سب کو اپنی پڑی ہے

28

قصہ کچھ یوں ہے کہ ملک خدا دادِ پاکستان میں سرِ دست سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔صدر مملکت اور پی ٹی آئی کو الیکشن کی، حکومت کو صدر کے ممکنہ مواخذہ اور عوام پر ناقابلِ برداشت ٹیکسوں کا بوجھ لادنے کی ، اعلیٰ عدلیہ کو آڈیو لیکس کی ، پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو گرفتاری سے بچنے کی ، پرویز الٰہی کو محمد خان بھٹی کو بچانے کی ، ملک بھر بالخصوص پنجاب پولیس اور بیوروکریسی کو من پسند سیٹوں پر پوسٹنگ کی ، چوروں اور ڈاکوﺅں کو بِلا روک لوٹ مار کی اورمخصوص اداروں کو سوشل میڈیا پر اپنے خلاف رائے زنی کرنے والوں کے خلاف مقدمات کے اندراج کی ۔ تاہم اگر ارباب کو کسی کی پروا نہیں ہے تو وہ ہے، بے چارے عوام جودم سادھے محو حیرت ہیں کہ یہ کیا تماشا لگا ہوا ہے؟امیرِ قافلہ ہی رہزن قافلہ کیوں بن بیٹھے ہیں؟انہیں آخر کیوں مہنگائی اور بے روزگاری کی سلگتی بھٹی کی نذر کر دیا گیا ہے؟کوئی بھی اس کا پُرسان حال نہیں ہے۔ کیایہ ملک اشرافیہ کے محض اسی طبقہ کا ہے جسے وسائل کے تمام سوتوں پر قابض ہونے کا حق ہے؟کیا اس ملک میں جینے کا حق صرف اس طبقہ کو حاصل ہے؟حقیقت حال تو یہ ہے کہ اس وقت امیر اور غریب کا فرق اس قدر بڑھ چکا ہے کہ رہے رب کا نام ۔ارباب اختیار اپنی سفاکیوں میں تمام حدیں عبور کرچکے ہیں۔عوام جئے یا مرے انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ رہے مخصوص ادارے تو وہ بھی اپنے بجٹ کا ایک دھیلہ بھی کم کرنے کو تیار نہیں ۔آئی ایم ایف کے اشارے پر عوام کی پیٹھوں پر مہنگائی اور ذلت کا تازیانہ برسانے کے لیے سب باہم شیر و شکرہیں۔گویا پاکستان میں پیدا ہونا ایک جرم بن گیا ہے۔ملک کی حالت اس تار کی مانند ہے جس پر گویا مسلسل گیلے کپڑے ڈالے جارہے ہیں اور وہ اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ کسی بھی لمحہ ٹوٹ سکتا ہے۔ اب یہ نہ سمجھئے گا کہ یہ سب کچھ موجودہ حکومت کی کارستانی ہے ۔ پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت اس صورت حال کی موجودہ حکومت سے بھی بڑھ کر ذمہ دار ہے۔عمران خان کے دور حکومت میں پاکستانی تاریخ کا لیا گیا سب سے بڑا قرضہ ہی پاکستان کی موجودہ مخدوش معیشت کی بنیاد ہے۔ اوپر سے عمران خان کی بھرپور کوشش کہ سسٹم کو چلنے ہی نہیں دینا ، ایک ایسا کھیل ہے جو پاکستان اور اس کی معیشت کو مزید ابتری کی جانب لے کر جارہا ہے۔
ایسے میں یوں محسوس ہوتا ہے گویا ڈاکوﺅں اور راہزنوں کو عوام کو لوٹنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔پنجاب اس حوالے سے پاکستان بھر میں سب سے آگے ہے۔ اس امر کا اندازہ 2022ءکے پہلے سات ماہ میں ڈکیتی اور راہزنی سمیت سنگین جرائم کی وارداتوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ سرکاری
اعدادو شمار کے مطابق اس عرصہ کے دوران 4,32,821 وارداتیں ہوئیں، ڈھائی ہزار سے زائد افراد ان واقعات میں زندگی کی بازی ہارے۔ 2302خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ یوں ہر روز دس خواتین ریپ کا نشانہ بنیں۔ گینگ ریپ کا شکار خواتین کی تعداد 159 رہی۔ اور اب تک ان اعدادوشمار میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ایک طرف عوام روزانہ کی بنیاد پر لٹ رہے ہیںتو دوسری جانب پولیس کے اعلیٰ افسران خواب خرگوش کے مزے لیتے نظر آتے ہیں۔وہ آئی جی پنجاب ہوں یا سی سی پی لاہور ، ہر کوئی اپنی سیٹ بچانے کی تگ و دو میں لگا نظر آتا ہے۔ پنجاب بھر میں آر پی او ز اور ڈی پی او ز کی تعیناتیاں سیاسی بنیادوں پر ہورہی ہیں ۔
