کسے وکیل کریں

26

لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سالانہ الیکشن پرسوں 25 فروری ہفتے کو ہونے ہیں، اس الیکشن کی مہم زور و شور سے جاری ہے، میرے ایف سی کالج اور گورنمنٹ کالج کے بے شمار طلبہ شعبہ وکالت سے وابستہ ہیں، کچھ”شعبہ ذلالت“ یعنی سیاست سے بھی وابستہ ہیں، کچھ وکیل سٹوڈنٹس، اب جج بن چکے ہیں، ایک بہت ہی عزیز سٹوڈنٹ افضال بٹ ایڈیشنل سیشن جج تھے، ایمانداری اور اہلیت میں خوب نام کمایا، پھر اپنا عہدہ چھوڑ کے وکیل بن گئے کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے اور ٹھیک ہی سمجھتے تھے سسٹم کی خرابی کی وجہ سے بطور جج کسی اور سے کیا انصاف انہوں نے کرنا ہے اپنے عہدے سے ہی انصاف نہیں کر پا رہے، چنانچہ انہوں نے اس عہدے کو لات مار دی جس پر اگر وہ رہتے تو ہائی کورٹ تک تو ضرور پہنچ جاتے، ایف سی کالج میں میرا ایک سٹوڈنٹ بہت جھوٹ بولتا تھا ، اس نے شاید زمانہ طالب علمی سے ہی وکیل بننے کا فیصلہ کر لیا تھا، ایک بار میں اپنے دس سالہ بیٹے کے ساتھ قبرستان گیا وہاں ایک قبر کے کتبے پر لکھا تھا ”یہاں سچا وکیل دفن ہے“، میرے بیٹے نے مجھ سے پوچھا”ابو جی یہاں دو لوگ دفن ہیں ؟“، مگر جس طرح پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں سارے وکیل بھی ایک جیسے نہیں ہوتے، میرے ایک عزیز چھوٹے بھائی اشتیاق احمد خان آج کل لاہور ہائی کورٹ بار کا صدارتی الیکشن لڑ رہے ہیں، وہ پاکستان بار کونسل کے رکن بھی ہیں، میں ذاتی طور پر انہیں جانتا ہوں اور ان کے حوالے سے اس یقین میں مبتلا ہوں وہ اگر کامیاب ہوگئے (جس کے اچھے خاصے چانسز ہیں) اس کے بعد اپنے شعبے میں اخلاقیات کا ایک نیا کلچر متعارف کروانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے، جس کے بعد وکیلوں کی معاشرے میں روز بروز گرتی ہوئی ساکھ مزید نہیں گرے گی، وکالت ایک مقدس پیشہ ہے، افسوس جس طرح پاکستان کے دوسرے بے شمار مقدس پیشے اپنی ساکھ اور شناخت سے محروم ہو کر مختلف اقسام کی بداخلاقیوں کا شکار ہوتے جا رہے ہیں اسی طرح وکالت کا شعبہ بھی تنزلی کا شکار ہے، اکثر ہم دیکھتے ہیں وکلاءججوں یا پولیس افسروں کے گلے پڑ رہے ہوتے ہیں، گالم گلوچ کر رہے ہوتے ہیں ، اس پر افسوس ہوتا ہے اگر قانون کے رکھوالے ایسا کریں گے پھر عام آدمی سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے وہ قانون کا احترام کرے ؟ ، میں یہ توقع کرتا ہوں اشتیاق احمد خان جیسے مہذب وکیل کامیاب ہونے کے بعد اپنے شعبے میں خوبصورت روایات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کریں گے، جس کے بعد لوگ ایک بار پھر وکیلوں کو اپنے گھر کرایے پر دینا شروع کر دیں گے اور اپنی بچیوں کے رشتے دیتے ہوئے بھی نہیں کترائیں گے، جیسے کہ اب ایسا کرتے ہوئے وہ ہزار بار سوچتے ہیں، میں اس موقع پر اپنے ایف سی کالج کے ایک اور عزیز سٹوڈنٹ رانا انتظار حسین کا ذکر کرنا چاہوں گا، انہوں نے گزشتہ ہفتے لاہور بار کا صدارتی الیکشن بھاری اکثریت سے جیتا،وہ بھی ایک انتہائی عاجز انسان ہیں، میں نے انہیں میسج کیا میں آپ کو مبارک دینے آنا چاہتا ہوں، انہوں نے فرمایا ”سر میں