پہلے تربیت پھر تعلیم

18

گزشتہ دنوں عالمی یوم تعلیم کی مناسبت سے تعلیم کی اہمیت اور ہمارے مروجہ تعلیمی نظام بارے کچھ گزارشات پیش کیں۔ احباب کی طرف سے حوصلہ افزا تبصرے و پیغامات وصول ہوئے جن میں تعلیم کے ساتھ تربیت پر بات نہ کرنے کا گلہ شامل تھا۔ ہمارے ہاں رونما ہونے والے حادثات اور آنے والی قدرتی آفات سے نمٹنے میں کہیں نہ کہیں تربیت کا فقدان اور لاپروائی کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ یہاں ایک چیز کا اعتراف ضروری ہے کہ ہمارے دفاعی اداروں اور پولیس کی کارروائیوں کے نتیجے میں بہت سے حادثات اور واقعات سے قوم کو بچا لیا جاتا ہے۔ چند ایک ایسے ہیں جو بدقسمتی سے واقع ہو جاتے ہیں۔ بات شروع ہوئی تھی تربیت سے، میرے خیال میں اصل چیز تربیت ہے جو ہمارے اسلاف کو ماں کی گود سے ملنا شروع ہو جاتی تھی اور قدم بہ قدم اہل خانہ، دوستوں، رشتہ داروں، گلی محلے، علاقے، مسجد، مکتب سے ملتی، یوں بچے کے شعور و لاشعور میں سما جاتی تھی۔ والدین کا فخر یہی تربیت ہوا کرتی تھی، تعلیم کا نمبر تو بہت بعد میں آتا ہے۔ اس زمانے میں کسی فرد یا بچے کے طریقے سلیقے، عادات و اطوار، انداز، حسن سلوک سے ہی اندازہ لگایا جاتا کہ کیسے خاندان کا فرد ہے۔ مقولہ مشہور ہے ”بندہ خاندانی لگتا ہے“۔ تربیت کے لحاظ سے آج کل اچھے خاصے تعلیم یافتہ فرد سے بہتر گاو¿ں کا ان پڑھ فرد نظر آتا ہے۔کچھ عرصہ پرانا ایک واقعہ ذہن میں آ رہا ہے۔ چشتیاں سے لاہور کے راستے میں ایک چھوٹا سے قصبہ غالباً چک عبداللہ سے گزرتے ہوئے کمہار کی دکان پر نظر پڑی، رنگ برنگے نقش و نگار سے مزین مٹی کے برتن دیکھ کر گاڑی روکی اور کچھ برتن خرید لیے۔ پیسے ادا کر کے واپس گاڑی کی طرف مڑا تو پیچھے سے کمہار، جو کہ اٹھارہ بیس سال کا وجیہہ نوجوان تھا، کی آواز آئی کہ باؤ جی اپنا بقایا تو لیتے جائیں۔ میں نے کہا، رکھ لو کوئی بات نہیں۔ اس کے جواب میں اس نے قدرے تلخ
لہجے میں بھویں چڑھا کر کہا، باؤ جی میں محنت کش ہوں، آپ نے مجھے فقیر سمجھ لیا ہے۔۔۔ یہ پکڑیں اپنے پیسے۔۔ یہ سن کر ایک دفعہ تو میں دم بخود ہو گیا لیکن فوراً ہی ستائش بھری نظروں سے اس دیکھا اور کہا کہ اپنی خوشی سے دے رہا ہوں، رکھ لو بچوں کے لیے کچھ لے لینا۔ لیکن اس نے فوراً ہی پیسے میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا اللہ کا شکر ہے، اپنے بچوں کو حلال رزق کھلاتا ہوں۔ اس دوران میں اپنی گاڑی تک پہنچ چکا تھا۔ اندر بیٹھتے ہی گھر والوں نے پوچھا، لڑکے کے تیور کیوں چڑھے ہوئے تھے۔ میں ساری بات بتائی تو سب لوگ حیران تھے۔ اچھے بھلے کماتے شخص کو پیسے پکڑائیں تو اس کے ذہن میں پہلا خیال یہی ہوتا ہے کہ اے کاش یہ صاحب اپنا بقایا بھول ہی جائیں۔۔۔ وہ آپ کے گھر یا دفترکا ملازم ہو، ٹھیلے والا ہو، مزدور، مکینک، دکاندار، بیرا یہاں تک کہ آپ کے اپنے بچے۔۔۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ بقایا نہ ہی یاد آئے یا ٹپ کے طور پر اسے ہی مل جائے۔ جھوٹ، ہیرا پھیری، ملاوٹ، دو نمبری یا فراڈ، دھوکہ دہی تو اس کے علاوہ ہیں۔ بات ہو رہی ہے تربیت کی کہ بندے کو کم از کم اتنا تو پتہ ہو کہ اس کے لیے کیا حلال ہے اور کیا حرام۔ جھوٹ بول کر پیسہ نہیں کمانا۔ اپنے لالچ یا وقتی فائدے کے لیے دوسرے کا نقصان نہیں کرنا۔ تحمل اور برداشت سے کام لینا ہے۔ اگر اس کی چیز میں کوئی عیب یا خرابی ہے تو پہلے اسے ٹھیک کرنا، یا عیب کا بتا کر چیز فروخت کرنی ہے۔ وقتی لالچ سے بیسیوں افراد کی جان جوکھوں میں نہیں ڈالنی۔ کشتی کے ڈوبنے میں بظاہر جو عوامل کار فرما ہوتے ہیں، ان میں کشتی کی حالت، سکت سے زیادہ بوجھ وغیرہ، اسی طرح بس میں ڈرائیور کی لاپروائی و عدم تربیت کا عمل دخل ہو سکتا ہے۔ آپ کو شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة اللہ علیہ کے بچپن کا واقعہ تو یاد ہو گا کہ آپ چودہ برس کی عمر میں تعلیم کی غرض سے ایک قافلہ کے ساتھ بغداد کو روانہ ہوئے، راستے میں ڈاکوؤں نے پکڑ لیا، ڈاکوﺅں نے آپ سے پوچھا تمہارے پاس کیا ہے؟ آپ نے کہا چالیس اشرفیاں۔ ڈاکو سمجھے بچہ مذاق کر رہا ہے چنانچہ آپ کو اپنے سردارکے پاس لے گئے، آپ نے اسے بھی یہی جواب دیا۔ اس نے کہا اچھا دکھاؤ، چالیس اشرفیاں کہاں ہیں۔ آپ نے کہا گدڑی میں سلی ہوئی ہیں، گدڑی ادھیڑی تو واقعی اشرفیاں نکل آئیں، ڈاکو بہت حیران ہوئے۔ سردار نے کہا، اے لڑکے تو نے ایسی چھپی ہوئی چیز جوہمارے ہاتھ نہ آ سکتی تھی کیوں ظاہر کر دی۔ آپ نے جواب دیا، یہ اشرفیاں میری والدہ نے سفر کے خرچ کے لیے میری گدڑی میں چھپائی تھیں لیکن تاکید کی تھی کہ ہمیشہ سچ بولنا۔ ڈاکوؤں کے دل پر آپ کی بات نے ایسا اثر کیا کہ فوراً ڈکیتی سے توبہ کر لی۔ یہ ہے تربیت جو آج ہمارے معاشرے میں ناپید ہے۔ ہمارے پیارے رسول نبی اکرم سے کسی صحابیؓ نے سوال کیا۔ یا رسول اللہﷺ! مومن بزدل ہو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا، ہو سکتا ہے۔ صحابیؓ نے سوال کیا۔ مومن بخیل ہو سکتا ہے۔ حضور اقدس سے جواب ملا، ہو سکتا ہے۔ سوال کیا، مومن جھوٹا ہو سکتا ہے؟ بارگاہ اقدس سے جواب ملا۔ نہیں! مومن جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ چناںچہ تربیت کا پہلا قرینہ سچ بولنا ہے۔ صفائی نصف ایمان ہے، تربیت سے ہی ایمان کا آدھا حصہ تو کم از کم بچایا جا سکتا ہے۔ جاپان و دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں ابتدائی سکول میں صرف تربیت کی جاتی ہے، کوئی امتحان یا تعلیم سے بچے کا واسطہ نہیں پڑتا۔ ہمارے ہاں سکولوں میں بچوں کو کچرا تک کچرادان میں پھینکنے کی تربیت نہیں دی جاتی، ورنہ پڑھے لکھے شہروں یعنی کراچی، لاہور، راولپنڈی کی سڑکوں، پارکوں، بازاروں، شاپنگ سنٹروں میں ٹنوں کچرا نہ بکھرا ہوتا۔ موضوع بہت وسیع ہے، ایک دو کالموں میں نہیں آئے گا۔ حکیم الامت شاعر مشرق حضرت علامہ اقبالؒ ضرب کلیم کے حصے ”تعلیم و تربیت“ میں فرماتے ہیں:
رہے نہ رُوح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیرِ پاک و خیالِ بلند و ذوقِ لطیف

تبصرے بند ہیں.