ایسے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی کہنا پڑ گیا کہ بعض پولیس افسران کی موجودگی میں صوبہ میں صاف اور شفاف الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں ہے ۔ سابقہ صوبائی وزیر یاسمین راشد اور سابق سی سی پی لاہور غلام محمود ڈوگر کی لیک ہونے والی آڈیو اس امر کا ثبوت ہے کہ سیاستدانوں کے لیے اپنے منظور نظر پولیس افسران کی من پسند سیٹوں پر تعیناتیاں کس قدرضروری ہیں ۔ حقیقت حال ہے تو یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے لیے مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے پولیس ایک زبردست ہتھیار ہے۔عوام دہائیاں دے رہے ہیں جبکہ پنجاب کے اعلیٰ پولیس افسران فوٹو سیشن کرانے سے آگے نہیں بڑھ پار ہے ۔ انہیں معلوم ہوچکا ہے پر کشش سیٹوں پر تعیناتی عوام کے جان و مال کا تحفظ فراہم کرکے نہیں بلکہ سیاسی آقاﺅں کی خدمت کرکے ہوگی ۔ بعض پولیس افسران تو عوام سے ملنا درکنار ، اس حوالے سے فون اُٹھانا بھی پسند نہیں کرتے ۔ ایسے میں اطلاعات یہ ہیں کہ صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے الیکشن کی تاریخ دینے کے اقدام نے جہاں پی ڈی ایم سمیت سب کو حیران کیا ہے وہاں ردعمل میں پی ڈی ایم نے بھی صدر عارف علوی کے مواخذے کے لیے سنجیدگی سے غور شروع کردیا ہے۔ جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے تو ان کے لیے آنے والے دنوں میں عدالت کی جانب سے گرفتاری کے احکامات کا جاری ہونا خارج از امکان نہیں ۔ پی ڈی ایم کی قیادت اس امر پر اتفاق کرتی نظر آتی ہے کہ موجودہ حالات میں اگر عمران خان اور صدرعارف علوی کو کنٹرول نہ کیا گیا توحکومت کا چلنا مشکل ہو جائے گا۔ اس لئے سخت اقدامات اٹھانے کا وقت آن پہنچا ہے۔ گویا بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ پی ٹی آئی کے قیادت اس مغالطے کا شکار نظر آتی ہے کہ عمران خان کی گرفتاری پر لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ ایسا کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آتا۔ مہنگائی کے مارے عوام اپنے مسائل سے نبرد آزما ہیں وہ عمران کے لیے تو سڑکوں پر نکلتے نظر نہیں آتے ۔ البتہ آئی ایم ایف کے سامنے چاروں شانے چت حکومت کے عوام کش اقدامات اسے سڑکوں پر لاسکتے ہیں۔
جہاں تک عام عوام کا تعلق ہے تو آپ کو ہر بندہ پریشان نظر آئے گا۔ کوئی بجلی کا بل پکڑ کر دھائیاں دے رہا ہے تو کوئی گیس کا بل وصول کر کے ہوش کھوتا نظر آتا ہے۔ رہی سہی کسر مہنگائی نے نکال دی ہے ۔ تیس سے چالیس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لینے والے کو یہ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کا پیٹ کیسے پالے۔ سفید پوش طبقہ تیزی سے غربت کی لکیر سے نیچے جارہا ہے۔ امیر اور غریب میں تفاوت اس وقت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ کسی بھی وقت کوئی خطرنا ک موڑ لے سکتی ہے۔ کوئی ایک واقعہ بھی حالات کو قابو سے باہر لے جاسکتا ہے جس کا پاکستان ہرگز متحمل نہیں۔ آتش پھٹنے کو تیار ہے تاہم ارباب اختیار ہیں کہ وہ عام آدمی کی برداشت کو مزید ٹیسٹ کرنے پر تُلا ہوا ہے۔وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیان پر محض ہنسا ہی جاسکتا ہے ۔ عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیسنے کے بعد انکا مگر مچھ کے آنسو رونا واقعی قابل دید ہے۔ موصوف کا کہنا ہے کہ غریب کی بستی پر بلڈوزر کیوں، غریب کو گالف کلب میں بسائیں۔

تبصرے بند ہیں.