خود آؤں گا“، پھر اگلے روز وہ تشریف لے آئے، میرے ایک اور عزیز چھوٹے بھائی شیخوپورہ بار کے سابق سیکریٹری ذوالقرنین ڈوگر بھی موجود تھے، وہ جتنی دیر میرے پاس بیٹھے رہے میں ان کی خدمت میں یہی عرض کرتا رہا ”چند کالی بھیڑوں کی وجہ سے شعبہ وکالت کی جو پامالی ہوئی ہے اس کے ازالے کی سخت ضرورت ہے، ہم عدلیہ کی آزادی کی بات کرتے ہیں، ہم قانون کے احترام کی بات کرتے ہیں ہم آئین کی پاسداری کی بات کرتے ہیں، یہ سب اسی صورت میں ممکن ہو سکتے ہیں جب ججوں کے ساتھ ساتھ وکلاءبھی خود احتسابی کا کوئی موثر نظام اپنے ہاں قائم کریں اور اس پر عمل بھی کریں، خوش آئند بات یہ ہے وکلاءکی بہتر قیادت سامنے آ رہی ہے، رانا انتظار حسین الیکشن جیت چکے ہیں اشتیاق احمد خان انشااللہ جیت جائیں گے، میرے وکیل بھائی رائے اشفاق احمد کھرل بتا رہے تھے ان کی پوزیشن بہت بہتر ہے، وہ یقینا بار اور بنچ کے درمیان ایک مضبوط پ±ل بن سکتے ہیں، جس کی اس وقت اشد ضرورت بھی ہے،میری دعا ہے پاکستان کی دیگر بار ایسوسی ایشنز میں بھی ایسے ہی اچھے لوگ انتخابات جیتیں اور اس کے بعد وہ اگر قائد اعظم محمد علی جناح کی بطور وکیل زندگی کو مشعل راہ بنالیں پاکستان کی تقدیر بدلنے کا آغاز وکیلوں سے ہوگا ، پھر ہم یہ کہہ سکیں گے ایک وکیل نے پاکستان بنایا تھا اور وکیلوں نے ہی اسے بچا لیا ہے، اگلے روز میں قائد اعظم پر لکھی ہوئی ایک خوبصورت کتاب پڑھ رہا تھا جس میں ان کے بطور وکیل اعلیٰ کردار کی کئی کہانیاں تھیں، قائد اعظم نے 1897 میں ممبئی ہائی کورٹ میں بطور وکیل ممبر شپ حاصل کی، تین سالوں تک انہیں کوئی مقدمہ نہ مل سکا، وہ مفلسی کی حالت میں پیدل دفتر جاتے ان کے پاس بس کا کرایہ تک نہیں ہوتا تھا مگر انہوں نے ہمت نہ ہاری، 1900 کے آغاز میں وہ عارضی طور پر پریذیڈنسی مجسٹریٹ ہو گئے، اس زمانے کے نامور وکیل ایم سی چھاگلہ قائد اعظم سے سینئر تھے، وکالت کے گر قائد اعظم نے ان ہی سے سیکھے تھے، قائد اعظم نے اپنی ساری زندگی میں کبھی کوئی غیر اخلاقی لفظ استعمال نہیں کیا، مگر وہ اپنے شعبے کے تقدس اور اپنی عزت آبرو کو ہر حال میں مقدم رکھتے تھے، ایک بار ایک کیس کی سماعت کے دوران مجسٹریٹ نے ان سے کہا”مسٹر جناح یاد رکھیں آپ کسی تھرڈ کلاس مجسٹریٹ سے مخاطب نہیں ہیں“ قائد اعظم بولے ”مائی لارڈ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ آپ بھی کسی تھرڈ کلاس وکیل سے مخاطب نہیں ہیں“، اس پر مجسٹریٹ نے قائد اعظم سے فوراً معذرت کر لی، قائد اعظم جب قیام پاکستان کی جدوجہد میں مصروف ہوگئے ایک شخص نے انہیں اپنا مقدمہ لڑنے کے لئے بھاری رقم کی پیشکش کی، قائد اعظم نے ان سے یہ کہہ کے معذرت کر لی کہ میں اس کیس میں پورا وقت اور توجہ نہیں دے سکوں گا، ان کی زندگی کے ایسے سینکڑوں واقعات ہیں جنہیں اگر ہمارے آج کے وکلاءپیش نظر رکھیں پاکستان میں عدل و انصاف کے نظام میں انقلابی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں، اللہ جانے کیوں مجھے یقین ہے اشتیاق احمد خان اس سلسلے میں بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوں گے، اللہ انہیں کامیاب کرے ۔

تبصرے بند ہیں.