا ہے
تیرے ہی نہ کام آیا تو سر کس کے لئے تھا
Prev Post
تبصرے بند ہیں.